سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) ملک کا ایک
نہایت پروقار ادارہ تھا۔ کسی تنازع میں جب کوئی فریق یہ محسوس کرتا ہے کہ
صوبائی حکومت یا مقامی انتظامیہ اس کو نظر انداز کررہا ہے تو وہ سی بی آئی
کے ذریعہ سے تفتیش کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ اس کے ساتھ انصاف ہو۔ افسوس کہ
دوسروں کے تنازعات کو ختم کرنے والا ادارہ فی الحال آپسی رسہ کشی کا شکار
ہے۔ غلامی کے دور میں سارے ہندوستانی انگریزوں کے خلاف برسرِ جنگ رہتے تھے۔
آزادی کے بعد مختلف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ برسرِ پیکار ہوگئیں
اور انہوں نے اپنے مفاد کے لیےعوام کو ایک دوسرے سے لڑانا شروع کردیا۔ بات
آگے بڑھی تو ایک ہی جماعت کے لوگ اقتدار کی خاطرآپس میں لڑنے جھگڑنے لگے
اور اب حالات اس قدر دگر گوں ہو گئے کہ انتظامیہ کا سب سے معتبر ادارہ بھی
سرد جنگ کی لپیٹ میں آگیا۔
منموہن سنگھ کے زمانے میں عدالت عظمیٰ نے سی بی آئی کو ’پنجرے میں بند
طوطا ‘ کہا تھا لیکن مودی جی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس طوطے کو پر لگ
گئے اور اس نےپنجرے سمیت اڑان بھرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس نئی پرواز میں سی بی
آئی کے سابق ڈائرکٹر آلو ک ورما اس کو وارانسی کی جانب اور راکیش استھانہ
اسے بڑودہ اڑا کر لے جانا چاہتے تھے ۔ اتفاق سے یہ دونوں شہر وزیراعظم کے
حلقہائے انتخاب رہے ہیں۔ اس کھینچا تانی میں دونوں کے پر کتر کے چھٹی پر
رخصت کردیا گیا اور نئے ڈائرکٹر کے طور پر ناگیشور راو کو عبوری سربراہ
بنایا گیا ۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ مودی جی کو کسی اہم کام کے لیےآدرش
گجرات کا فرد میسر نہیں آیا ورنہ اقتدار میں آتے ہی گجرات سے راجیہ سبھا
کے رکن ارون جیٹلی وزیر خزانہ اور وزیر دفاع بنائے گئے۔ امیت شاہ پارٹی کی
صدارت کے عہدے سے نوازہ گیا۔ ریزرو بنک کے گورنر کا اہم عہدہ ارجیت پٹیل کو
سونپ دیا گیا ۔ اڈانی اور امبانی کے وارے نیارے ہوگئے۔ سی بی آئی میں
ڈائرکٹر بنانے کے لیے راکیش استھانہ کو لایا گیا لیکن بدقسمتی سے وہ خصوصی
ڈائرکٹر سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
سی بی آئی کے ذریعہ خود اپنے ہی افسر راکیش استھانہ کو رشوت خوری کے
معاملے میں مجرم قرار دینا اور ڈی ایس پی رینک کے دیویندر کمار کا گرفتار
ہوجانا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ اتفاق سے یہ سارے سبزی خورحضرات گوشت
برآمد کرنے والے معین قریشی کےدام میں پھنس گئے ہیں۔ سی بی آئی نے
استھانہ پر منوج نامی شخص کے توسط سے دو کروڈ روپیہ رشوت لینے کا الزام
لگایا ہے۔ اس تنازع میں حکومت کی اہم ترین ایجنسی رآ( ریسرچ اینڈ انالسس
ونگ)میں دوسرے نمبر کے اعلیٰ ترین عہدیدار سامنت کمار گوئل کےبھی ملوث ہونے
کا الزام ہے۔ راکیش استھانہ نے پلٹ وار کرتے ہوئے اپنے افسر آلوک ورما پر
لالو پرشاد کی بدعنوانی کی تحقیق میں دخل اندازی کا الزام لگایا ہے۔
استھانہ لالو کے علاوہ چدمبرم اور سونیا کی بدعنوانی کے معاملات کی بھی
تحقیقات کررہے ہیں۔وہ چونکہ وزیراعظم کے قابلِ اعتماد افسر ہیں اس لیے سارے
سیاسی حریفوں کے قضیہ انہیں کے پاس ہیں۔
ان دونوں طوطوں نے جب پنجرے کے اندر خونخوار مرغوں کی طرح ایک دوسرے کو
لہولہان کرنا شروع کردیا تو خود وزیراعظم نے صلح صفائی کی بے سود کوشش کی ۔
آلوک ورما نے وزیراعظم سے ملاقات کے ایک گھنٹے بعد ہی دیویندر کمار کی
گرفتاری کے احکامات جاری کردیئے اور چھاپوں کا آغاز ہوگیا ۔ دیویندر کی
گرفتاری کے بعد سی بی آئی نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح راکیش استھانہ کے
کہنے پردیویندرنے فرضی شواہد تیار کیے تھے ۔انلوگوں کے دہلی میں بیان کا
دعویٰ کردیا تھا جو اس روز شہر میں نہیں تھے۔ دیویندر کے راکیش کے ساتھ فون
پر رابطے کے ثبوت کا دعویٰ بھی کیا گیا۔ آلوک ورما کے اس جرأتمندانہ
اقدام سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خود اپنے افسران پر وزیرا عظم کی پکڑ
کس قدر ڈھیلی ہوگئی ہے ۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے سبھاش چندر بوس کی طرح
ترچھی ٹوپی پہن کر تقریر کرنا جتنا آسان ہے معاملات کو سلجھانا اور حکومت
کا رعب داب قائم کرنا اتنا ہی مشکل ہے۔
سی بی آئی دراصل وزارت داخلہ کے تحت چلنے والے ادارے ہیں لیکن اس جھگڑے کو
چھڑانے کے وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کے بجائے مودی جی نے خود سعی کی اور جب
معاملہ بے قابو ہوگیا تو صفائی پیش کرنے کے لیے ارون جیٹلی کو آگے کردیا ۔
اس سے سرکار کے اندرباہمی عدم اعتماد کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔جیٹلی جی
نےسی بی آئی ڈائریکٹر کی چھٹی کے فیصلے کا مقصد ادارے کی آئینی صداقت
پرعوام کا اعتبار برقرار رکھنابتایا لیکن سوال یہ ہے کہ جس عہدے کی تقرری
تین اہم آئینی شخصیات کرتی ہوں اس کو حکومت ایک حکمنامہ سے چھٹی پر بھیج
دیئے جانے سےوقار بحال ہوتا ہے یا پامال ہوجاتا ہے؟ کانگریس کا الزام ہے کہ
سی وی سی کے پاس سی بی آئی ڈائریکٹر کی تقرری یا معزولی کا اختیار نہیں ہے
۔مودی سرکار اس کا غلط استعمال کر رہی ہے۔وزیر اعظم نے ’’ایک وقت کی شاندار
جانچ ایجنسی جو اپنی سالمیت، صداقت، اعتبار اور عزم کے لیے جانی جاتی تھی،
منہدم کردیا ہے۔‘‘
کانگریس ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے تو اپنے ٹوئٹ میں یہاں تک لکھ دیا
ہے کہ ’’دیکھنا موٹا بھائی- کوئی بچ نہ جائے، پہلے سپریم کورٹ، پھر الیکشن
کمیشن، پھر آر بی آئی، پھر ای ڈی/ایس ایف آئی او، اور اب سی بی آئی!
یہی ہے نہ آپ کا گجرات ماڈل؟ الزام کانگریس پر لگاتے تھے، لیکن آج سب کہہ
رہے ہیں... مودی-شاہ کی جوڑی، سی بی آئی کہیں کی نہیں چھوڑی!‘‘مایہ ناز
وکیل پرشانت بھوشن نے وزیر اعظم نریندر مودی پر الزام لگایا کہ رافیل
معاملہ کے خوف سےانہوں نے سی بی آئی ڈائریکٹر کو چھٹی پر بھیج دیا ہے۔
یشونت سنہا اور ارون شوری نے سی بی آئی ڈائریکٹر سے رافیل معاہدہ کی جانچ
کا مطالبہ کیا تھااس کے بعد سی بی آئی ڈائریکٹر نے رافیل معاہدہ سے جڑی
فائلیں حکومت سے طلب کی تھیں۔‘‘ اس انہدامی کارروائی کے بعدتلنگانہ کیڈر کے
ناگیشور راو نےعبوری ڈائرکٹرکاعہدہ سونپا گیا اور انہوں نے’سوچھتا ابھیان‘
کی شروعات کرتے ہوئے ارون شرما کو جی ڈی پالیسی، جی ڈی اینٹی کرپشن ہیڈ
کوارٹر سے ہٹا دیا ۔ ڈی آئی جی منیش سنہا کو بھی برطرف کر دیا گیا اور
راکیش استھانہ کے معاملہ کو تیز رفتا ر تفتیش کے حوالے کر دیا۔
اس سے قبل سی بی آئی رشوت خوروں کے دفاتر پر چھاپے مارکران پر تالا چڑھا
دیتی تھی لیکن مودی سرکار کے دوران چشم گنہ گار نے یہ منظر بھی دیکھا کہ
خود سی بی آئی کے ۱۰ ویں اور۱۱ویں منزل پر قفل لگانے کی نوبت آگئی ۔اس
جوتم پیزار میں سی بی آئی کے پہلے اور دوسرے نمبر کے افسران ایک دوسرے پر
رشوت خوری کا الزام لگا رہے ہیں۔ ’نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا‘ کا نعرہ
لگا کر احمد آباد سے دہلی آنے والے پردھان سیوک کے پسندیدہ طوطے پر پانچ
کروڈ رشوت قسطوں میں لینے کا الزام چشم کشا ہے۔ ایک زمانے تک طوطا ’می ٹو
،می ٹو‘ کہتا تھا لیکن صحافت کی دنیا میں وزیراعظم کے کوے ایم جے اکبر کی
کائیں کائیں کے بعد سی بی آئی میں ’ یو ٹو ، یوٹو ‘ کا شور اٹھا ۔ بعید
نہیں کہ بہت جلد استھانہ اور اکبر کے درمیان وزیراعظم کی سیلفی کے نیچے’وی
ٹو ، وی ٹو‘ لکھا ہو ۔ اس دلچسپ صورتحال پر معروف شاعر دلاور فگار کا ایک
مشہور قطعہ صادق آتا ہے؎
حاکمِ رشوت ستاں۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰فکرِ گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت،۰۰۰۰۰۰۰۰۰چھوٹ جا
میں بتاؤں تجھ کو تدبیرِ رہائی،۰۰۰۰۰۰۰۰۰ مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا
|