پابندیوں اور دھمکیوں کے جواب میں امریکا پر پھول نہیں برسیں گے

ترکی اورامریکا کے تعلقات آج کل سردمہری کاشکارہیں۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں مزید کشیدگی اس وقت پیداہوئی جب گزشتہ دنوں امریکی صدرڈونلڈٹرمپ نے ترکی سے اسٹیل اور المونیم کی امپورٹ پر محصول دگنا کرنے کا فیصلہ کیا تو ترکی نے بھی فوری طورپرامریکا کی بنی ہوئی الیکٹرانک مصنوعات کابائیکاٹ کااعلان کردیا۔ گویادونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور جواب الجواب پابندیوں کے بیانات تشویشناک اور خطے میں اب یہ تنازع نہ صرف شدت اختیار کر گیا ہے بلکہ دوسری جانب روس ترکی کے قریب آرہاہے۔اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں ٹرمپ کی تقریرکے موقع پرترک صدر رجب طیب اِردوان کےاجلاس کے بائیکاٹ نے ساری دنیاکواس معاملے کی نزاکت سے بھی آگاہ کردیا۔اُدھرایران کے شہر تبریز میں 7ستمبرکو ہونے والی ایرن ،روس اورترکی سہ فریقی کانفرنس نے نیٹواورامریکامیں انتہائی بے چینی اور تشویش پیداکردی ہے جہاں ترک صدر ابردوان نے امریکی انتباہ اوردھمکیوں کونظر اندازکرتے ہوئے اعلان کیا کہ ترکی روس سے S400ڈیفنس میزائل سسٹم ضرورخریدے گاکیونکہ خطے میں جاری حالات کے بعدترکی کواپنے دفاعی نظام کے لیے اس جدیدفضائی نظام کی اشدضرورت ہے۔ ترکی اپنے دفاع کے لیے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھ رہاہے۔

دوسری طرف ترکی طرف سے روس سے انتہائی حساس نوعیت کاائرڈیفنس سسٹم خریدنے پرامریکااورنیٹوممالک میں تشویش کی لہردوڑگئی ہے۔واضح رہے کہ روس کاتیارکردہ انتہائی جدیدقسم کاS400ڈیفنس میزائل سسٹم زمین سے فضامیں تحفظ فراہم کرتاہے اوربالخصوص نیٹو ممالک اسے اپنے جنگی طیاروں کیلئےشدیدخطرہ محسوس کررہے ہیں۔ دریں اثنا امریکا نے روس اورترکی کوخبردارکیاہے کہ ایسے کسی بھی اقدام کی صورت میں تعاون پربرے اثرات پڑسکتے ہیں۔ شمالی بحراوقیانوس کے یورپی ممالک اورامریکانے کالعدم سوویت یونین کے مقابلے کے لیے نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن(نیٹو) کے نام سے جو دفاعی تنظیم قائم کی تھی،سوویت یونین کی تحلیل کے بعداس فوجی تنظیم کابظاہرکوئی جوازنہیں رہا تھا لیکن بعدمیں ایسے بیانات آنے لگے کہ اب بھی روس سابق سوویت یونین سے زیادہ بڑا خطرہ دہشت گردی کی شکل میں موجودہے چنانچہ نیٹوکو تحلیل کرنے کی بجائے مزیدمضبوط ومربوط کیاجائے گا ۔

تیسری جانب عالم اسلام اورمسلم ممالک کی حقیقی موجودہ حیثیت پرکاہ جیسی رہ گئی ہے اور جس ایرے غیرے کاجی چاہتاہے کوئی توہین آمیزفقرہ یابیان دے کرگزرجاتاہے لیکن حقیقت میں مسلمانوں کی حکومت کی ایک قدیمی ہیئت سے آج بھی ان دلوں پرقدیمی ہیبت کی وجہ سے لرزہ طاری ہے اوران میں غالباًترکی واحدمسلم ملک ہے جسے امریکانے نیٹو کا باقاعدہ رکن بنایا ہوا ہے مگراس کامسلم ملک ہونااس کے لیے مغرب کی طرف سے منفی تاثرات ابھارنے کاباعث ہے۔یہی وجہ ہے کہ ترکی کی جانب سے روس سے ایڈوانسڈ فضائی نظام خریدنے کے اعلان نے نیٹواوراس کے کارپردازوں کوپریشانی میں مبتلاکردیاہے کیونکہ روسی نظام یقینابے حدمہنگاہوگا۔اس میں جدید ترین طیاروں کے ساتھ گولہ بارود کی بھاری مقداربھی شامل ہوگی،پھراس نظام کی میٹنی نینس پر بھی لامحدوداخراجات ہوں گے۔یہ سارامال امریکاکے ہاتھ سے نکل کرروس کی طرف جاتانظرآنے پرنیٹو کاانتہائی تشویش میں مبتلاہوناصاف سمجھ میں آسکتاہے۔

گزشتہ سال روسی صدرولادی پیوٹن نے اعلان کیاتھاکہ روس نے جدیدترین ناقابل تسخیرفضائی نظام تیارکرلیاہے جو 2019ء یا 2020ء تک فراہم کردیاجائے گااورمعاہدہ ہونے پریہ مکمل جدید ترین فضائی نظام ترکی کی جانب سے طلب کرنے پرفوری اس کے حوالے کردیاجائے گا۔ نیٹوکے ماہرین نے تسلیم کیاہے کہ روس کے جدیدترین فضائی دفاعی نظام سے نیٹوکے طیاروں کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ واضح رہے روس کے ساتھ اس کے دفاعی نظام کاسودا ایک ایسے وقت میں ہورہاہے جب ترکی اور امریکامیںدن بدن کشیدگی میں اضافہ ہی ہوتاجارہاہے۔ ترکی نیٹو کا اہم رکن ملک ہے اوردونیٹواتحادی ممالک کے درمیان دراصل کشیدگی کی بنیادانقرہ میں امریکی پادری اینڈریو برنسن کی گرفتاری تھی جسے ترک حکومت کے خلاف2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کی سازش اورجاسوس نیٹ ورک اوردہشتگردی میں شرکت میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا،تاہم اب اسے عدالتی رہائی مل چکی ہے اوروہ براستہ جرمنی امریکاواپس پہنچ چکاہے جہاں صدرٹرمپ نے اس سے ملاقات کی جس کے بعد واشنگٹن حکومت کی جانب سے بظاہر ترکی کیلئےنرم الفاظ سنے گئے۔ قبل ازیں امریکی انتقامی اقدامات کے باعث ترک کرنسی لیرا بہت زیادہ متاثر ہو چکی تھی تاہم اس کے باوجود ترکی نے امریکی ہتھکنڈوں کے سامنے جھکنے سے نہ صرف انکار کر دیا تھا بلکہ اس کاڈٹ کرمقابلہ کرنے کے لیے ضروری تدابیرپربھی ہنگامی بنیادوں پر عمل شروع ہو چکا ہے۔ ترکی کی جانب سے امریکی پادری کی رہائی کے بعد بھی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس کے مطابق امریکا اور ترکی کے تعلقات پہلے کی سطح پر بحال نہیں ہو سکتے ۔

اُدھرروسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے کہ ڈالرکے عالمی کرنسی کی حیثیت سے دن گنے جا چکے ہیں اور وہ تنزلی کا شکار ہے۔ اسی لیے روس اب ترکی اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے قومی کرنسیوں میں لین دین کے راستے تلاش کر رہا ہے۔ چند روز قبل ترکی نے بھی چین، روس، ایران اور یوکرائن کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کا اعلان کیا تھا جو ڈالر کے لیے کھلاچیلنج ہے۔ دوسری جانب امریکی انتظامیہ بھی ترکی کی معیشت اور داخلی اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ امریکی حکومت کے مشیربرائے اقتصادی امورکیون ہاسیٹ نے کہا ہے کہ حالیہ ایام میں ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا کی قیمت میں کمی کے بعد ترکی میں پیدا ہونے والی معاشی صورتحال پر امریکی انتظامیہ کی گہری نظر ہے۔امریکا کو سمجھنا ہو گا کہ موجودہ دور روایتی جنگوں سے ہٹ کر معاشی ضرب کاری سے دشمن کو نیچا دکھانے کی جانب گامزن ہے اور ترکی کے صدر کا حالیہ بیان بھی معاشی جنگ کے مترادف ہے۔

یہاں امریکا کویہ بات پیش نظررکھنی چاہیے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔اگر امریکی صدر ترکی پر بے جا پابندیاں اور دھمکی آمیز رویہ کا اظہار کریں گے تو جواب میں پھول نہیں برسیں گے۔ بہتریہی ہو گا کہ ایسے وقت میں دیگر دوست اور مغربی ممالک امریکا اور ترکی کے درمیان بڑھتی دوریاں کم کرنے کی خاطر اپنا کردار ادا کریں اورٹرمپ کوذمے دارانہ رویہ اپنانے پرآمادہ کریں۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 315741 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.