زندگی میں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں جو ہمیشہ یاد
رہتے ہیں۔25 جولائی2018کا دن ہمارے قومی تاریخ کا ایک اہم دن تھا کیونکہ
اسی روز ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے تھے ۔لیکن 25جولائی کی رات ، دن
سے بھی زیادہ میرے لئے ناقابلِ فراموش ثابت ہوئی۔ہوا یوں کہ اس روز شام کا
کھانا کھانے کے بعد میں اپنے ایک دوست جو صوبائی اسمبلی کے سیٹ کے لئے
امیدوار تھے، ان کے ہاں چلا گیا ، ان کے حجرے میں اس رات تِل دھرنے کی جگہ
نہ تھی،ان کے ووٹرز بہت پر جوش تھے کیونکہ ان کی جیت کی مسلسل خبریں آرہی
تھیں،اپنے دوست اورمتوقع ممبر صوبائی اسمبلی ( بعد میں سرکاری نتیجہ کے
مطابق وہ باقاعدہ کامیاب قرار دئیے گئے) سے کچھ دیر گھپ شپ لگانے کے بعد
گھر واپس لوٹنے لگا تو رات کے ایک بجے کا وقت تھا گویا 26جولائی شروع ہو
چکی تھی۔ راستے میں عین سڑک کے کنارے ایک گھر کے باہر کسی نے ٹی وی لگایا
تھا اور گاوئں کے بوڑھے، جوان اور بچے بڑے انہماک سے ٹی وی چینلز پر
انتخابات کے نتائج دیکھ رہے تھے۔کچھ شور شرابہ بھی تھا اور شغل میلہ کا
سماں بھی۔لہذا ہم نے بھی وہاں گاڑی کھڑی کی ۔ دیہاتی لوگوں میں اب بھی
مہمان نوازی کی وصف موجود ہے۔انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہتے ہوئے بٹھایا۔ ٹی
وی پر پی ٹی آئی کے کسی امیدوار کی کامیابی کی خبر آتی تو منچلے جوان خوشی
سے ناچنے لگتے،نعرے بلند کرتے ۔میرے ساتھ چارپائی پر ایک نوجوان پی ٹی آئی
امیدوار کی جیت کے اعلان پر چارپائی سے اچھل کر ’’عمران خان زندہ باد ‘‘ کا
نعرہ لگاتا ۔میں نے اس نوجوان سے ازراہِ مذاق پوچھ لیا ’’ بیٹا !کیا بات
ہےکیا عمران خان سے آپ کو بہت زیادہ محبت ہے ؟ اس کا جواب تھا ۔’’ انکل !
میں نے ایم اے کیا ہوا ہے مگر میں دیہاڑی پر مزدوری کرتا ہوں کیونکہ روزگار
کی تلاش کرتے کرتے میں تھک گیا ہوں ، میں اپنے بوڑھے والدین کے امیدوں کا
مرکز تھا وہ سمجھتے تھے کہ بیٹا پڑھ لکھ کر ہمارا سہارا بنے گا مگر افسوس
کہ بے روزگاری کی وجہ سے میں الٹا ان پر بوجھ بن چکا ہوں ، اب جب عمران خان
کہتا ہے کہ میں نوجوانوں کو روزگار دوں گا بلکہ باہر ممالک کے لوگ پاکستان
میں روزگار ڈھونڈنے آئیں گے تو دل خوش ہو جاتا ہے، عمران خان مخلص آدمی ہے
، اگر وزیرا عظم بن گیا تو میرا بھی کام ہو جائیگا اور میرے جیسے لاکھوں بے
روز گار نوجوانوں کو بھی روزگار مِل جائے گا ‘‘
میں نے اس سے کچھ ضمنی سوالات کئے مگر اسے عمران خان کی کامیابی کی صورت
میں اپنی کامیابی کا مکمل یقین تھا ۔‘‘ٓساتھ ایک اور نوجوان یہ باتیں سن
رہا تھا، وہ مجھے جانتا تھا، اس نے کہا ، انکل آپ تو اخبار میں لکھتے رہتے
ہیں ۔جب عمران خان وزیراعظم بن جائے تو انہیں یا د دلانا کہ وہ ہم بے
روزگاروں کو بھول نہ جائے۔ ‘‘ سچی بات یہ ہے کہ مجھے ان نو جوانوں پر ترس
بھی آیا مگر ساتھ ہی عمران خان پر ان کے اعتماد اور ان سے جڑے امیدوں پر
رشک بھی آیا ۔بحر حال عمران خان وزیر اعظم بن گیا اور نئے پاکستان کی راہ
ہموار ہو گئی ، وزیر اعظم کو حلف اٹھائے ہفتہ گزر گیا، دو ہفتے گزر گئے ،
پھر دو مہینے گزر گئے اور پچھلے دنوں حسنِ اتفاق سے وہی دو نوجوان مجھے ایک
نئے زیرِ تعمیر مکان میں ایک ٹھیکیدار کے ساتھ مزدوری کرتے ہو ئے مِلے۔میں
نے ان کا رّدِ عمل جاننے کے لئے پوچھا ’’ نوجوانو ! کیا حال ہے،
عمران خان تو وزیراعظم بن گیا ہے مگر آپ لوگ تواسی طرح مزدوری کر رہے ہیں،
کیا کوئی ملازمت نہیں مِلی ؟ ‘‘ اس استفسار پر انہوں نے جو جواب دیا ۔وہ
کالم ہذا کے تحریر کا با عث بنا۔ ان کا جواب تھا ۔ ’’ سر ! آپ جانتے ہیں کہ
عمران خان کو کتنے چیلنجز در پیش ہیں، وہ کِن کِن مشکلات کا سامنا کر رہے
ہیں، ماضی کے حکمرانوں نے پاکستان کو کس طرح اندر سے کھو کلا کر دیا
ہے۔معیشت کا برا حال ہے، ایک غیر معمولی حجم رکھنے والا سودی قرض، روز بروز
بڑھتی ہو ئی مہنگائی، کچہریوں میں انصاف کے نام پر ہونے والا ظلم، مہنگی
مگر بے کار تعلیم، تمام اہم اداروں کی تباہی،اپنی ذاتی مفاد کے خاطر جمع
ہونے والے خود غرض سیاستدانوں کا مقابلہ اور ایسے ہی سینکڑوں دوسرے مسائل
کا سامنا عمران خان کو ہے ،مگر ہمیں یقین ہے کہ عمران خان جس طرح ماضی میں
ہمیشہ مشکلات کا مقابلہ کر کے سرخرو ہوئے ہیں ،اسی طرح وہ موجودہ درپیش
مشکلات کو حل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔اصلاح کی ابتداء شروع ہو چکی ہے،
ہمیں کو ئی جلدی نہیں ہے ،ہم نے پچھلے دو سال سے سر پر اینٹیں اٹھائی ہیں ،
دو سال اور بھی صبر کر لیں گے ۔مگر عمران خان سے ہماری یہ اپیل ضرور ہے کہ
’’ عمران خان ! ہمیں یاد رکھنا ‘‘ کبھی ہمیں بھول نہ جانا ‘‘ |