یوم سیاہ اور بھارت کی ریاستی دہشت گردی

27 اکتوبر1947ء۔۔۔اہلیان کشمیر کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے کہ جب برہمن سامراج نے تقسیم برصغیر کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلم اکثریتی علاقے جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ 27 اکتوبر کو رات کے اندھیرے میں جہازوں کے ذریعے بھارتی فوجیں کشمیر میں داخل ہونا شروع ہو گئیں، جنہوں نے ڈوگراراج کے ساتھ مل کر 3 لاکھ مسلمان شہید کر دئیے اور 5 لاکھ مسلمانوں کو پاکستان کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔

برصغیر کی تقسیم اس بنیاد پر ہوئی تھی کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کے ساتھ شامل ہوں گے اور غیر مسلم اکثریتی علاقے بھارت کے ساتھ شامل ہوں گے۔ کشمیر جو مسلم اکثریتی علاقہ بھی تھا اور محل وقوع کے لحاظسے بھی پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہیے تھا کیونکہ پاکستان کی طرف بہنے والے دریا کشمیر کے پہاڑوں سے نکلتے ہیں اور پاکستان کی زراعت کا انحصار انہی دریاؤں کے پانیوں پر ہے۔ کشمیر کے جغرافیائی محل وقوع کے بارے میں معمولی معلومات رکھنے والا انسان بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ کشمیر پاکستان کے لیے ناگزیر کیوں ہے؟ پاکستان کی زراعت کا بیشتر انحصار کشمیر پر ہے اور کشمیر کی سات سو میل لمبی سرحد (گلگت بلتستان)کے ساتھ براہ راست ملتی ہے۔ جبکہ بھارت سے ملنے والی سرحد کی لمبائی صرف دو سو میل ہے جس کا بیشتر حصہ ناقابل گزر پہاڑوں پر مشتمل ہے۔

تقسیم برصغیر کے اصولوں کے مطابق بھی کشمیر پاکستان کا حصہ ہے، کیونکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی مسلم آبادی 87 فیصد ہے۔ ان تمام حقائق کے باوجود بھارتی سامراج نے چونکہ قیام پاکستان کو قبول ہی نہیں کیا تھا، اس لیے بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے قیام پاکستان سے قبل ہی برطانوی ڈویلپمنٹ کے ساتھ ایک میٹنگ میں یہ بات واضح طور پہ بتا دی تھی کہ ہم عارضی طور پر پاکستان بننے کا مطالبہ قبول کر لیتے ہیں، پھر بتدریج ان کے لیے ایسے حالات پیدا کر دیں گے کہ مسٹر جناح ہم سے خود مطالبہ کریں گے کہ پاکستان کو دوبارہ بھارت کے ساتھ ملانا چاہیے۔ اسی مشن کی تکمیل کے لیے بھارتی فوجوں کو کشمیر میں داخل کیا گیا کہ کسی طرح کشمیر کے مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا جائے تا کہ پاکستان ان حالات کو برداشت نہ کر سکے اور دوبارہ بھارت کے ساتھ مل جائے۔

80 لاکھ کشمیریوں پر ساڑھے 8 لاکھ بھارتی فوجی مسلط کر دئیے گئے، جنہوں نے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کر دیا۔ کشمیری عوام گزشتہ 71 سالوں سے حق خود ارادیت حاصل کرنے کے لیے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔لاکھوں نوجوانوں نے حق آزادی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ہزاروں پھول جیسے بچوں کو مسلدیا گیا۔ لاکھوں خواتین بیوہ ہوئیں، ہزاروں مردو خواتین کی آنکھوں کی بینائی چھین لی گئی تا کہ یہ آزادی کا خواب پور ہوتا نہ دیکھ سکیں۔ لاکھوں خواتین کی آبروریزی کی گئی، لاتعداد لوگوں کو معذور کیا گیا،ما ئیں اپنے جگر گوشوں کی گھر واپسی کاانتظار کرتے اس دنیا سے چل بسیں۔ اربوں روپے کی جائیدادیں، مکانات، دکانیں، باغات، فصلیں اور دیگر اثاثے ملبے کا ڈھیر بنا دئیے گئے۔

سینکڑوں بستیوں کو نذر آتش کر دیا گیا، سینکڑوں مساجد کو گرا دیا گیا اور ہزاروں مساجد کو مقفل کر دیا گیا تا کہ مسلمان اپنے اﷲ وحدہ لا شریک کی عبادت نہ کر سکیں۔ جنگلی جانوروں پر چلائی جانے والی پیلٹ گنوں کا انسانوں پر بے دریغ استعمال کر کے لاکھوں قیمتی جانوں کو زندہ لاشیں بنا دیا گیا۔ کیمیکل ہتھیار استعمال کر کے سینکڑوں بستیوں میں بسنے والی جانوں کو قصہ پارینہ بنا دیا گیا، سکول و کالجز سمیت سینکڑوں تعلیمی اداروں کو صرف اس لیے بند کر دیا گیا کہ یہاں تعلیم حاصل کرنے والا نوجوان بھارت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

الغرض کہ بھارت نے ہر وہ حربہ آزمایا جو وہ آزما سکتا تھا اور افسوس کی بات یہ کہ یہ ظلم و بربریت کا بازار ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ آئے روز بزدل انڈین آرمی نئے نئے ہتھکنڈے اپنا کر مقبوضہ کشمیر پہ اپنا تسلط قائم کرنا چاہتی ہے۔ بھارتی فوج کے افسران کبھی خود کو کشمیری سنگ بازوں سے بچانے کے لیے ایک نوجوان کو اپنی جیپ کے آگے رسیوں سے باندھ کر کشمیر کے بازاروں میں گھومتے ہیں تو کبھی ایک نوجوان کو شہید کرنے کے بعد اس کے جسم کو کیمیکل کے ذریعے آگ لگا دیتے ہیں۔ ظلم و بربریت کی انتہا تو یہ ہے کہ ایک کشمیری کو اس بات پر شہید کر دیا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کا جھنڈا اٹھا کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتا ہے اور پھر اس کی میت کو رسیوں کے ذریعے باندھ کر کشمیر کی سڑکوں پر گھسیٹا جاتاہے۔
اس سب کے باوجود کشمیریوں نے عزم مصمم کر رکھا ہے کہ وہ ہر قیمت پر حق خودارادیت حاصل کریں گے۔ ہر سال27 اکتوبر کو دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری ''یوم سیاہ'' منا کر اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ وہ بھارت کا مکروہ، سیاہ اور بھیانک چہرہ اقوام عالم کے سامنے برہنہ کریں گے اور اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آزادی دلائی جائے۔

دنیا کے کسی کونے میں گر کسی کتے پر بھی ظلم کیا جاتا ہے تو اس کے بھی قوانین موجود ہیں اور دنیا کی عدالتیں ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کردار ادا کرتی ہیں۔ آخر کیا وجہہے کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کے لیے اقوام متحدہ کی متفقہ قراردادیں ہونے کے باوجود اقوام عالم میں کشمیریوں کی آواز کو دبایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی 1948ء، 1949ء اور 1957ء کی مشہور زمانہ متفقہ قراردادیں موجود ہیں کہ جن میں بھارت اور پاکستان دونوں کو اس بات پر عمل کرنے کا حکم نامہ جاری ہو چکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کے ذریعے عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔

آج کشمیری عوام تحریک آزادی کشمیر کو لے کر اس موڑ پر کھڑے ہے کہ اس سے پہلے انسانی تاریخ نے کبھی ایسی تحریک نہیں دیکھی ہو گی۔

کشمیری عوام نے قائداعظم محمد علی جناح کے قول ''کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔'' کے مطابق اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں، وہ روزانہ کی بنیاد پر قیمتی جانوں کا نذرانہ صرف اس لیے پیش کر رہے ہیں کہ ان کی دھڑکنیں پاکستان کے ساتھ دھڑکتی ہیں اور وہ گولیوں کی بارش میں لاکھوں کی تعداد میں ''کشمیر بنے گا پاکستان'' اور ''پاکستان سے رشتہ کیا۔۔۔ لا الہ الا اﷲ'' کے نعرے لگاتے ہوئے پاکستان کے جھنڈے کو لہراتے ہوئے گولیوں کا مقابلہ پتھروں سے کرتے ہیں۔ شہید ہونے والے وصیت کرتے ہیں کہ ہمیں پاکستان کے پرچم میں دفن کیا جائے۔

بھارت نے کشمیر میں ظلم کی کوئی ایسی حد نہیں جو کراس نہ کی ہو اور پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہمیشہ سست روی کا شکار رہا ہے۔ ہر موڑ پر پاکستان نے صرف اتنا کہہ کر کہ'' اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں'' 71 سال گزار دئیے ہیں۔

آج مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی علمبردار تمام جماعتیں اپنی آزادی و خود مختاری کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بقاء و سا لمیت اور تکمیل پاکستان کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ مجاہدین جموں و کشمیر پاکستان کی شہہ رگ کو ہندوؤں کے پنجہ استبداد سے چھڑانے کے لیے اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانی دے رہے ہیں۔ یہ جنگ کشمیریوں کی نہیں بلکہ پاکستان اور عالم اسلام کی امن و سلامتی کی جنگ ہے، جس کے لیے تن تنہا کشمیری عوام لڑ رہی ہے۔ آج پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ اقوام متحدہ کی کشمیر کے بارے استصواب رائے پر قائم کی گئی قراردادوں کو لے کر اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹائے اور عالم اسلام کا پریشر ڈال کر بھارت کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ مقبوضہ کشمیر سے اپنی ظالم و جابر فوج کو نکالے وگرنہ پاکستان بھی میدان جنگ میں اتر کر افواج اور عوام کی مدد سے کشمیری عوام کو ہندوؤں کے ظلم و ستم سے آزادی دلائیں۔ اگر پاکستان کی حکومت عوام پاکستان اور افواج پاکستان کو ساتھ ملا کر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی جدوجہد شروع کر دے تو وہ وقت دور نہیں کہ جب کشمیری عوام آزادی کا سورج دیکھے گی۔ بقول شاعر
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے
ان شاء اﷲ

Abdul Hameed Sadiq
About the Author: Abdul Hameed Sadiq Read More Articles by Abdul Hameed Sadiq: 8 Articles with 6844 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.