اکتوبر کا مہینہ پاکستانیوں کو پرویز مشرف کی شکل میں ایک
ایسی عفریت دے گیاجو پچھلی تین دہائیوں سے سردرد بن چکا۔بد قسمتی ہی سمجھا
جائے گاکہ پاکستان میں سیاسی اور غیر سیاسی بندوبست ایک عرصہ سے انہی حضرت
کے برے بھلے کے لیے کیے جاتے رہے۔تحریک انصا ف کے مخالفین بھی اس بات پر
متفق ہیں کہ مشر ف کو کٹہرے سے بچانے کے لیے بیسیوں ڈرامے کیے گئے۔ایک عرصہ
سے ان جناب کا اپنا ادارہ بھی بے چین ہے۔اسے ا ن کی بے جا وکالت بھی کرنا
پڑی اور کچھ نا گوار فیصلے بھی۔۔آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف
غفور نے 14اکتوبر کو لندن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے جہاں دوسرے ایشوز پر
پاک فوج کے موقف کا دفاع کیا وہیں پر سابق صدر جنرل ر پرویز مشر ف کا ذکر
کرنا بھی ضرور ی سمجھا ۔ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشر ف کی سیاست سے فوج کا
کوئی تعلق نہیں۔فوجی ترجمان کی وضاحت اس بات کاثبو ت ہے کہ اب تک سابق صدر
پاکستان کے اعلیٰ حلقوں میں مذکور رہتے ہیں۔وہ اپنے دور میں ریاست اور عوام
کے لیے مسائل کا سبب بنے ۔جانے مشرف کا بھوت کب پاکستانی سیاست اور پاک فوج
کا ساتھ چھوڑے گا؟ وہ کارگل ایشو سے متنازعہ ہوئے۔ابھی صورت حال غیر واضح
ہی تھی کہ 12اکتوبر کا دن آگیا۔اس کے بعد سے وہ پاکستانی تاریخ کا ایک
لازمی حصہ بنتے چلے گئے۔ان کی قسمت کے ان کے کھاتے میں اچھا کم آیا اور برا
زیادہ۔ان پر ریاستی نطام درہم برہم کردینے کاالزام لگایا جاتاہے۔مشرف تو
قائم رہے مگر ان کی بقاسیاسی نظا م کی تباہی کا سبب بنی۔نظام عدلیہ توڑ
پھوڑسے گزرا۔خود ان کے ادارے کے اندر بے چینی بڑھتی چلی گئی۔ ایک لمبے عرصہ
تک مشرف اپنے کولیگز کئی حق تلفی کا سبب بنے۔جتنا عرصہ وہ کمان سنبھالے
رہے۔اس بیچ سینکڑوں بڑوں کی باری آئے بغیر چلی گئی۔مشر ف پیچھے نہیں ہٹے۔وہ
ڈٹے رہے۔اپنی منواتے رہے۔وہ کامیاب رہے مگر ان کی یہ کامیابی ملک کا سکون
اور امن نگلتی رہی ۔ ملک میں جاری لاقانونیت کے سبب خدائی فوجداران کا گڑھ
بن گیا۔دہشت گردی روز کا معمول تھی لوگ خوف سے گھروں میں مقید
ہوگئے۔کاروبار تباہ ۔امن وامان ندارد۔بچا رہا تو صرف اور صرف ایک مشرف کا
اقتدار۔باقی کچھ نہ بچا۔حقیقی سیاسی قیادت کو جبراً منظر سے ہٹاکر الو باٹو
ں کی ایک فو ج تیارکی۔ یہ لوگ مشرف کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کے
جائز ہونے کی قسمیں کھایا کرتے تھے۔عدلیہ سے بھی ایسے تمام لوگ ہٹادیے گئے
جو آئین او رقانون کی بات کرنے پر بضد تھے۔ یہاں وہی رہ گئے جو صرف اسی کو
صحیح کہہ سکیں جومشرف کو صحیح لگے۔
آج اپوزیشن تحریک انصاف کی حکومت کو مشرف دور کاتسلسل کہہ رہی ہے۔جس صورت
حال سے قوم گزر رہی ہے۔وہ اپوزیشن کے موقف کی طرف جھکاؤ پیداکررہی ہے۔وزیر
اعظم عمران خاں کا سعودی عرب کا دورہ مکمل ہوچکا۔حکومت اسے کامیاب ثابت
کرنے میں مصروف ہے اور اپوزیشن ناکام۔اس دورے کی کامیابی او رناکامی کا
تعین کرنا فوری طور پر ممکن نہیں اپوزیشن اور حکومت دونوں طرف سے اس دورے
پر سیاست ہورہی ہے۔حقیقت دونوں طرف سے جھٹلائی جارہی ہے۔6ارب ڈالر کا سعودی
پیکچ کوئی چھوٹی کامیابی نہیں۔بلاشبہ حکومت کے لیے کچھ مہینوں کا اسباب
مہیا ہوچکا۔فوری طو رپر دو سے تین ارب ڈالر درکار تھے وہ مل چکے۔حکومت اگر
اس دورے کو کامیاب کہتی ہے تو وہ حق بجانب ہے۔وزیر اعظم خالی ہاتھ نہیں
لوٹے۔چھ ارب کا پیکچ ایک اچھا گفٹ ہے۔ اب اس پیکج کا استعمال طے رکے گاکہ
حکومت کی نیت اچھی ہے یا بری۔اس پیکج کو اگر نیک نیتی سے استعمال کیا
جاتاہے توحکومت کم ازکم کچھ وقت کے لیے معاشی بحران سے نکل چکی۔وہ چاہے تو
اب یک سوئی سے پالیسی سازی کی طرف جاسکتی ہے۔وہ بوکھلائی بوکھلائی پھر رہی
تھی۔کچھ اناڑی پن ۔کچھ مالی مشکلات نے گھبراہٹ طاری کررکھی تھی۔اب جبکہ اس
کی مالی مشکل دور ہوچکی اسے نئے سرے سے ایشوز کا جائزہ لینا ہوگا۔پچھلے
دومہینوں میں جو فیصلے عوام میں بے چینی کا باعث بنے ان پر نظر ثانی کرنا
ہوگی۔عام آدمی تحریک انصاف کی حکومت میں کچھ نہ کچھ ملنے کی توقع کررہا تھا
نہ کہ کچھ چھن جانے کی۔جس طرح ابتدائی دومہینوں میں ہی مہنگائی کا طوفان
آیا۔اس نے مایوسی پھیلائی ہے۔اگر کچھ ریلف نہیں دے سکتی تو کم از کم مذید
بوجھ ڈالنے سے گریز کرے۔اگر حکومت دو چار مہینے بعد پھر روتی پیٹنی نظر آئی
تو سمجھ لینا ہوگاکہ تبدیلی اور بہتری کی بات کسی فریب کاری سے زیادہ کچھ
نہ تھیں۔
اپوزیشن تحریک انصاف کی حکومت کو جعلی حکومت قراردیتی ہے۔جو پردہ نشینوں نے
قائم کی۔اس کے بقول تحریک انصاف میں کچھ عیار اور مکار لوگ ہیں جو ہتھیلی
پرسرسوں جمانے کی فنکار ی جانتے ہیں۔بھولی بھالی عوام کو اسی قماش کے لوگوں
نے الیکشن سے قبل مائل کیا تھا۔تحریک انصاف کوکٹھ پتلی حکومت قراردیا
جارہاہے ۔ایسے لوگوں کا ہجوم جو کسی نہ کسی طرح اقتدار پانے کے شوقین
تھے۔انہیں نہ ریاست کی فکر ہے نہ عوام کی پرواہ ۔کسی بھی قیمت پر اقتدار
پانے کی پالیسی انہیں ہر طرح کا سچ جھوٹ بولنے پر اکسا تی رہی تھی۔اب جب کہ
انہیں اقتدار حاصل ہو اہے تو ان کی نالائقیاں اور جھوٹ سامنے آرہا
ہے۔اپوزیشن اس دونمبر سیٹ اپ کو پرویز مشرف کی خلاصی کا ایک ہتھیا رقرار
دیتی ہے۔اگر اس ہتھیار کا مقصد مشرف کو کٹہرے سے نکلواکر ملک سے فرار
کروانا تھا تو ایسا ہوچکا۔اب لکیر ہے جتنی چاہیں پیٹتے رہیں۔تحریک انصاف کی
حکومت اگر ناکام ہوتی ہے تو یہ بھی جمہوری لوگوں کے گلے ڈالی جائے گی۔ان
دنوں اکتوبر کا مہینہ ہے۔12اکتوبر ہر سال آتا ہے۔گزر جاتاہے۔اس بار بھی یہ
یوں گزر گیا ۔شاید ہمیشہ اگلے سال بھی ایسے ہی گزرجائے۔
|