ہندوستان کا قومی نشان اشوک کی لاٹھ ہے جس میں جملہ چار
شیر ایک دوسرے کی پشت پرہیں اس لیے سامنے سے صرف تین نظر آتے ہیں۔ ان
شیروں کو مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سے تعبیر کیا جاسکتا اور چوتھا پوشیدہ
شیر ذرائع ابلاغ ہےجس کا کام فی الحال مقننہ کے تلوے چاٹنا ہوکر رہ گیا (الاماشاءاللہ)
۔ جمہوری نظام میں مقننہ چونکہ عوام کا نمائندہ ہوتا ہے اس لیے عوام کو
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درمیان والا شیر مقننہ ہے اور دائیں ،بائیں عدلیہ
اور انتظامیہ ہیں ۔ تینوں کا ہوبہو ایک جیسا ہونا اس بات کی علامت ہیں کہ
ان کا درجہ مساوی ہے۔ کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ یہ تینوں
ایک دوسرے کی دخل اندازی کے بغیر آزادانہ کام کرتے ہیں ۔ یہ مثالی تصور تو
ہے لیکن عملاً ایسا نہیں ہے۔ قومی سائل چونکہ مقننہ کے قبضۂ قدرت میں ہوتے
ہیں اس لیے اس کو باقی دونوں پر یک گونہ فوقیت حاصل ہوتی ہے ۔ عدلیہ پر اس
کا زور چلتا توہے مگر کم لیکن انتظامیہ تو پوری طرح اس کی مٹھی میں ہوتا ہے۔
عام طور جمہور کے ذریعہ منتخب ہونے والی حکومت اپنے سیاسی حریفوں اور
نظریاتی مخالفین کو انتظامیہ کی مدد سے پریشان کرتی ہے۔ مظلوم افراد یا
تنظیمیں عدالت سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جہاں ایک طرف عوام اور دوسری
جانب مقننہ و انتظامیہ ہوتی ہے۔ عدلیہ نازک ترین معاملات میں مقننہ کا پاس
و لحاظ رکھتی ہے ورنہ انصاف کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ مودی جی نے ۷۱ سال میں
پہلی بار یہ توازن تہس نہس کر دیا۔ انہوں نے انتظامیہ کی ایک مضبوط شاخ سی
بی آئی کا ہاتھ مروڈنے کی کوشش کی تو انتظامیہ نے ان کوگریبان پکڑ کر
عدالت میں لے گئی۔ یہ ملک کی تاریخ غالباً پہلا موقع تھا جب انتظامیہ اور
مقننہ ایک دوسرے کے مدمقابل ہوگئے ۔ عدلیہ نے اس کاخوب فائدہ اٹھایا اور
مقننہ کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کو بھی اپنے آہنی شکنجے میں جکڑ لیا ۔اس
صورتحال میں بلیوں کے جھگڑے والی کہانی یاد آتی ہےجس میں چالاک بندر نے
اپنی بندر بانٹ سے دونوں کا حصہ ہڑپ لیا تھا ۔
سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما کی عرضی پر سپریم کورٹ کا یہ کہا کہ سپریم
کورٹ جج اے کے پٹنائک کی نگرانی میںسی وی سی جانچ کرے گی اس معاملے میں
انتظامیہ کو بے اختیار کردینے والا اقدام ہے۔ دورانِ جانچ سی بی آئی کے
عبوری ڈائریکٹر ایم ناگیشور راؤ کو پالیسی ساز فیصلہ لینے سے منع کردینا اس
بات کا اشارہ ہے کہ اب وہ کس کے تحت کام کریں گے اور کیا کریں گے ؟ روز مرہ
کے کاموں کے سوا دیگر کاموں پر پابندی ان پر اور ان کا تقرر کرنے والی
سرکار پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ نیا عہدہ سنبھالنے کے بعد تمام فیصلے
بشمول راکیش استھانا کے خلاف تفتیش اور ۱۳ افسران کے تبادلہ سے متعلق ضروری
دستاویز کورٹ کے سامنے سیل بند لفافے میں ۱۲ نومبر کو جمع کرنے کے حکم میں
بلا کی سختی ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ اب سی بی آئی پر مقننہ کا نہیں بلکہ
عدلیہ زور چلے گا ۔ ویسے تو سی بی آئی سرکاری عملہ کی وزارت(Ministry of
Personnel)کے تحت کام کرتی ہے اور فی الحال اس کےسربراہ وزیر اعظم نریندر
مودی ہیں لیکن ان کے اختیارات پر چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے دن دہاڑے شب خون
ماردیا اور وہ ہاتھ ملتے رہ گئے ۔ اس طرح کی اہانت آمیز سلوک تو شاید ہی
کسی وزیراعظم کے ساتھ ہوا ہو اور خدا نہ کرے کسی کے ساتھ ہو۔
یہ تو بالواسطہ معاملہ تھا لیکن جب حکومت کی پیروی کرنے والے سالیسیٹر جنرل
تشار مہتہ نےعدالت سےکہا کہ تفتیش کے لیے ۱۰ دن کا وقفہ کافی نہیں ہے بلکہ
کم ازکم ۳ ہفتے درکار ہیں تو عدلیہ نے اس گزارش کو مسترد کردیا۔ چیف جسٹس
رنجن گگوئی نے کہا کہ ہم پی آئی ایل کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس معاملے کو
زیادہ وقت کے لیے روک نہیں سکتے ۔ ویسے دو اور تین ہفتے میں کوئی خاص فرق
نہیں ہے اس لیے کہ جو بھی ہوگا دیوالی کی تعطیلات کے بعد ہوگا لیکن عدالت
نے حکومت کو یہ اشارہ دے دیا کہ اب دھاندلی برداشت نہیں کی جائے گی۔
اسہزیمت کی کلی ذمہ داری اس حکومت پر ہے جس نے ۲۴اکتوبر۲۰۱۸ کی نصف شب میں
سی وی سی کی آڑ لے کرسی بی آئی کے ڈائریکٹر آلوک ورما کو جبراً چھٹی پر
بھیج دیا اوران کی جگہ ایم ناگیشور کو سی بی آئی کا کارگزار سربراہنامزد
کردیا ۔ گھبراہٹ کے عالم میںحکومت اگر یہ احمقانہ فیصلہ نہیں کرتی تو یہ دن
دیکھنا نہ پڑتا۔
سرکار کو یہ خوش فہمی تھی کہ اس فیصلے سے آلوک ورما ڈر جائیں گے اور
معاملہ رفع دفع ہوجائے گا لیکن وہ سی وی سی کے خلاف سپریم کورٹ میں پہنچ
گئے۔ آلوک ورما کی جانب سے فلی ناریمن نے اس جبری چھٹی کو قانون کی خلاف
ورزی قرار دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈی ایس پی ای ایکٹ ، ۱۹۴۶کی دفعہ ۱۴ے کے
تحت سی بی آئی ڈائریکٹر کو اس سلیکشن کمیٹی کے اتفاق رائےکے بغیر نہیں
ہٹایا جا سکتا ہے جس نے تقرری کی سفارش کی ہو۔ اس کمیٹی میں وزیر اعظم، حزب
مخالف کا رہنما اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس شامل ہوتے ہیں۔ فلی نریمن کے
مطابق مرکزی حکومت کا یہ حکم سی بی آئی ڈائریکٹر کی مدت کارکےدو سال سے کم
نہ ہونے کے اصول کی خلاف ورزی ہے ۔عدالت عظمی ٰ نے یہ ضابطہ ونیت نارائن
بنا م یونین آف انڈیا معاملے میں طے کیا تھا۔ اپنے ان ناعاقبت اندیش فیصلوں
کےسبب مودی سرکار نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی ہے۔
اس معاملے میں ایک طرف تو سی بی آئی کی جانب سے یہ اعلان کروانا کہ آلوک
ورما ہنوز ڈائرکٹر کے عہدے پر فائز ہیں اور پھر خفیہ ایجنسی آئی بی کے
ذریعہ ان کے گھر کی جاسوسی کرنا نہایت شرمناک حرکت ہے۔ جمعہ کے دن آئی بی
کے چار افسران کو سی بی آئی سربراہ کے محافظین کے ذریعہ گریبان پکڑ اندر
لے جانا اور پولس کو بلا کر انہیں گرفتار کروادینے والی تصاویر جب اخبارات
کی زینت بنی تو ساری قوم کا سر ندامت سے جھک گیا ۔ اس معاملے میں تفتیش
جاری ہے۔ یہ آئی بی والے ایک گاڑی میں بیٹھکر ورما کے گھر کی نگرانی
کررہے تھے۔ ان پر شک ہے کہ یہ یا تو کوئی آواز سننے والی آلہ نصب کرنے کی
فکر میں تھے یا پھر آنےجانے والوں پر نگاہ رکھے ہوئے تھے۔
یہ قیاس آرائی بھی ہے کہ آلوک ورما کی جاسوسی قومی سلامتی کے مشیر اجیت
ڈوبھال کی ہدایت پر کی جا رہی تھی ۔اس سے قبل نامعلوم آئی بی اور پولیس
افسران سی بی آئی کے صدر دفتر پر چھاپا مارکر جانچ کرچکےہں ۔ ان سانحات کی
روشنی میں اجیت دوبھال کی حالیہ تقریر کو یاد کریں جس میں انہوں نے فرمایا
ملک کو لاحق خطرات باہر سے زیادہ اندر ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو پہلے
فرانس ، پھر روس اور اب اسرائیل سے ہزاروں کروڈ کا اسلحہ کس کے لیے خریدا
جارہا ہے؟ جو لوگ اپنے ہر مخالف کو قوم کادشمن سمجھتے ہوں وہ بھلا سب کو
ساتھ لے کر ملک کیا چلائیں گے؟ ان کے ذریعہ قوم کے ہاتھ ذلت و رسوائی کے
سوا کیا آئے گا؟
|