انسانی تاریخ کے جاری سفر میں مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام
اپنے حق آزادی کیلئے اپنی جانوں کی قربانی کو مقصد کے حصول کا واحد ہتھیار
بنا چکے ہیں جن کی صبح کا آغاز سورج کی کرنوں کے ساتھ گھروں سے نکلتے ہوئے
گلی کوچوں سے غول در غول بنتے چوکوں پر آ کر شاہرات پر آزادی کے نعروں سے
ہوتا ہے جیسے معصوم چڑیاں اور کبوتر بیدار ہوتے ہی اپنے گھونسلوں سے نکلتے
ہیں اور پھر غولوں کی شکل میں اپنی ایک جیسی لفظوں والی بولیاں بولتے یکجا
آواز کے ساتھ پرواز کرتے نظر آتے ہیں ایسے ہی بغیر کسی رابطے اطلاع اور
تنظیم کے نوجوان اپنے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اور ان کے نعرے ایک جیسے
لفظوں والے جملوں کے ساتھ آواز میں آواز ملاتے مقصد حیات کا نعرہ لگاتے جمع
ہو جاتے ہیں اور قابض افواج کی طرف سے پیلٹ گنوں ‘ آنسو گیس کے گولوں سمیت
جان لیوا گولیوں کے سامنے پتھروں سے مقابلہ کرتے ہوئے ظلم کیخلاف مظلوم کے
حسینی جذبے کی طاقت بن جاتے ہیں جس کے سامنے قابض فوج کے بستیوں کو روندتے
سے لیکر عقوبت خانوں کو بھرنے اور لاشیں گرانے سے لیکر بزرگ مرد خواتین
نوجوانوں بچوں تک کو پیلٹ گنوں کا نشانہ بنا کر سارے جسم کو چھلنی کرنے
خصوصاً چہروں کو عبرت کا نشانہ بنا کر آنکھوں کی بینائی چھین لینے تک کے
زندہ لاش بنا دینے کے بربریت کے وحشی جانوروں سے بدتر ہتھکنڈے استعمال کیے
مگر سب ناکام ہو گئے اور برہان وانی جیسے کھیل کے میدان کا کھلاڑی بطل حُر
بن کر اپنی شہادت سے ساری فوج اور اس کی بارودی طاقت کا غرور خاک میں ملا
کر کشمیر کے ہر جوان اور بچے کو ایٹم بم سے زیادہ جذبہ حریت کے نعرے کا عشق
چڑھا وا پہنائے چلا جا رہا ہے جس کا حسینی جلوہ ڈاکٹر منان وانی کی شہادت
سے لیکر سفر آخرت کی منزل تک سب نے دیکھا جس کی ماں کا اس کے پیروں کے
جوتوں کو معصوم بچوں کی طرح بوسے دیتے ہوئے مقدس آنسوؤں کے پاکیزہ قطروں کی
بوچھاڑ میں لپٹ جانے کا جذبہ مامتا ثابت کرنا ہے مائیں مقدس مقصد پر قربان
ہونے والے جگرگوشوں کے جوتوں کو لبوں سے چومتیں ہیں تو لاکھوں انسانوں کے
کارواں میں پھولوں کی بارش کے ساتھ اللہ اکبر و کلمہ آزادی کا ورد کرتے
خراج عقیدت سے بڑھ کر دنیا کی کوئی نعمت ہے نہ سعادت ہے عام طبعی موت یا
حادثات میں زندگی کو الوداع کرنے والوں کی نماز جنازہ کے بعد ان کے چہروں
کو سب دیکھتے ہیں نورانی چہرے والے بھی ہوتے ہیں لیکن میرے اندر یہ ہمت
نہیں ہوتی روح کے قبض کرنے کے سب سے زیادہ تکلیف دے لمحات سے دوچار ہونے
والوں کا آخری دیدار کر سکوں باوجود اس کے اللہ رحیم کریم نے رسول کریم
رحمت اللعالمین کے صدقے ان کے اُمتیوں پر آخری وقت تک پردے کا احسان عظیم
کیا ہوا ہے مگر وادی چنار کے ہر بطل حُر کے چہروں کو دیکھ کر رب کی شان پر
قربان ہونے کا دِل کرتا ہے جہاں ہر قربان ہونے والے کے چہرہ دونوں جہانوں
کی سب سے عظیم رحمت سعادت سے سرفراز ہونے کا اظہار کر رہا ہوتا ہے ‘ منان
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پی ایچ ڈی کر رہا تھا جس کا تبسم و ہنسی کے امتراج
سے روشن نوری چہرہ بتا رہا تھا اپنی قوم کیلئے قربان ہو کر خوشی سے کھل
کھلا اُٹھا ہے اور کن کے پاس جا رہا ہے یقیناًوہ اللہ کے پیارے رحمت
اللعالمین کے نور و راحت شہنشاہ شہداء مولا حسینؑ کے مہمانوں کی سعادت سے
اپنے دوستوں سمیت سرفرازہو گیا ہے جس کی زندہ و جاویداں نیک پر ہیز گار
کامل انسانوں کی طرح فاتحانہ مسکراہٹ جدوجہد حریت کی کامیابی مقدر ہے کی
گواہی اور کرامت ہے اللہ رب العزت امتحانوں کے اس سفر میں شہداء کے وارث
حروں کو اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے یہاں آزادکشمیر اور بیرون ممالک
کشمیری اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنا حق ادا کرتے ہیں مگر اس کو نمازوں کے
فرض کی طرح ایمان تنظیم اتحاد کی تسبیح کا تقدس دینے کی ضرورت ہے ‘ تمام
سیاسی جماعتوں ‘ ملازمین ‘ محکموں جبکہ تعلیمی اداروں کا ہر جمعہ یا ہفتہ
باری باری اضلاع کی سطح پر احتجاج کا کلینڈر بنا دیا جائے تو دو سال بعد سب
سے پہلے کرنے والی کی باری آئے بیرون ممالک کشمیری شہروں کے حساب سے ہر
ہفتہ نہ سہی ماہانہ ترتیب پر حکمت عملی اختیار کر لیں تو یہ در حقیقت کشمیر
کے عوام کی آواز میں آواز ملانے کا فرض اولین ہے کاش کہ ہم بھی اللہ اور
اُس کے رسول کی بارگاہ میں مقبول شہادت کا جام پینے کے حقدار بن جائیں رب
شداء کشمیر کے بدنوں سے لپٹے سبز ہلالی پرچم کو سربلند و تابناک اپنا سایہ
خدائے ذوالجلال بنائے رکھے آمین ۔ آج آزاد حکومت کا یوم تاسیس منایا جا رہا
ہے جس کے ایک ملک جیسے نظام کے بیج اور گھنی جڑیں شہداء کی تحریک کا ہی
خراج ہیں جس سے جڑے سب لوگوں کو اس کے مقصد کو بطور اتحاد ‘ تنظیم انجام
دینا ہو گا ۔ کرنل سہیل شہید یہ اشعار سب شہداء کا کلام ہیں ۔
میری وفا کا تقاضہ کہ جان نثار کروں
وطن کی مٹی میں کچھ ایسا تجھ سے پیار کروں
میرے لہو سے جو تیری بہار باقی ہو
میرا نصیب کہ میں ایسا بار بار کروں
جو خون سے چمن کو بہادر سونپ گئے
سہیل میری دعا ہے میں شہید کہلاؤں
میں کوئی کام ایسا یاد گار کروں
|