صحافی دوستوں سے معذرت اور مرتضی کی برسی

فاطمہ بھٹو کی ایک تحریر مجھ پر قرض ہے جو انہوں نے اپنے والد میر مرتضی بھٹو کے قتل کے بعد ایک موقعہ پر لکھی تھی جسے میں آج شامل کرونگا تاخیر کی معذرت چاہتا ہوں مگر اس سے پہلے چند باتیں کچھ ایسے مغرورافراد کے بارے میں افسوس سے کہوں گا جواپنے اندر کا کڑوا پن ظاہر کیے بغیر نہیں رہ سکتے عادت سے مجبور ایسے افراد کو کسی کی محنت سے کیا ہوا کام رتی برابر بھی اچھا نہیں لگتا کیونکہ ایسے پروگرام میں انکی تعریف نہیں ہو رہی ہوتی اسی ماہ اکتوبر کی 20تاریخ تھی جب لاہور کے ایک سینئر صحافی کی خدمات کے اعتراف میں ایک شام انکے نام منائی جارہی تھی چونکہ شام ایک صحافی کے نام تھی تو اس لیے زیادہ تر اسی قبلیے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی اس پروگرام میں شامل تھے اس پروگرام کا مقصد نہ تو کسی کی جیب کاٹنا تھی اور نہ ہی کسی کی توہین کرنا تھی مقصدتھا کہ ایک ایسے فرد کی خدمات کا اعتراف کیا جائے جس نے اپنے پیشے سے مخلص رہتے ہوئے نام کمایا اور یہ میرا اس طرح کا تیسرا پروگرام تھا سب سے پہلے خالد بٹ جو اس وقت پاکستان ابزرور کے ایڈیٹر ہیں کی خدمات کے اعتراف میں انہیں انکی پسندیدہ جگہ بہاولپور جہاں سے انہوں نے صحافت کا آغاز کیا ووہاں پر اپنے چند دوستوں کے ساتھ انہیں خراج تحسین پیش کیا بہت ہی پیار کرنے والے دوست روف طاہر صاحب بھی ہمارے ساتھ لاہور سے بہاولپور تک کے سفر میں شام تھے دوسرا پروگرام اسی جگہ پر کیا گیا جہاں پر میں نے اپنا تیسرا اور آخری اس نوعیت کا پروگرام کیا ہے انسانی خدمات کے اعتراف کے حوالہ سے دوسرا پروگرام خوشنود ڈوگر پر تھا جنہوں نے خدمت خلق کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور ان دونوں پروگرامز میں کوئی صحافی مدعو نہیں کیا گیا تھا جسکی وجہ سے یہ وہاں پر کوئی کوئی بد مزگی پیدا نہیں ہوئی اور یہ تمام کے تمام یعنی تینوں پروگرام میں نے اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے کیے تھے مقصد صرف یہ تھا کہ زندگی کے نشیب وفراز سے کامیاب ہوکر نکلنے والے افراد کی قدر کی جائے اور انکی زندگی کے ان رازوں سے بھی واقفیت حاصل کی جائے جو کسی نہ کسی گوشے میں سرگوشیاں کررہے ہوتے ہیں اور اسی مقصد کے لیے میں نے یہ تیسرا پروگرام ایک ایسے شخص کے ساتھ رکھا جو گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکا تھا جسکے سامنے ہر راز عیاں تھا مگر حیرت اس وقت ہی جب وہ بھی تنقید کرنے والوں کے ساتھ شام ہوگیا بھائی پوچھنا صرف یہ تھا کہ آپکی خدمات کے اعتراف میں جوپروگرام تھا اسے آپ کے حلقہ احباب نے ہی سننا تھا جلسہ تو تھا نہیں کہ کرایے کے بندے لاکر بٹھا دیے جاتے آپکے تمام دوستوں تک پیغام پہنچانا میرا کام تھا جو کردیا اب کسی کو گھر سے اٹھا کر لے آنا میرا کام تو نہیں تھا رہی بات کھانے اور پینے کی تو جناب واضح کرتا چلوں کہ یہ کوئی دعوت کا پروگرام نہیں تھا مگر اسے باوجود پروگرام کے آخر میں نہر کنارے ہوٹل پر سب انتظام موجود تھا اسی پروگرام میں جہاں یہ گلہ کیا گیا کہ پانی تک موجود نہیں تھا تو اس حوالہ سے جناب امجد اقبال صاحب سے پوچھ لیں جنہیں ملا کہ نہیں ہاں جب آپ لوگ میرے بیٹے کے ولیمے پر آئیں گے تب آپ کا ہر اعتراض بنے گا آپ کے اس پروگرام کا مقصدمیرے نزدیک پیسہ کمانا یا شہرت حاصل کرنا نہیں تھا صرف آپکی باتیں سننا تھا جو کسی اور رنگ میں آپکے دوستوں اور پھر آپ نے سنا دی میں اپنے اس اقدام پر آپ سے اور آپکے تمام دوستوں سے شرمندہ ہوں اور معافی چاہتا ہوں کہ جو ظلم اور زیادتی میری طرف سے سر زد ہوگئی اسے آپ اور آپ جیسے باقی کے بھی عظیم صحافی لوگ معاف فرمادیں گے ہاں ایک اور بات مگر معذرت کے ساتھ کہ میں یہ سلسلہ روکنے والا نہیں ہوں اب ایسے افراد کے ساتھ میں اکیلا ہی شام منا لیا کرونگا اسکی باتیں سنوں گا اور اپنے انداز میں اسے خراج تحسین پیش کیا کرونگا تنقید کرنا آپ کا حق ہے مگر اس وقت جب آپکی کوششیں بھی اس میں شامل ہوں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے انسان بڑا نہیں بنتا بلکہ در گذراور پیار کرنے سے انسان بڑا ہوتا ہے مگر منافقت کی صحافت اور گروپ بندیوں نے ہمیں اندر سے کھوکھلا اور باہر سے بہروپیا بنا دیا ہے ہمارے اندر حسد کی آگ کا جو بھانبڑ جل رہا ہے وہ سوائے اپنی خود نمائی کے اور کچھ قبول ہی نہیں کرتا اگر کسی دوست کو برا لگے تو ایک بار پھر معافی کا خواستگار ہو ۔اب جگہ کی کمی کے باعث فاطمہ بھٹو کی تحریر کا آخری حصہ پیش خدمت ہے جو میں نے 20 ستمبر کو دینا تھا مگر فاطمہ بھٹو سے بھی تاخیر کی معذرت چاہتا ہوں۔ ہمارے گھر(70 کلفٹن) کے باہر ہونے والی شدید فائرنگ 45 منٹس کے بعد رْک چکی تھی۔میرے پاپا(میر مرتضیٰ بھٹو) کی اب تک کوئی خبر نہی تھی۔میں اپنی امی(غنویٰ بھٹو) کیساتھ حالات کا جائزہ لینے کے لیئے باہر آئے اور پولیس والوں سے فائرنگ کی وجہ پوچھی تو انھوں نے جواب دیا کہ کچھ ڈاکوؤں سے ہمارا مقابلہ ہوا ہے،باہر خطرہ ہے اس لیئے آپ اپنے گھر پے رہیں۔پولیس والوں پے یقین کر کے ہم واپس گھر آئے۔کچھ دیر بعد مجھے پتہ چلا کہ باہر ہونے والی فائرنگ کسی اور پہ نہی بلکہ میرے پاپا اور انکے ساتھیوں پے ہوئی ہے۔فائرنگ بند ہونے کے بعد 40 سے 50 منٹس تک میرے پاپا اور انکے ساتھیوں کو جائے وقوعہ پے ہی تڑپتا چھوڑ دیا گیا،،جسکا مقصد صرف یہی تھا کہ خون زیادہ بہنے کی وجہ سے تمام زخمی جن میں پاپا بھی شامل تھے اپنے آپ مر جائیں۔اس پولیس کاروائی کا مقصد اور ٹارگٹ صرف ایک ہی تھا،میرے پاپا کو قتل کرنا۔یہ ایک مْنظم اور طے شدہ منصوبہ تھا،جسکی تیاری پولیس والوں کی جانب سے پچھلے کئی دنوں سے جاری تھی۔فائرنگ کے بعد پاپاکے کافی ساتھی موقعہ پے ہی شہید ہو چکے تھے،لیکن پاپا زخمی اور زندہ تھے۔اگر پاپا کو جلدی سے طبی سہولت مل جاتی تو وہ بچ سکتے تھے،لیکن پولیس کو پاپا کے قتل کے احکامات ملے ہوئے تھے تو وہ کیوں پاپا کو طبی سہولت دلواتے۔فائرنگ بند ہونے کے تقریبا 50 منٹ بعد پاپا کو پولیس کی گاڑی میں رکھا گیا اور اْسی گاڑی کے اندر پاپا کو انتہاتی نزدیک سے چہرے پے گولی ماری گئی اور یہی گولی میرے پاپا کی موت کی وجہ بنی۔اس کے بعد انکو (مڈ ایسٹ) ہسپتال منتقل کیا گیا۔یہ ایک ایسا ہسپتال تھا جس میں ایمرجنسی اور آپریشنز وغیرہ کا کوئی خاص انتظام نہی تھا۔جب مجھے پاپا کے زخمی ہونے کا پتا چلا تو میں نے وڈی(آنٹی بینظیر بھٹو کو میں بچپن سے سندھی میں وڈی کہ کر بلاتی تھی) کو جو اسلام آباد میں موجود تھیں،انکو فون کیا۔میرا فون وڈی کے کسی پی-اے نے اْٹھایا تو میں نے کہا وڈی سے میری بات کروائیں،تو اس نے کہا وزیرِ اعظم صاحبہ سے آپکی بات نہیں ہو سکتی،آپ آصف زرداری سے بات کریں،جس سے میں بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔زرداری نے فون اْٹھایا تو میں نے کہا مجھے آپ سے بات نہیں کرنی،وڈی سے میری بات کروائیں۔میرا لہجہ سن کے زرداری نے کہا کہ اس واقعے کا الزام آپ مجھ پے دے رہی ہیں،تو میں نے کہاکہ الزام لگانے کے لیئے فون نہی کیا اور نہ ہی آپ سے بات کرنے کے لیئے فون کیا ہے،مجھے وڈی سے بات کرنی ہے،،جواب میں زرداری نے کہا کہ آپکی اْنسے بات نہی ہو سکتی اور فون بند کر دیا۔وڈی سے رابطہ نہ ہونے کے بعد میں امی کیساتھ ہسپتال پہنچی اور اپنے پاپا کو دیکھا،جنکی نیوی بلیو قمیص شلوار خون سے بھر چکی تھی۔میں نے پاپا کے چہرے کو ہاتھ لگایا اور انکے چہرے کو چوما اور پیار کیا اور ڈاکٹرز کے آنے کا انتظار کیا۔ڈاکٹرز ہمارے آنے کے بھی بعد میں پہنچے تھے وہاں۔پاپا کے چہرے سے جب میں نے اپنا ہاتھ ہٹایا تو میرا ہاتھ پاپا کے خون سے رنگین ہو گیا تھا۔میری امی(غنویٰ بھٹو) پاپا کے قریب بیٹھ گئیں اور زور زور سے چلاتے ہوئے پاپا سے کہا پلیز ہمیں چھوڑ کے مت جائیں،فاطمہ اور ذلفی کو آپکی بہت ضرورت ہے اپنے معصوم بچوں کو مت چھوڑ کے جائیں۔میری نظریں ہارٹ بیٹ مانیٹرپے تھیں اور جب امی ہمارا نام لے رہیں تھیں تو پاپا کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی تھی،جیسے وہ میرا اور ذلفی کا نام سن کے جواب دینے کی کوشش کر رہے ہوں۔میرے زخمی پاپا موت سے لڑتے رہے،لیکن بچ نہ سکے اور آدھی رات کو ہمیں ہمیشہ کے لیئے چھوڑ کے چلے گئے۔

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 612057 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.