10ستمبر 2007کا دن پاکستانی تاریخ کا سیا ہ ترین دن
تھا۔اس دن لاقانونیت کا ننگاناچ دیکھا گیا۔ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ایک
شخص کی وطن واپسی کو جائزاور قانونی قراردیا تھا۔ریاست کو حکم جاری کیا کہ
اس کی واپسی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہونے پائے۔حکام نے اس حکم نامے کو
ماننے سے صاف انکار کردیا۔ سابق وزیر اعظم نوازشریف کی واپسی کی را ہ میں
جتنی رکاوٹیں کھڑی کرنا ممکن تھاکی گئیں۔جب وہ کسی نہ کسی طرح اسلام آباد
پہنچ جانے میں کامیاب ہوگئے تو اس کے ساتھ جو سلوک کیا گیااس سے دنیا میں
پاکستان کے بنانا سٹیٹ ہونے کا تاثر پیدا ہوا۔ایسی سٹیٹ جہاں جنگل کا راج
ہوتاہے۔جہاں قانون اور ضابطو ں کی بجائے کچھ لوگوں کی دھونس چلتی ہے۔جہاں
من مرضیاں کی جاتی ہوں۔نوا زشریف تب حکام کے غیر آئینی اور غیر قانونی
اقدامات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے۔اس لیے کسی بھی صورت انہیں برداشت
نہیں کیا جارہا تھا۔حکام کی طرف سے بیان جاری ہواکہ سابق وزیر اعظم
نوازشریف کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔سابق وزیر اعظم کو بھی گرفتاری سے مطلع
کردیا گیا۔پھر بجائے انہیں کسی جیل منتقل کرنے یا عدالت میں پیش کرنے کے
کسی دوسرے جہا زمیں بٹھا کر جدہ بھجوادیا گیا۔اس روانگی پرحکمران پارٹی کے
رہنماؤں کا موقف سننیے۔چوہدری شجاعت بولے اخلاقی ذمہ داری کے تحت نوازشریف
کو واپس بھیجا۔حیرت ہے بھئی یہ کون سی اخلاقی ذمہ داری تھی جو ملکی قانون
اور آئین سے بالاتر ہوگئی۔۔چھوٹے چوہدری پرویز الہی کی منطق اس سے بھی عجب
تھی کہا عدالتوں کا احترام کرتے ہیں۔نوازشریف اپنی مرضی سے جدہ گئے۔عجب
احترام تھاکہ عدالت عظمی ایک آدمی کے پاکستا ن آنے کو جائز قراردے رہی
ہے۔اسی کی واپسی میں رکاوٹ ناڈالنے کا حکم دے رہی ہے۔آپ اسے روک کر احترام
کیے جانے کا راگ آلاپ رہے ہیں۔
نیب نے سابق وزیر اعظم کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سنائی گئی سزا کی معطلی کے
ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کردی ہے۔اس اپیل کے دائر
کیے جانے سے اندازے لگائے جارہے ہیں کہ کھیل کا اگلا فیز شروع ہونے جارہا
ہے۔ہائی کورٹ کی طرف سے سزا معطلی کا فیصلہ آنے کے بعد کئی دن تک نیب کی
طرف سے خاموشی رہی۔خیال کیا جارہا تھا کہ چونکہ جنرل الیکشن گزرچکے ۔ان میں
مطلوبہ نتائج حاصل کرلیے جاچکے۔اب معاملات سمیٹے جارہے ہیں۔ہائی کورٹ کی
طرف سے آنے والا فیصلہ اور اس پر نیب کی خاموشی اس بات کی دلالت کررہی تھی
کہ کھیل مذید جاری رکھنے کی ضروت نہیں۔رانا مشہود کا بیان بھی اسی پس منظر
میں لیا گیا۔ان کے بیان کا لب لباب یہی تھا کہ اب اسٹیبلشمنٹ لاتعلق ہوچکی
مسیاسی میدان میں اب یکساں مواقع میسر ہیں۔اب ذرا سا زور لگاکر پارلمینان
میں عددی ترتیب بدلی جاسکتی ہے۔کھیل کے ختم ہوجانے کا تاثر آہستہ آہستہ دم
توڑ نے لگاہے۔دو بڑے واقعات ایسے ہوئے ہیں جن سے اس کھیل کے کسی نئے فیز کا
اندازہ لگایا جاسکتاہے۔اول تو سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کی
گرفتاری ہے۔دوسرے نیب کی طرف سے سابق وزیر اعظم نوازشریف کی سزا معطلی کا
فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنچ کیے جانا ہے۔لگ یہ رہا ہے کہ تحریک انصاف کی
حکومت کی ڈانواں ڈول کشتی کو سہارا دینے کا فیصلہ کرلیا گیاہے۔نوازشریف کے
لیے کسی نئے 10ستمبر2007کی بنیا درکھی جارہی ہے۔شاید یہ سوچ پائی جارہی ہے
کہ نوازشریف وطن میں رہے تو بات نہ بنے گی۔وہ جیل میں رہیںیا گھر میں نظر
بندتحریک انصا ف کی حکومت کے لیے مسئلہ بنے رہیں گے۔کسی اور طرف سے اس
حکومت کو کچھ خطرہ نہیں صر ف اور صر ف نوازشریف اپنی مضبوط عوامی ساکھ کے
سبب خطرہ ہیں۔انہیں مستقل راہ سے ہٹائے بغیر بات نہ بنے گی۔
ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی باتیں آج تحریک انصاف کی حکومت کے لیے مصیبت بن
رہی ہیں۔جھوٹے خواب دکھانے والے اب چھپ رہے ہیں۔ اگر انہوں نے مناسب ہوم
ورک کرلیا ہوتاتو شاید مشکلات اتنی زیادہ نہ ہوتیں۔انہیں ایک لمبا عرصہ
ملاتھا۔مگر مناسب تیاری نہ کرپائے۔بڑا لمبا عرصہ تھا۔2013ا کے لیکشن میں اس
جماعت کی حکومت بنانے کی پوری تیاریاں تھی۔یہ منصوبہ اوور کنفی ڈینٹ کی نذر
ہوگیا۔جن لوگوں کو کمزو راور معمولی سمجھا گیا۔انہوں نے یہ گریٹ پلان ناکام
بنادیا۔ اس کے بعد اس بار صرف عمران خان کے منصوبے کے لیے زیادہ مؤثرحکمت
عملی بنانا پڑی۔ایک بار پھرتحریک انصا ف کو ایک لمبا گیپ ملا۔ پورے پانچ
سال تحریک انصاف کو تیاری کے ملے۔اس بار حتمی طور پر اب صر ف عمران خاں کا
ٹاسک پورا کرنے کا بندوبست کرلیا گیا تھا۔کیاان پانچ سالوں میں تحریک انصاف
کو اپنا ہوم ورک مکمل نہیں کرلینا چاہیے تھا؟خاں صاحب کو اپنی ٹیم کا
اندازہ کرلیا چاہیے تھا۔یہ طے کرلیا جاتا کہ حکومتی عہدوں پر کون کہاں بہتر
رہے گا۔صدر مملکت سے لیگر گورنر ز ۔وزرائے اعلیٰ۔وفاقی اور صوبائی وزراء کے
لیے پہلے سے کیوں نہ بندے فائنل کرلیے گئے ؟آئے دن کابینہ میں توسیع آپ کی
تیاری کے ناکافی ہونے کی دلالت کرتی ہے۔ آپ کو ان پانچ سالوں میں ملک کو
درپیش مسائل سے متعلق پالیسی تیارلینا چاہیے تھا۔آپ کی تیاری تو اتنی
ناکافی ہے کہ جیسے کچھ راہ جاتے لوگوں کو پکڑ کر حکومت حوالے کردی گئی
ہو۔صورت حال سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔کھودا پہاڑ نکلا چوہا والی بات بنی
ہوئی ہے۔ کچھ لوگوں کوجتنے زیادہ کام کے بنا کر دکھایا گیا تھا۔یہ الوگ
اتنے ہی زیادہ نکمے اور بے کار نکلے ہیں- |