نفرت اور نفاق

دنیا کے مہذب اورمتمدن معاشروں میں '' استحکام ریاست'' کیلئے سیاست کی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں چندخاندان ریاست کیلئے نہیں بلکہ اپنی نجی تجارت چمکانے کیلئے مقروض ریاست کے ساتھ بدترین سیاست کر ر ہے ہیں اوراگراس بار بھی چوروں کا بے رحم احتساب نہ ہواتوشایدآئندہ بھی یہ کوتاہ اندیش سیاست کی آڑ میں ریاست کاپوسٹ مارٹم کرتے رہیں گے۔جو چار دہائیوں تک ملک میں شیطانیاں، من مانیاں،بداعمالیاں ،بدعنوانیاں اوربدزبانیاں کرتے رہے ہیں،ان عناصر نے تین ماہ کی نوزائیدہ حکومت سے حساب مانگا ہے مگراپنے احتساب کوسیاسی انتقام قراردے رہے ہیں۔ نیب کواس نے عیب کہاجو خود'' داغی'' ہے لہٰذاء اس کے بیان کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں ۔نیب کسی آسیب کی طرح چوروں کوچمٹ گیا ہے لہٰذاء درد کی شدت سے چورکچھ زیادہ شورمچاررہے ہیں،میں توچوروں سے ہمدردی اورنرمی کوبھی گناہ سمجھتاہوں۔ کپتان چوروں کوڈھیل دے یاان سے ڈیل کرے ،مجھے مضبوط اعصاب والے عمران خان سے کسی کمزورفیصلے کی امید نہیں ہے ۔چوروں کے نزدیک نیب ایک ''ولن''جبکہ معاشرہ اسے ہیرومانتاہے۔ہرفلم میں ولن کودی جانیوالی گالیاں درحقیقت اس کے حق میں اعزازی سندشمارہوتی ہیں کیونکہ اس نے اپنا''کردار''بخوبی نبھا یا ہوتا ہے۔چوروں کانیب کیخلاف اتحاد فطری ہے مگر اس اتحاد سے ان کااِ حتساب نہیں رُک سکتا۔مجھے ان افراد کے ''شعور'' پرتعجب ہے جوشہبازشریف کے پارلیمنٹ میں'' شور'' کوخطاب کانام دے رہے ہیں، موصوف اپنی صفائیاں اوررہائی کیلئے دوہائیاں دے رہے تھے۔شہبازشریف نے قومی ایشوزپر کسی قسم کاکوئی تبصرہ یااظہارخیال نہیں کیا ۔وزیراعظم ہویااپوزیشن لیڈر جوکوئی چوری میں ملوث پایاجائے اس کی گرفتاری اوراس کاریمانڈ قانون کی ڈیمانڈ ہے ،سچائی تک رسائی کیلئے ہرملزم کی گرفتاری ناگزیر ہے اگروہ مجرم ہوگاتوجیل اس کامقدرہوگی ۔جس نے قومی وسائل میں نقب لگاتے ہوئے ہم اورہمارے مقروض ملک پررحم نہیں کیا نیب اس پرہرگزرحم نہ کرے ۔

ریاست سیاست کے بغیر بھی اپناوجودبرقراررکھ سکتی ہے مگرمضبوط معیشت اورفعال ریاستی اداروں کے بغیر اسے برباد ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ سرمایہ دارسیاستدان ریاستی اداروں کواپنادشمن قراردیتے ہوئے محض تجارت کیلئے دشمن ملک سے دوستی کانعرہ لگاتے ہیں،ان کے نزدیک مادروطن کی سا لمیت،قومی حمیت اور ہمارے شہیدوں کی کوئی اہمیت نہیں ۔تجارت اورسیاست کرنے میں کوئی قباحت نہیں مگرکسی کوریاست کی قیمت پران دنوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔سرمایہ دار طبقہ سیاست میں آ نے کے بعدقومی معیشت کوشیرمادرسمجھتاہے،کئی دہائیوں بعدمیں پاکستان میں ایساسیاستدان وزیراعظم منتخب ہواجوسرمایہ دار اورصنعتکارنہیں ،جس کی سیاست ریاست کیلئے ہے۔کامیاب ٹریڈر مخلص ومدبر لیڈر نہیں ہوسکتا،کیونکہ یہ عوام کی خالی جیبیں یا جھولیاں نہیں بلکہ اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ انسان کی نیت دیکھتا ہے جبکہ ہم لوگ صرف نتیجہ دیکھتے ہیں۔عمران خان کی ریاست کے انتظامی امور بارے قابلیت اور صلاحیت پر بحث ہوسکتی ہے مگر اپنی تاریخی کامیابیوں کی بنیاد پروہ بلاشبہ ایک نیک نیت انسان ہیں باقی نتیجہ اﷲ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔عمران خان پاکستان میں ریاست مدینہ والے نظام کے خواہا ں ہیں جوہرسچے مسلمان کادیرینہ خواب ہے لیکن بدقسمتی سے وہ مٹھی بھرلوگ اس سوچ کامذاق اڑارہے ہیں جواپنے دوراقتدارمیں پاکستان کوپیرس بنانے کادعویٰ کیا کرتے تھے،پاکستان بلاشبہ ریاست مدینہ کی طرح دنیا کی دوسری نظریاتی ریاست ہے،ہم اپنی دعاؤں کی قبولیت کیلئے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی طرف دیکھتے ہیں،اسلامی ریاست کو پیرس بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔میں پاکستان کاوفادارہوں اسلئے ضرورت کے تحت کپتان پرتعمیری تنقید کرتاہوں اورآئندہ بھی کروں گامگراپنے ہم وطنوں کو مایوس کرنامجھے پسندنہیں کیونکہ مایوس کفر ہے۔14اگست 1947ء سے اب تک پاکستان میں کئی بحران پیداہوئے جووقت کے ساتھ ساتھ اپنی موت آپ مرگئے۔پاکستان دنیا کاواحدملک نہیں ہے جہاں بحران پیداہوتے ہیں،مادروطن نے ماضی میں بھی کئی طوفانوں اوربحرانوں کاسامناکیا اوران میں سے ابھراہے۔الحمدﷲ ہمارا محبوب وطن پاکستان معبودبرحق سے روشن مستقبل لے کرمعرض وجودمیں آیاہے۔اسلامیت ،روحانیت اورپاکستانیت کے درمیان بہت گہراتعلق ہے۔ جوعناصرپاک فوج،آزادعدلیہ اورنیب سمیت ریاستی اداروں کیخلاف زہراگلتے ہیں ،میں انہیں ریاست کا دوست نہیں سمجھتاکیونکہ'' ہماری موج ہماری فوج سے'' ہے ۔میں اپنے ہم وطنوں کونویدسناتاہوں وہ اپنے اور ملک عزیز کے مستقبل بارے ہرگز پریشان یامایوس نہ ہوں لیکن اس بار چوروں کویقیناکیفرکردارتک پہنچایاجائے گا۔

وزیراعظم عمران خان کی رگ رگ میں خون نہیں جنون دوڑتا ہے،وہ ریاست بچانے کیلئے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں،میں وثوق سے کہتاہوں کامیابی وکامرانی ان کامقدرہوگی کیونکہ پاکستان ہمارے کپتان کی ناکامی کے متحمل نہیں ہوسکتا۔عوام یادرکھیں عمران خان کومعاشی بحران سمیت پیچیدہ مسائل ورثہ میں ملے، ظاہر ہے چار دہائیوں کاگندراتوں رات صاف نہیں ہوگا۔ بدعنوانوں اورقومی بحرانوں سے نجات کیلئے روڈمیپ اور ٹائم فریم اشدضروری ہے کیونکہ اگرنومنتخب حکومت نے عجلت سے کام لیا تو الٹانقصان بھی ہوسکتا ہے۔اگرخدانخواستہ عمران خان ناکام ہوگیا تواس کے بعد اقتدارمیں آنیوالی بے لگام اور زورآوراشرافیہ عوام کوبدترین انتقام کا''نشانہ ''بناتے ہوئے ''نشان عبرت'' بنادے گی اورپھرشایدکوئی دوسراعمران خان جوش وجذبہ اورجنون کے ساتھ بدعنوانی ،بدانتظامی اور انتقامی سیاست کیخلاف مزاحمت نہ کرے لہٰذاء عوام پی ٹی آئی حکومت کے بعض سخت اقدامات کے اثرات کوصبروتحمل سے برداشت کریں،عنقریب آسانی اورآسودگی کادورشروع ہوگا ۔ میں سمجھتا ہوں ریاست اورحکومت کے پاس آئی ایم ایف واحدآپشن نہیں تھالیکن شاید سیاسی دباؤیااندرونی سازشوں کے سبب ارباب اقتدار کوئی آبرومندانہ اوردانشمندانہ حل تلاش نہیں کرپارہے ۔وزیراعظم عمران خان عنقریب دوبارہ سعوی عرب کے دورہ پرجانیوالے ہیں اوراس باریقینا خالی ہاتھ واپس نہیں آئیں گے۔قوی امید ہے کپتان کوآئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ۔میں ماہرین معیشت سے پوچھناچاہتاہوں ان کے پاس کوئی متبادل نظام کیوں نہیں ہے، پاکستان کو کب تک بیرونی امدادیا قرض پرانحصار کرناہوگا۔ہماری ایٹمی ریاست کی معاشی صلاحیت کی کمزور ی کاسبب پاکستان کابہت زیادہ پیسہ بیرون ملک منتقل ہونا ہے،اس حساب سے منی لانڈرنگ کرنیوالے قومی مجرم ہیں۔اگرماضی کے شعبدہ بازوں نے شاہراہوں اورپلوں کی بجائے قومی وسائل صنعت اورزراعت کے فروغ کیلئے صرف کئے ہوتے توآج بیرونی قرض کے بوجھ سے پاکستان کی کمراور گردن ہرگزنہ جھکتی ۔سخت ترین شرطوں پرلیاگیاقرض قومی معیشت کیلئے کسی مہلک مرض سے زیادہ خطرناک ہے ،سودزدہ معاشی نظام کسی اسلامی ریاست کیلئے سودمند نہیں ہوسکتا۔اسرائیل نوازمالیاتی اداروں سے خیرات مانگنے سے بہتر تھااوورسیزپاکستانیوں سے قرض حسنہ یا ریاست کی مالی اعانت کاتقاضاکیاجاتاتووہ ہرگز مایوس نہ کرتے ۔

کپتان شایدوزرات ''عظمیٰ''کومنزل سمجھ رہے تھے حالانکہ اب توان کا سفر شروع ہوا ہے،اس سطرمیں'' سفر''کواردواورانگلش دونوں زبانوں میں پڑھاجائے۔ معاشی وانتظامی چیلنجزکے سبب کپتان عمران خان وزیراعظم ہاؤس میں محصور ہوکررہ گئے ہیں اب شاید انہیں سیاست کیلئے وقت نہیں ملتاورنہ ضمنی الیکشن کانتیجہ قدرے مختلف ہوتا۔ وفاقی کابینہ میں بیسیوں وزراء ہیں مگر حکومت کیخلاف گرینڈاپوزیشن کی میڈیایلغار کادفاع وزیراعظم عمران خان ،وفاقی وزیراطلاعات چوہدری فوادحسین ،پنجاب کے صوبائی وزراء عبدالعلیم خان ،میاں اسلم اقبال،چوہدری سمیع اﷲ اورفیاض الحسن چوہان کے سوا کوئی نہیں کررہا جبکہ اسدعمراپنے پیشرواسحق ڈار کے گیت گارہے ہیں۔عمران خان کے دیکھادیکھی ان کے وزیروں ،مشیروں اورپارٹی عہدیداروں نے بھی حالیہ ضمنی الیکشن کی سرگرمیوں میں کسی قسم کی دلچسپی لی اورنہ اپنے نامزدامیدواروں کی کامیابی کیلئے کوئی کرداراداکیا۔پی ٹی آئی نے بحیثیت جماعت ضمنی الیکشن میں متحدہ اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کی بجائے صرف امیدواروں کودھکا دیا تھا جواپنے اپنے زوربازوسے محض مسلم لیگ (ن) نہیں بلکہ ان کے اتحادیوں کا مقابلہ کرتے رہے ۔پاکستان میں کئی دہائیوں سے نفرت اورتعصب کی سیاست کادوردورہ ہے تاہم اس'' نفرت'' نے پاکستانیوں کو''نفاق ''اور''نالائق'' سیاسی قیادت کے سواکچھ نہیں دیا۔ایک زمانہ تھا جب پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) کے درمیان عداوت،رنجش اور نفرت کارشتہ تھا ،مگراب مسلم لیگ(ن)،پیپلزپارٹی،اے این پی اورجے یوآئی سمیت ان کی ہم خیال پارٹیوں کی نفرت کاواحدمرکز پی ٹی آئی اورکپتان ہے ،مسلم لیگ (ن) اوراس کے اتحادی مسلسل اس نفرت کوہوادے رہے ہیں،مسلم لیگ (ن) کی حالیہ نصرت درحقیقت اس نفرت کاشاخسانہ ہے جودانستہ پی ٹی آئی کیخلاف پیداکی گئی۔ حالیہ ضمنی الیکشن میں ہمایوں اخترخان اورمنشاء سندھو سمیت پی ٹی آئی کے امیدواروں کو اپوزیشن پارٹیوں کی نفرت اوران کے تعصب نے شکست دی۔ اس نفرت کے ساتھ ساتھ ہمایوں اخترخان کوپی ٹی آئی کے اندرونی حاسدین نے بھی ہرانے میں کلیدی کرداراداکیا۔اگرمہنگائی پی ٹی آئی کی شکست کاسبب ہوتی توپھرشاید ایک بھی بلے بازکامیاب نہ ہوتا۔

ضمنی الیکشن کے دوران کسی حلقہ میں بلے نے بازی جیتی توکسی حلقہ میں شیر بھاری رہا ۔سیاسی پنڈت اورتجزیہ نگاراپنے اپنے اندازمیں اسے پی ٹی آئی کی شکست قراردیتے ہوئے اس کے اسباب بیان کررہے ہیں مگران سے متفق نہیں ہوں کیونکہ پی ٹی آئی بحیثیت جماعت ضمنی الیکشن کے میدان میں نہیں اتری ، پی ٹی آئی کی قیادت نے شاید ضمنی الیکشن کو شجرممنوعہ سمجھ لیا تھا۔ایوان اقتدار کی ''ٹھنڈ'' نے شاید پی ٹی آئی کاجنون''ٹھنڈا''کردیاہے۔ پی ٹی آئی کے نامزدامیدواروں بالخصوص ہمایوں اختر خان اورمنشاء سندھو نے تنہا گرینڈاپوزیشن کامقابلہ کیا،انتخابی مہم کے دوران ہمایوں اخترخان کو کردارکشی کاسامناکرناپڑا مگروہ خاموشی سے سہتے رہے حالانکہ جواب میں بہت کچھ کہاجاسکتا تھا ۔پی ٹی آئی کی قیادت نے کسی بھی سطح پرضمنی الیکشن کی انتخابی مہم میں دلچسپی لی اورنہ اپنے کارکنوں کوہدایات دیں نتیجتاً اب تک ناقابل شکست ہمایوں اخترخان ا س بار ناکام رہے ۔اگرمیں عمران خان ہوتاتولاہورسے خالی ہونیوالی صوبائی اسمبلی کی سیٹ کیلئے ہمایوں اخترخان کونامزداور کامیابی کی صورت میں انہیں وزیراعلیٰ پنجاب بناتا ۔پی ٹی آئی کی طرف سے این اے124میں کامیابی پلیٹ میں رکھ کر مسلم لیگ (ن) کو پیش کی گئی،اس حلقہ سے پی ٹی آئی کے امیدوارنے مقابلہ نہیں کیا ،شاہدخاقان عباسی کے مقابلے میں ایک موزوں اورقدآورامیدوارکومیدان میں اتارنے کی ضرورت تھی ۔میں گرینڈاپوزیشن کی جیت کو پی ٹی آئی کی شکست نہیں سمجھتا ۔کپتان ریاست کے ساتھ ساتھ سیاست اورجماعت کوبھی مناسب وقت دیں کیونکہ حکمران جماعت کے کمزور پڑنے سے ا ن کی حکومت پرگرفت ڈھیلی ہوگی ۔
 

MUHAMMAD Nasir Iqbal Khan
About the Author: MUHAMMAD Nasir Iqbal Khan Read More Articles by MUHAMMAD Nasir Iqbal Khan: 14 Articles with 11188 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.