ترقیاتی بجٹ سے 100ارب کی کمی..کیوں...؟؟امریکی اخبار کا انکشاف

حکمرانوں کی عیاشیاں ننگا بھوکا اور کنگلا پاکستان.......امریکی امداد لینے والا پاکستان دنیا کا دوسرا ملک بن گیا ہے
پارلیمنٹرینز کے بیرونِ ملک دوروں پر عائد پابندی کا خاتمہ ...حیرت ہے

آج یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ملک میں برسرِ اقتدار رہنے والی ملک کی ایک بڑی عوامی پارٹی کے حکمرانوں نے قومی خزانے سے اپنے ذاتی مفادات اور مقاصد کے لئے استعمال میں ہونے اخراجات کو کم کرنے کے بجائے الٹا ملک کے پبلک سیکٹر کے ترقیاتی بجٹ میں 100ارب روپے کی کٹوتی کا اعلان کرکے ملک میں آئندہ ترقیاتی منصوبوں کی مد میں ہونے والے اخراجات کو کم کر کے ملک میں ترقی اور خوشحالی کی راہیں بند کردی ہیں اِس ظالمانہ حکومتی منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی ملک کے سترہ کروڑ عوام میں جہاں بے چینی اور غم وغصے کی لہر پیدا ہوگئی ہے تو وہیں اَب وہ یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اِنہیں اَب تک جو سہولیات زندگی میسر تھیں شائد آئندہ دنوں میں یہ اُن سے بھی محروم ہوجائیں کیونکہ جس طرح گزشتہ دنوں وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت میں بزنس کمیونٹی سے خطاب کے دوران وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ یہ واضح کرچکے ہیں کہ وفاقی حکومت نے اخراجات میں کمی کے نام پر پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پرگرام کے ترقیاتی بجٹ میں 100ارب روپے کی کٹوتی کردی ہے جس سے ملک میں جاری اور آنے والے دنوں میں ہونے والے تمام ترقیاتی منصوبے روک دیئے گئے ہیں اِس موقع پر اُنہوں نے یہ بھی برملا کہا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کی مد میں مختص 280ارب روپے کا بجٹ کم ہوکر اَب صرف180ارب روپے کا رہ گیا اگر اِس کے باوجود بھی ملک کے معاشی اور اقتصادی حالات بہتر نہ ہوئے تو آنے والے دنوں میں اِس میں یقینی طور پر مزید کمی متوقع ہے یہاں اس منظر اور پس منظر میں میرا خیال یہ ہے کہ اِس ظالمانہ حکومتی اقدام کے بعد اَب کیا رہ جاتا ہے ......؟؟کہ ملک کی مفلوک الحال عوام اِن حکمرانوں سے کسی اچھے کی اُمید باندھے رکھیں جنھوں نے اپنی عیاشیوں میں تو کوئی کمی نہ کی بلکہ اُنہوں نے اپنے اُلٹے سیدھے اخراجات میں کمی کرنے کے بجائے اُلٹا عوام کی فلاح وبہبود کے لئے مختص 280ارب روپے کے بجٹ میں سے یکذمبش قلم 100ارب روپے کم کر کے اپنے ہی ملک کے سترہ کروڑ لاچار اور پریشان حال عوام کو مسائل کی دلدل میں مزید دھکیلنے کا سامان پیدا کر دیا ہے۔

اگرچہ یہ امر قرار واقع ہے کہ اِس انتہائی ظالمانہ حکومتی اقدام کا براہ راست نشانہ عوام ہی بنیں گے جو آئندہ دنوں میں توانائی سمیت خوراک ، صحت ،تعلیم ، پینے کے لئے صاف پانی اور سفر جیسی اپنی بنیادی سہولتوں سے بھی ہر صُورت میں محروم ہوکررہ جائیں گے جس سے اِن کا معیار زندگی بھی بری طرح سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا اور اِس طرح اِس انتہائی ظالمانہ حکومتی اقدام سے جہاں عوام مرنے جینے پر مجبور ہوں گے تو وہیں اِن حالات میں ملک میں عوامی اور ملک کی تمام بڑی چھوٹی سیاسی ومذہبی اور سماجی تنظیموں اور جماعتوں کی سطح پر بھی حکومت مخالف کئی تحریکیں جنم لیں گی اور ملک میں ایک افراتفریح کا عالم برپا ہوجائے گا جس سے پوری طرح سے نمٹنا اور حالات کو کنٹرول کرنا خود حکومت کے بس میں بھی نہ ہوگا لہٰذا اَب ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت عوامی اور سیاسی سطح پر اپنے اِس ظالمانہ اقدام کے باعث مخالفین کی تعداد میں اضافہ کرنے اور خود کو ننگی تنقیدوں سے بچائے رکھنے کے لئے اپنے اِس اعلان کو فی الفور واپس لے جس کے تحت حکومت نے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام سے100ارب روپے کی کٹوتی کرنے کا منصوبہ بنا کر یہ اعلان کیا ہے۔

جبکہ دوسری طرف ملک کی اِس ساری خراب ترین صُورتِ حال کے حوالے سے ایک امریکی اخبار ”وال اسٹریٹ جرنل “ نے اپنے یہاں ایک سنسنی خیز رپورٹ میں اِس بات کا انکشاف کیا ہے کہ ”موجودہ حالات میں پاکستان امریکا سے سب سے زیادہ اقتصادی اور ترقیاتی امداد وصول کرنے والا دنیا کا دوسرا ملک ہے جس پر امریکیوں کو یہ شدید تشویش لاحق ہے کہ پاکستان میں موجود مقامی گروپ اِن فنڈز کو مناسب استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں اور نہ ہی یہ لوگ کسی بھی امریکی امداد کو عوامی فلاح وبہبود کے مقاصد کے لئے اُس طرح سے استعمال کررہے ہیں جس کے وعدے پر امریکا اِن کو امداد دیتا ہے اِس امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں جو انکشاف کیا ہے وہ بڑی حد تک ایک طرح سے درست بھی معلوم دیتا ہے کہ پاکستان امریکی امداد وصول کرنے والا دنیا کا دوسرا ملک ہوسکتا ہے مگر اِس بات پر یقین بھی تو نہیں کیا جاسکتا کہ اِس اخبار نے جو انکشاف کیا ہے وہ سو فیصد ٹھیک بھی ہو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اِس نے یہ انکشاف پاکستان کو کسی ذہنی دباؤ میں لینے اور کئی دوسرے امریکی سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے بھی کیا ہو مگر دوسری بات تو اِس اخبار کی بالکل درست ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اَب تک امریکا سے جتنی بھی امداد لی ہے اُسے اُس طرح عوام کی فلاح وبہبود کے خاطر قطعاََ استعمال نہیں کیا جس کا یہ امریکا سے وعدہ کر کے وصول کیا کرتے ہیں بہرحال کچھ بھی ہے امریکی اخبار نے اپنے لحاظ سے جو رپورٹ شائع کی ہے اِس سے ہمارے حکمرانوں کو ضرور اختلاف ہوسکتا ہے مگر شائد سارے پاکستانیوں کو ضروری نہیں کہ اس سے کوئی اختلاف ہو۔

اِدھر بیشک روزِ اول سے ہی ہر پاکستانی اِس بات کا برملا اظہار کرتا آرہا ہے کہ ہماری عظمتوں کی سرزمین پاکستان ہے اور ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک اِس کی تعمیر و ترقی اور اِس کی خوشحالی اور استحکام کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ماضی میں جس کے لئے ہر فرد نے اپنے تئیں اپنا کوئی نہ کوئی کردار ادا بھی کیا ہے جس کا بین ثبوت ایک اُس کُھلی حقیقت کی طرح سے ہے کہ جس کو کسی بھی صُورت میں جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک ِ پاکستان نے گزشتہ 63سالوں کے دوران جیسے تیسے اپنی جتنی بھی ترقی اور خوشحالی کی راہیں طے کیں اور اِسے اِس مقام تک پہنچنے کے لئے جہاں آج یہ کھڑا ہے اِسے کن مشکلات اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہے آج اِس سے نہ صرف ہم بلکہ ساری دنیا بھی خُوب واقف ہے کہ ہم نے اپنے انتہائی قلیل وسائل کے باوجود جتنی بھی ترقی کی ہے اِس میں خالصتاََ ہم پاکستانیوں کی جدوجہد اور محنت شامل ہے اور ساتھ ہی اِس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ یہ پاکستانیوں کی اُس عظیم محنت اور لگن کا ہی ثمر ہے کہ آج پاکستان جیسے دنیا کے ایک انتہائی غریب اور اپنے انتہائی قلیل وسائل رکھنے والے ملک کو اِس موجودہ جدید اور سائنسی صدی میں بھی دنیا کے آٹھویں اور اسلامی ممالک میں پہلے ایٹمی ملک ہونے کا جو شرفِ عظیم حاصل ہوا ہے یقیناً اِسے اِس مقام تک پہنچانے میں ہمارے اُن اکابرین کا بھی بڑا اہم کردار شاملِ حال رہا ہے جو دنیا کی اِس عظیم دھرتی کو اُوجِ ثریا تک لے جانے کا عزمِ عظیم کئے ہوئے تھے اور آج اُن کی اُن عظیم کاوشوں اور جدوجہد کی ہی بدولت ہمارے مُلکِ پاکستان کو اتنا عظیم مقام حاصل ہوگیا ہے کہ ہمارا یہ عظیم ملک عظمتوں کی سرزمین کہلانے کے قابل ہے اوراِس کے ساتھ ہی مجھے یہ بھی کہنے دیجئے !کہ جب سے ہماراملک ایٹمی طاقت سے ہمکنار ہوا ہے اور اِسی طرح یہ دنیا کے عظیم ایٹمی وسائل سے مالامال ہوا ہے تو الحمدُللہ !تب سے اِس کے دُشمنوں کو اِس کی جانب نہ تو کبھی کسی بھی میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت ہوئی ہے اور نہ ہی اَب وہ کبھی اِس کی جانب اپنے غلط ارادوں سے دیکھ ہی سکیں گے۔

مگر آج موجودہ حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندیوں اور ملک میں رائج انتہائی ناکارہ نظام کو دیکھتے ہوئے انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج اپنے اِس کہئے کی ”ہماری عظمتوں کی سرزمین پاکستان ہے “اِس کی کوئی لاج رکھنے اور اِسے عملی طور پر مزید ترقی اور خوشحالی کی راہ سے ہمکنار کرنے اور کرانے جیسے عزمِ عظیم سے سرشار کوئی کہیں سے بھی نظر نہیں آرہا ہے۔ سب اپنی اپنی گز بھر کی زبان سے لوگوں کو اپنے خالی دعوؤں اور وعدوں کی گُھٹی کے مزے دے رہے ہیں ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور اپوزیشن رہنماؤں کا یہ بے حسی کا رویہ نہ صرف ہم پاکستانیوں کے لئے ایک المیہ ہے بلکہ دنیا کے اُن ممالک کے لئے بھی سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے کہ جو پاکستان کی ترقی اور عوام کی فلاح وبہبود اور خوشحالی کے لئے وقتاََ فوقتاََ پاکستان کو امداد اور قرضوں کی صُورت میں رقم مہیا کرتے رہتے ہیں۔

اَب اِسے حکومتی گورَکھ دھند نہیں کہا جائے گا تو پھر آپ خود ہی یہ بتائیے کہ اِسے کیا کہا جائے....؟کہ ایک طرف تو ملک کی ابتر معاشی و اقتصادی حالت کے باعث ہمارے حکمران پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام سے100ارب روپے کی کٹوتی کر رہے ہیں تو دوسری طرف یہی حکمرانوں نے آٹھ ماہ قبل ملک کی مخدوش معاشی صُورتحال کی وجہ سے پالیمنٹرینز سمیت وفاقی وزرا کے غیر ملکی دوروں پر جو پابندی عائد کی تھی وہ بھی خاموشی سے اَب خود ہی ہمارے اِن ہی حکمرانوں نے ختم کردی ہے جس کے بعد پارلیمنٹریز میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور اِس پابندی کے اٹھا جانے کے بعد اِس کا سب سے پہلے جس نے پھر پور فائدہ اُٹھایا وہ اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ہیں جن سے متعلق ایک خبر یہ ہے کہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اَب اپنے لندن اور ابوظہبی کے دوروں سے واپسی کے بعد سری لنکا بھی پہنچ گئی جہاں اَب وہ سرکاری اور اسپانسرڈ کے خرچ پر آزادی سے گھوم پھر سکے گیں اور یوں وہ تمام مقاصد بھی پورے کر لیں گیں جس کے لئے اُنہوں نے یہ غیر ملکی دورے کئے ہیں۔

اگرچہ کچھ ذرائع پارلیمنٹرینز کے غیر ملکی دوروں پر سے عائد پابندی اُٹھا جانے کے حکومتی فیصلے کے حوالے سے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ملک کی بدترمعاشی و اقتصادی صُورتِ حال کے باوجود بھی حکومت میں شامل (ماسوائے چند ایک کو چھوڑ کر) اکثر اتحادی جماعتیں پارلیمانی سطح پر غیر ملکی دوروں کی اجازت کے لئے اصرار کیا کرتی تھی جو اپنے اِس مؤقف پر متحد بھی رہی تھیں جس کی وجہ سے حکومت کو خاموشی سے اپنا یہ فیصلہ کرنا پڑا ہے اُدھر جس روز پالیمنٹرینز کے غیر ملکی دوروں پر سے پابندی اٹھائی گئی اُسی روز صدر آصف علی زرداری سے 24گھنٹوں کے دوران وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی نے دو بار ملاقاتیں بھی کیں کہا جاتا ہے کہ اِن ملاقاتوں میں ملک کو درپیش سیاسی اور معاشی صُورت حال کے حوالوں سے خصوصی طور پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا وہیں یہ پابندی اٹھائے جانے کا بھی فیصلہ کیا گیا اور اِس کے ساتھ ہی ایک خبر یہ بھی ہے کہ اِس دن صدر مملکت آصف علی زرداری نے اپنی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کو درپیش سیاسی اور معاشی مسائل کے حل کے لئے سیاسی اور معاشی ایجنڈے پر اتفاق رائے موجودہ حکومت کی پالیسی کا اہم حصہ ہے اور ہماری حکومت سیاسی اور اقتصادی مسائل کو اتفاق رائے سے حل کرنا چاہتی ہے اور پھر اِس کے بعد یہ ہوا کہ حکومت نے خود ہی ملک کو معاشی مسائل کا حل پالیمنٹرینز کے غیر ملکی دوروں پر عائد پابندی اٹھا کر اور پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام سے 100روپے کی کٹوتی کا منصوبہ تیار کر کے نکال لیا ۔

اَب سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ پالیمنٹرینز پر غیر ملکی دوروں پر عائد پابندی اُٹھانے سے ملک میں معاشی مشکلات میں اضافہ ہوگا یا کمی یہ بات اَب کوئی ہمارے اِن صدر مملکت آصف علی زرداری کو جو غضب کی فہم وفراست رکھتے ہیں سمجھائے اور ہمارے اُن مصالحت پسند وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی علم میں بھی یہ بات لائے کہ اِن کے اِس اقدام سے ملک کو کیا فائدہ حاصل ہوگا.....؟؟ جو اُنہوں نے آٹھ ماہ قبل ملک کی مخدوش معاشی صُورت حال کی وجہ سے پالیمنٹرینز سمیت وفاقی وزرا کے غیر ملکی دوروں پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور پھر خود ہی اِن لوگوں نے یہ پابندی اٹھا بھی لی ہے اور اِس پر ظلم یہ کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام سے100ارب روپے کی کٹوتی کا حکومتی اعلان کسی بھی لحاظ سے نہ تو عوام کے حق میں ہے اور نہ ہی یہ حکومتی اقدام ملک کے بہتر مفادات میں ہے۔ میرا اپنے حکمرانوں کو یہ مشورہ ہے کہ اِنہیں یہ چاہئے کہ وہ آنکھ بند کر کے کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اِس کے بارے میں اچھی طرح سے سوچ سمجھ لیں کہ اِن کے کسی بھی فیصلے سے عوام اِس سے نفسیاتی طور پر کتنے متاثر ہوں گے اور اِن پر کتنا معاشی بوجھ پڑے گا تو پھر کوئی فیصلہ کریں ورنہ پھر وہ اپنے اِن ہی عوام دشمن اُلٹے سیدھے اعلانات اور منصوبوں کی وجہ سے ننگی تنقیدوں کا نشانہ بنتے رہیں گے جیسے یہ اِن دنوںب ُری طرح سے اِس کی زد میں ہیں۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 894130 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.