غربت کے آقا اور ہمارا کشکول

کل مجھے اپنی ایک دوست کے گھر جانے کا اتفاق ہوا اس کی شادی میٹرک کے فوراًبعد ہو گئی تھی ماشاء اللہ اب اس کے چار بچے تھے جوکہ اسکول اور کالج میں زیر تعلیم تھے۔اس کی 8 سالہ بیٹی اسکول سے آئی اور کہنے لگی کہ امی کل میں اسکول نہیں جاؤ گی۔کیوں کیا ہوا بیٹا؟امی میری کلاس کی الزبتھ اور پوجا مجھے بہت تنگ کرتی ہیں میرا مذاق اراٹی ہیں اور چھیڑتی ہیں۔میں کلاس ورک کر رہی ہوتی ہوں تو تنگ کرتی ہیں۔اس کی بات سن کر میری دوست اور اس کی ماں مہوش نے کہا کہ بیٹا کیا ہو گیا ہے۔تمھاری کلاس میں اکثریت مسلمان لڑکیوں کی ہے ایک دو غیر مسلم لڑکیاں تم لو گوں کو کیسے پریشان کرسکتی ہیں؟اگر ان لوگوں کو کوئی مسئلہ ہے تو مل کر بات کرو اور مسائل کو گفت و شنید سے حل کیا کرو بیٹا۔نہیں مما مجھے ان غیر مسلم لڑکیوں سے کوئی بات نہیں کرنی کیوں کہ قرآن پاک کی سورۂ المائدہ میں ان لوگوں کو دوست منانے سے منع فرمایا گیا ہے اور الزبتھ یہودی ہے یہ کہہ کر وہ بچی کمرے میں داخل ہوگئی۔

میں نے مہوش سے اجازت لی اور گھر کی جانب روانہ ہوگئی۔ راستہ میں اس بچی کے بارے میں سوچنے لگی کہ ایک نو سال کی بچی اپنی عمر سے بڑی اور سمجھداری کی باتیں کر رہی تھی مگر اس نے جو کچھ کہا وہ صحیح تھا۔ساتھ ہی بچی نے اس بات کا بھی اعتراف کیا اور راز سے پردہ ہٹایا کہ پوجا اور الزبتھ کے والدین ڈونیشن کی ایک خاص رقم اسکول کو دیتے ہیں۔امی جب یہ دو لڑکیاں ہی پورے اسکول پر حکمرانی کریں گی تو ہمیں کون پوچھے گا اور تمام ٹیچرز بھی ان کو ہی آگے آگے رکھتے ہیں۔

آج آئی ایم ایف،سرمایہ دار ممالک اور ورلڈ بینک کوپوجا اور الزبتھ سے تشبہہ دی جائے تو غلط نہ ہوگا۔کیوں کہ آج ترقی پذیر اور مسلمان ممالک پر آئی ایم ایف کا قبضہ ہے ان دولت کے بچاریوں نے دنیا کے بیشتر ممالک کو دبوچ رکھا ہے ہم معاشی غلامی کے نشے میں قرض پر قرض لئے جا رہے ہیں۔اور کمال کی بات یہ ہے کہ قرض دینے والے چند یہودی نے دنیائے عالم کی معیشت پر پنجے گاڑ رکھے ہیں۔وہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ کائنات پر حکومت کر رہے ہیں ہم معاشی غلام بن چکے ہیں اور یہ زمینی خدا ہم پر مسلط ہیں۔قرض لے کر غربت کو کم کرنے کے بجائے غربت کا گراف بڑھتا ہی جا رہا ہے اس ضمن میں گراہم ہینکوک کی کتا ب "غربت کے آقا" مجھے یاد آگئی۔اس کتاب میں غربت زدہ ممالک کا بڑی خوبی سے ذکر کیا گیا ہے۔موجودہ حکومت کے عمران خان پاکستان کے 22 ویں وزیر اعظم بن گئے ہیں۔ اور یہ حکومت 13 ویں مرتبہ اپنا کشکول آئی ایم ایف کے آگے پھیلائیں گے۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک امریکہ،برطانیہ اورفرانس کا دوست جبکہ ترقی پذیر ممالک خاص کر مسلم ممالک کے چھپے دشمن ہیں۔

اس کی مثال یو ں لی جاسکتی ہے کہ پہلے کسی بھی انسان کو نشہ مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ عادی ہو جانے پر نشئی سے اگلی پچھلی ساری رقم سود کے ساتھ وصول کی جاتی ہے اور نشہ مہنگا کردیا جاتا ہے بلکل اسی طرح ڈالر مہنگا کر کے ہمارے کشکول میں بھیک تو ڈال دی جائے گی۔مگر اس کشکول کی بڑھتی ہوئی رقم ڈالر کے بڑھنے پر 4 گنامزید بڑھ جانے پر کشکول سے باہر آنے لگے گی۔مگر ایک بھکاری جس طرح مانگ مانگ کر دولت چھپا چھپا کر رکھتا ہے اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا رہتا ہے۔ اسی طرح ہمارے حکمران بھی امداد کی رقم کو ملک و قوم پر خرچ کرنے کے بجائے اپنے اکاؤنٹس میں منجمد کر کے رکھ دیتے ہیں۔

ہمارے ملک کا ہر آنے والا حکمران بھکاری بن کر ہر مرتبہ آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلاتا دکھائی دیتا ہے۔اکثر حکمران سعودیہ عرب سے امدا د وصول کرنے کی غرض سے وہاں کا رخ کرتے ہیں مگر اس بار سعودیہ کو بھی امریکہ نے ڈھکے چھپے الفاظ میں منع کردیا ہے کہ پاکستان کو قرض نہ دیا جائے اسکے باوجود سعودیہ نے پاکستان کو امداد کے نام پر ایک بڑی رقم دی ہے اب اس رقم کے پیچھے اور سعودیہ کے سی پیک میں شمولیت کے پیچھے کیا رازپوشیدہ ہے اس کی پردہ کشائی جب امریکہ چاہے گا تب ہوگی۔موجودہ حکومت کاآئی ایم ایف کی دہلیز پر کشکول لے کر جانے سے پہلے ہی بجلی و گیس کے نرخ بڑھانے کا راز اسد عمر کی وزرات میں چھپا ہے۔کیوں کہ ترقی پذیر ملکوں کی معیشت پر معیشت کے ماہر حاوی ہیں۔ خالد گورایا کی کتاب "معاشی آزادی ازم "کے اس راز کوآسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کے عوض خود کشی کرنے کاکہا تھا پھر خود ہی کشکول اٹھا کر اس سمت چل دیئے۔ترقی پذیر ملکوں کی معیشت کے ماہر معاشیات بھی سرمایہ دارانہ ممالک کی پیدوار ہوتے ہیں۔اور اقتصادیات کا گراف ان کی ہاں ناں میں بنتاہے۔ملکوں کے سالانہ بجٹ،مہنگائی کی شرح کو بڑھانا،طلب و رسد کی لہروں کی رفتار ہلکی تیز کرنا ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ غربت کے آقا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بھکاری ممالک کے کشکول میں مزید بھیک ڈالتے ہیں یا عمران خان اوور سیز گئی پاکستانیوں کی رقم واپس لاکر بیرونی ممالک کا سود اتار کر ملک کے حصے کرکے ان کی بندر بانٹ کرتے ہیں۔کیوں کہ نواز حکومت کو اسٹیبلشمنٹ اور سرمایہ دارانہ ممالک نے محض اس لئے گرایا کہ نواز حکومت نے بیرونی ممالک کے قرض کو سود کے بغیر ادا کرنا چاہاتھاجب کہ مغرب کی معیشت سود پر ہی انحصار کرتی ہے لہذا نواز حکومت کو گرا دیا گیا۔۔۔

Hameeda
About the Author: Hameeda Read More Articles by Hameeda: 25 Articles with 18840 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.