وزیراعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب سے مثبت نتائج
سامنے آئیں گے جن کی کوششوں سے سعودی عرب نے پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن
کے لئے ایک سال کے لئے تین ارب ڈالر اور تیل کی درآمد کے لئے 3 ارب ڈالر تک
ایک سال کی موخر ادائیگی کی سہولت فراہم کرنے پر اتفاق کرلیاجسکے بعد
پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کوسہارا مل جائیگا اسکے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے
پاکستان میں آئل ریفائنری منصوبے پر بھی کام کی حامی بھر لی ہے وزیر خزانہ
اسد عمر اور سعودی عرب کے وزیر خزانہ محمد عبداﷲ الجدان نے مفاہمت کی ایک
یادداشت پر دستخط کئے جس کے تحت سعودی عرب ایک سال کے لئے ادائیگیوں کے
توازن کے لئے 3 ارب ڈالر فراہم کرے گا۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ
سعودی عرب تیل کی درآمد کے لئے تین ارب ڈالر تک کی ایک سال کیلئے موخر
ادائیگی کی سہولت فراہم کرے گا اور یہ انتظام تین سال کے لئے ہوگا جس کے
بعد اس کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گاامید ہے کہ عمران خان سعودی عرب کے بعد
چین اور ترقی سمیت تمام دوست ممالک سے پاکستان کی بقا اور عوام کی خوشحالی
کے مراعاتی پیکج لینے میں کامیاب ہوجائیں گے جسکے بعد ڈالر کی قیمت کو جو
پر لگے ہوئے تھے وہ بھی پرانی قیمت پر آنے کے بعدملک میں بڑھتی ہوئی غربت
کی شرع میں بھی کمی ہونا شروع ہوجائیگی کیونکہ جس نئے پاکستان کا نعرہ
عمران خان نے الیکشن سے پہلے دیا تھااس پر بھی حقیق معنوں میں کام شروع
ہوسکے نئے پاکستان کا مطلب پاکستان کو اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست
بنانا ہے، ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے، مالیاتی خسارہ، منی لانڈرنگ
اور کرپشن جیسے مسائل پر قابو پانے کے لئے حکمت عملی کے تحت کام کرنا وقت
کی اشد ضرورت ہے ہیں اور اس سلسلہ میں موجودہ حکومت کو سب سے پہلے بدعنوانی
کا خاتمہ کرنا ہوگا جسکے بغیر عمران خان نئے پاکستان کی بنیاد نہیں رکھ
سکیں گے اسکے ساتھ ساتھ پاکستان کو سب سے زیادہ ضرورت امن واستحکام کی ہے،
بھارت سمیت ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے
بلکہ عوام کی بہتری اور خوشحالی کے لیے لازم ملزوم سمجھتے ہوئے کام کیا
جائے ۔سعودی عرب میں وزیراعظم عمران خان کا میڈیا سے گفتگو کے دوران کہنا
تھا کہ ہم لوگوں کی تعلیم، ریاستی اداروں کی مضبوطی، انصاف کی فراہمی اور
انسانی ترقی کیلئے کام کررہے ہیں اور پاکستان میں آئیڈیل مسلم ریاست کی
تشکیل کیلئے کوشاں ہیں مگر ہمیں دو بڑے خسارے ورثے میں ملے ہیں جن میں
مالیاتی خسارہ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ شامل ہیں، اس مسئلے پر قابو پانے
کیلئے ہمیں برآمدت کو بڑھانے کی ضرورت ہے اس حوالے سے حکمت عملی تیار کی
جارہی ہے تا کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے جاسکیں مگر دوسرے ترقی پذیر مما
لک کی طرح ہمیں بھی منی لانڈرنگ جیسے چیلنج کا سامنا ہے،گذشتہ دو ماہ سے اس
کے انسداد کے لئے اقدامات کر رہے ہیں قرضوں کی واپسی کیلئے ہمیں رقم درکار
ہے جس کیلئے آئی ایم ایف کے ساتھ ساتھ دوست ممالک سے بھی بات چیت ہورہی ہے
تا کہ موجودہ مشکل دور سے ملک کو نکالا جاسکے اور ابھی بھی ہمیں آگے مشکل
وقت کا سامنا ہے لیکن ہماری ڈھانچہ جاتی اصلاحات اور مالی معاونت کے ساتھ
ہم تین سے چھ ماہ میں صورتحال کو بہتر بنا لیں گے پاکستا ن میں ایک کروڑ
مکانات کی کمی ہے ہم اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے پانچ سالوں میں 50لاکھ
مکانات تعمیر کرنے جارہے ہیں، ملک میں سرمایہ کاری دوست ماحول کو فروغ دینے
کیلئے حائل رکاوٹوں کو دور کیا جارہا ہے تا کہ نوجوانوں کیلئے روزگار سمیت
ترقی کے دیگر مواقع بڑھائے جاسکیں اور اس وقت 8 سے 9 ملین پاکستانی بیرون
ملک مقیم ہیں جو پاکستان میں سرمایہ کاری میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ چین
کی ترقی میں بھی بیرون ملک مقیم اس کے شہریوں نے بڑا فعال کردار ادا کیا اس
حوالے سے چین ہمارے لئے ایک مثال ہے جس نے 30 سال کے دوران 70 کروڑ لوگوں
کو غربت سے باہر نکالا جب کہ کرپشن کے مسئلے پر قابو پانے میں کامیاب رہا
ہے۔ چین نے بدعنوانی کے مسئلہ پر اپنے 450 وزراء اور حکام کو بھی سزائیں
دیں وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ سی پیک پاکستان کیلئے عظیم موقع ہے، سی
پیک کے تحت گوادر بندر گاہ کو فعال کیا جارہا ہے، خصوصی اقتصادی زونزبنائے
جارہے ہیں جہاں سرمایہ کاروں کو سہولیات دی جائیں گی پاکستان کی جغرافیائی
حیثیت ایک نعمت ہے جس سے فائدہ اٹھایا جائے گا، پاکستان خطے کی دو بڑی
معیشتوں چین اور بھارت کے درمیان واقع ہے، افغانستان میں امن کی صورت میں
یہ وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی کا ذریعہ بنے گا اسکے ساتھ ساتھ مقامی اور
بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لئے پرکشش ماحول فراہم کرنابھی ہماری ترجیح
ہے، انہیں سہولیات اور مراعات فراہم کی جائیں گی، اس مقصد کیلئے اصلاحات کا
کام جاری ہے جبکہ ملک میں سیاحت کے شعبہ کو بھی فعال کرکے کثیر زرمبادلہ
کمایا جاسکتا ہے پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور سیاحت کے حوالے سے
بڑا متنوع ملک ہے، یہ بدھ مت، سندھ سمیت دنیا کی مختلف اور قدیم ترین
تہذیبوں کا مرکز ہے ہمیں سیاحت کے فروغ کیلئے درکار انفراسٹرکچر کو ترقی
دینے کی ضرورت ہے دہشت گردی اور اس کے خلاف ہونے والی جنگ سے ملک میں سیاحت
کے شعبے کو بہت نقصان پہنچا تاہم گذشتہ دو سال کے دوران سیاحت میں بہتری
آئی ہے اور اب حالات بہت بہتر ہوگئے ہیں، ہماری سکیورٹی فورسز کی کوششوں سے
دہشت گردی پر بہت حد تک قابو پایا گیا ہے گذشتہ عشرے کے دوران بالخصوص نائن
الیون کے بعد ملک بڑی بدامنی کا شکار ہوا، دہشت گردی کے دوران 80 ہزار
پاکستانیوں نے جانیں قربان کیں، قبائلی علاقوں سے بڑی تعداد نے نقل مکانی
ہوئی اور ملکی معیشت کو مجموعی طور پر 100ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ۔امید ہے
سعودی عرب کی طرح ہمارے تمام دوست ممالک ہماری مدد کرکے ہمیں اس معاشی
بحران سے نکالیں گے جسکے گرد گھومتے گھومتے ہم سب کولہو کا بیل بن چکے ہیں
رہی بات عمران خان کی تو اسکا ویژن بڑا واضح ہے اور اب انہیں ان چوروں اور
ڈاکوؤں پر بھی تجہ دینا ہوگی جنہوں نے اربوں روپے پاکستان سے لوٹ کر بیرون
ملک جائیدادیں بنا رکھی ہیں ۔ |