خان کہاں ہے ؟

پی ٹی آئی کا بیانیہ بہت مقبول تھا ۔ مگر عمل نے ہدف ہی تبدیل کر دیے ہیں ، اب ہدف پٹواری اور تھانیدار نہیں بلکہ وہ تیسرا ہے جو عوام کی خدمت کے بل بوتے پر ووٹ حاصل کر کے آتا ہے۔ کسی کو نہیں چھوڑوں گا کا ہدف یہی تیسرا ہے

اس ملک کو ڈاکو اور چور کھا گئے، عوام کے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا یہ آواز ہر کان تک پہنچ چکی۔ ایک وزیر با تدبیر ٹی وی پر ریوالنگ کرسی پر بیٹھ کر فرماتے ہیں میری وزارت سے سابقہ چور حکمران سب کچھ لوٹ کر لے گئے وزارت کے کھاتے میں صرف تیس روپے پڑے ہیں ۔ اس پر میرے ایک دوست نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا اس کا صدقہ کر دو۔

ہر سیاسی جماعت معاشرے کے کسی طبقے کی نمائندگی کر رہی ہوتی ہے جہاں سے اس کو مالی کمک مہیا کی جاتی ہے۔منفرد اور طویل دھرنے کے دوران شیخ الاسلام صاحب نے رات گئے خواہش کا ااظہار کیا اور صبح ہم نے سکول کے لیے سامان لیے ٹرک موقع پر دیکھے تھے۔پاکستان میں المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعت جس طبقے کے مفاد کی دعویدار ہوتی ہے ، عمل اس کے بر عکس نہ ہو تو بھی حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتوں کے یہی اعمال عوام کی اکثریت کو بد ظن کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ عام انتخابات کے بعد ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالنے والوں میں کمی کا سبب لاتعلقی کا اظہار ہے۔

عمران خان صاحب کی پی ٹی آئی کا المیہ مگر اس سے بڑھ کر ہے ۔اس جماعت کا دعویٰ تھا مر جائیں گے مگر قرض نہیں لیں گے، پورے پاکستان میں مہنگائی کو عوام نے سہہ لیا۔ہزاروں ڈیم کے بارے میں عوام کہتی ہے سو دنوں میں ہونے والاکام نہیں ہے۔مگر عوام پوچھتی ہے وہ دو ارب ڈالر کیا ہوئے جو عمران خان کے کرسی پر بیٹھتے ہی پاکستان میں آنا تھے۔ اب ہمارے وزیر خزانہ صاحب اس سوال پر ہنس دیتے ہیں۔ عوام ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں یہ ہنسی عوام کے فہم پر ہے؟ عوام کو یہ بھی یاد ہے چوروں کی حکومت میں جو سات ارب روپے کی مبینہ روزانہ کرپشن تھی وہ اب رکی کہ نہیں ؟ تو جواب ملتا ہے پولیس اور بیرو کریسی ہماری بات ہی نہیں مانتے۔ عوام تو اس پولیس اور بیورو کریسی کو نسلوں سے جانتی ہے بس آپ کی جماعت ہی اس زمینی حقیقت سے ایک صوبے میں پانچ سال کی باری کے بعد بھی بے خبر نکلی۔عوام کو یاد ہے آپ نے پچاس بلین ڈالر سالانہ کے موصول زر کا ذکر کیا تھا۔ اس کے جواب میں بتایا جاتا ہے کہ ہماری ایکسپورٹ کم اور امپورٹ زیادہ ہے اور پاک چین راہداری کی درآمدات پر تبرہ کیا جاتا ہے ، حالانکہ سابقہ وزیر اقبال احسن کا کہنا ہے کہ اس کی ادائیگی اگلے سال سے شروع ہونی ہے تو بتایا جاتا ہے کہ وہ چور ہی نہیں جھوٹے بھی ہیں۔ تین سوارب جو سوئس بنکوں سے پاکستان میں آنا تھے اس کا جواب وزیر اطلاعات جیسے با خبر بھی تراشنے میں ناکام ہی ہیں۔لیکن سو ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ نہ رکنے اور دس ٹریلین کا ٹیکس امیروں سے اکٹھاکر کے غریبوں پر خرچ کرنے کی امید اس دن دم توڑ گئی جب پاکستان کے وزیر خزانہ نے سابقہ بجٹ پر قلم پھیر کر اپنا بجٹ اسمبلی سے منظور کرا لیاتھا۔
نا اہل وزیر اعظم نے تین ماہ میں ملک مین بجلی پوری کرنا کا دعویٰ کیا تھا ،پہلے سو دنوں میں ان کی پھرتیاں دیکھ کر عوام کی ڈھارس بندہی تھی کہ سو دنوں مین نہ سہی پانچ سالوں میں ہی یہ گھاٹی عبور کر لی جائے۔آخر کار چار سالوں بعد عوام کے گھروں کے اندہیرے اجالے میں بدلے۔

سپریم کورٹ نے جب سے عمران خان کے بارے میں صادق و امین کی سند جاری کی تھی ۔اس کے بعد سے عوام کا خان صاحب کے اقوال پر یقین دو چند ہو گیا تھا۔ خان صاحب نے مگر پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کرتے زمینی حقائق کو دیکھا تک نہیں۔

ہر قوم کا ایک بیانیہ ہوتا ہے، جو معاشرے کے ہر فرد کو ازبر ہوتا ہے۔اس بیانئے کو لے کر افراد اور معاشرہ آگے جاتا ہے۔امریکہ میں غلامی اسی صدی میں ختم ہوئی ہے مگر ایک شخص نے عوام کو ایک بیانیہ دیا تھا۔ اس کی تبلیغ پر اپنا تن ،من دھن لگا دیا تھا۔مگر اس کا بیانیہ سادہ اور ہر شخص کی سمجھ میں آنے والا تھا۔برطانیہ میں جمہوریت کے علمبرداروں نے تاج اچھالے بنا ایسا بیانیہ عوام کو دیا جس کو رد کرنا کسی کے بس میں نہ تھا۔چین کی موجودہ ترقی بھی ایک بیانئے کا کرشمہ ہے۔ ایک شخص ایسا بیانہ لے کر اٹھا جو حکمران پارٹی کے دشمنوں کو چین لانے کی دعوت پر مشتمل تھا۔ پارلیمان کے ممبران تو دور کی بات ہے خود پارٹی کی سطح پر انگلیوں پر گنے جانے والے افراد ہی اس کے وژن پر ایمان لائے تھے۔مگر اس نے ایک ایک فرد کے پاس جا کے اپنا بیانیہ لوگوں کو سمجھایا تھا۔ آج چین کی معیشت کہاں کھڑی ہے سب کو معلوم ہے۔

عمران خان صاحب کی جماعت عوام کو بتاتی تھی یہ ہم ۲۲ سالوں سے محنت کر رہے ہیں۔ نیا پاکستان بنائیں گے ہر آدمی ٹیکس دے گا۔ بلواسطہ ٹیکس ختم ہو جائیں گے، ہر شخص کو کام پر لگایا جائے گا۔ مگر کبھی وزیر خزانہ ہنس دیتے ہیں تو کبھی بتایا جاتا ہے کہ چور وزارت کے اکاونٹ میں تیس روپے چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ سب سے بڑا چور تو نواز شریف بتایا جاتا تھا۔ وہ تو سزا بھگتنے کے لیے لندن سے چل کر آ گیا تھا۔اگرچور تھا، عوام پوچھتے ہیں، چوری کا مال نکلواتے کیوں نہیں۔وزیر با تدبیر فرماتے ہیں یہ عدالتوں کا کام ہے۔ عدالت کہتی ہے پارلیمان سست ہے۔ مگر وزیر اعظم صاحب تو کہتے ہیں می ں چھوڑوں گا نہیں ۔مگر پارٹی میں موجود سند یافتہ چوروں، ڈاکووں ، منی لانڈرنگ کے مرتکب افراد کا نام لیا جائے تودوسرے ہفتے نام لینے والا ملازمت سے فارغ ہو جاتا ہے۔

اب عوام کہتی ہے پی ٹی آئی نے ۲۲ سال اپنے بیانئے کو مقبول بنانے ہی میں صرف کیے ہیں۔ وہ معاشرے کے جس طبقے کے مفادات کی نگہبان ہے ان ہی کے مفادات کی نگہبانی کر رہی ہے۔ عوام کو کرپشن کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے سیاسی جماعتوں کے پاس شہداء کی جو فہرست ہے ان میں اکثریت امید کی بتی کے پیچھے دوڑ میں ہانپ کر مر جانے والوں ہی کی ہے۔

کرسی کا اپنا ہی بیانیہ ہے۔ جوانگریز کے وقت سے چلا آ رہا ہے کہ اس پر بیٹھنے والا حاکم ہے باقی سب محکوم۔

پاکستان میں دوبارہ ایسے بیانئے کے لیے جگہ خالی ہے جہاں عوام کے ساتھ معاملہ کرنے والے پٹواری اور تھانیدار جو حکمران ہیں۔ ان کے ساتھ ایسے شخص کو نہ بٹھا دیا جائے جس کو احساس ہو کہ اس کا کام عوام کی خدمت ہے ۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ان دونوں کرسیوں کے بیچ میں کھڑے عوامی نمائندے کو بیٹھنے کے مستقل کرسی مہیا نہ کر دی جائے۔ جب تک یہ نہیں ہو گا ۔ سیاسی کارکن ہانپ ہانپ کر گرتے ، مرتے رہیں گے جن کو سیاسی مبلغین سیاست کی جنت برین میں بتاتے ہیں ۔ مگر ان کی اولادیں تعلیم کو اور ان کا خاندان دو وقت کی روٹی کو ترس جاتا ہے۔

پی ٹی آئی کا بیانیہ بہت مقبول تھا ۔ مگر عمل نے ہدف ہی تبدیل کر دیے ہیں ، اب ہدف پٹواری اور تھانیدار نہیں بلکہ وہ تیسرا ہے جو عوام کی خدمت کے بل بوتے پر ووٹ حاصل کر کے آتا ہے۔ کسی کو نہیں چھوڑوں گا کا ہدف یہی تیسرا ہے ۔عوام تو یہی کر سکتی ہے خان صاحب کی بجائے نیازی صاحب پکارنا شروع کر دے۔جب عمران خان صاحب کے سابقہ شیدائی سے اس کا سبب پوچھا تو اس کا جواب تھا۔ عمران احمد نیازی میں خان کہاں ہے
 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 149473 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.