روزانہ کی طرح آج بھی صبح کالج جانے کیلئے اٹھا، ابھی
اٹھا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی، دروازہ کھولا تو سامنے دودھ والے کو
کھڑا پایا، دودھ والے نے دودھ کی تھیلی ہاتھ میں تھمائی اور چلتا بنا، میں
تھوڑی دیر تک دودھ کو دیکھتا رہا، سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ دودھ میں پانی
ملایا ہے یا پانی میں ذرا سا دودھ، بہرحال میں نے دودھ کی تھیلی کچن میں
رکھی اور کالج جانے کی تیاری شروع کردی اور تیاری مکمل کرنے کے بعد اپنی
موٹرسائکل نکالی اور گھر سے رخصت ہو گیا، ابھی موٹر سائکل اسٹارٹ ہی کی تھی
کہ اوپر کی جانب نگاہ پڑی تو اپنے پڑوسی کو کنڈا لگاتے دیکھا, میں تھوڑی
دیر تک دیکھتا رہا، بہرحال میں نظریں جھکا کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو
گیا، ابھی کچھ ہی سفر طے کیا تھا کہ ایک سگنل پر لال لائٹ دیکھ کر میں رک
گیا ، بائیں جانب نگاہ پڑی تو ایک درخت کی چھاؤں میں بیٹھے ٹریفک پولیس
والے کو آرام فرماتے دیکھا، کچھ لوگوں نے موقعے کا فائدہ اٹھا کر سگنل توڑ
دیا، میں دیکھتا رہا، بہرحال سگنل کھلنے پر میں اپنی منزل کی جانب روانہ ہو
گیا۔یہ تمام مناظر دیکھ کر جب میں کالج پہنچا تو معلوم ہوا استاد آج پھر
چھٹی پر ہیں، یہ رواں ہفتے انکی تیسری چھٹی ہے، بہر حال میں گھر واپس آ
گیا۔ گھر پہنچ کر میں نے آرام کی غرض سے کمر سیدھی کی اور ٹی وی کھول لیا،
ٹی وی میں ہر چینل پر ہمارے حکمرانوں کی کرپشن کی خبریں چل رہی تھیں، میں
تھوڑی دیر تک دیکھتا رہا اور یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ جس قوم میں ایک
دودھ فروش سے لے کراستاد تک ہر انسان ضمیر فروش ہے اس قوم کے حکمران آخر
اپنی قوم سے کیسے مخلص ہو سکتے ہیں؟ اس کے ساتھ میں نے ٹی وی بند کر دیا
اور سکون کی نیند سو گیا۔
|