تغیروثبات

تحریر: انصر محمود بابر
حیات انسانی میں آئے دن ،ہرساعت اورہرلمحہ کوئی نہ کوئی تبدیلی رونماہورہی ہوتی ہے۔کہیں پھول کھلے ہوتے ہیں اورخوشبوئیں لٹارہے ہوتے ہیں توکہیں معصوم کلیاں بن کھلے ہی کملاجاتی ہیں۔ایک منٹ میں انسان کی دھڑکنوں کی تعداد80 ہے تودوسرے ہی لمحے یہ گنتی اس سے کم یازیادہ بھی ہوسکتی ہے۔انسان کبھی کسی کودیکھتاہے توآنکھ جھپکنابھول جاتاہے اورکبھی کسی چیزکی چکاچونداتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ آنکھ کھلتی ہی نہیں،اورپھرجب آنکھ کھلتی ہے توآنکھیں کھل جاتی ہیں۔وہی سورج ہوتاہے کہ ہم سائے تلاش کررہے ہوتے ہیں اورکبھی ہمیں اس کی بادلوں سے آنکھ مچولی بھی اچھی نہیں لگتی۔چاندایک ہی وقت میں فطرت پسندوں کے جذبات ِ شوق کومہمیزکررہاہوتاہے تودوسری طرف ’’لو ُٹنے والے ‘‘اور’’لو َٹنے والے‘‘اسی چاندکے چھپ جانے کی دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں۔ایک ہی وقت میں کچھ لوگ ستاروں کی روشنی میں اپنی راہ ڈھونڈ لیتے ہیں اورکچھ لوگ اپنی چھتوں پہ لیٹے انھی ستاروں کوگننے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں۔

جس جس نے جوجوکرناہوتاہے وہ کر کے ہی رہتا ہے۔اگرپھولوں کوکھل کرمرجھاناہی ہوتاہے تووہ کھلتے ہی کیوں ہیں؟اگرپھول کھلے ہی رہیں توکلیاں توکبھی بھی پھول نہ بن پائیں، سورج ہمارے لیے اگررات کوبھی اتناہی ضروری ہوتاجتناکہ دن میں توسورج کورات میں بھی نکلناہی پڑتا۔اگررات اندھیری نہ ہو توچاند کی چاندنی اورتاروں کی ضیاء پاشیاں کس کام کی؟سانس کاپھولناشدت ِ محبت کابھی اظہارہوسکتاہے اورشدت ِ غضب کابھی۔ہرسو پھیلی خوشبو پھولوں کے جوبن کااعلان کررہی ہوتی ہے۔توکلیاں اپنی حیاکی درامیں لپٹی اپنے بچپنے سے لطف اندوزہورہی ہوتی ہیں۔ درختوں سے گرتے پتے جہاں خزاں کی علامت ہوتے ہیں،وہیں اس بات کامژدہ بھی سنارہے ہوتے ہیں کہ ہمارے تعاقب میں بہاروں کاایک سلسلہ بھی ہے جودبے پاؤں چلاآرہاہے۔درختوں کے جوپتے خزاں تک بچ جاتے ہیں وہ خوش نصیب ہوتے ہیں کیونکہ آنے والی بہارکا استقبال انھی کے مقدر میں لکھاہوتا ہے۔

بہارکے شگوفوں میں بھرارنگ خشک پتوں ہی کاجوہربھی توہوسکتاہے۔ان خشک پتوں پہ میں کیا لکھوں کہ جوآنے والی بہارکے قدموں پہ قربان ہوکرامرہوجاتے ہیں۔میں ایک دن درختوں کے نیچے سے گزررہاتھا،پاؤں خشک پتوں پہ پڑرہے تھے ۔پاؤں کے نیچے خشک پتے چرمراتے ہوئے عجیب آوازیں نکال رہے تھے،غورکیاتومحسوس ہواجیسے یہ پتے مجھ ہی سے مخاطب تھے ،میرے ہی بارے میں سرگوشیاں کررہے تھے کہ دیکھوزمین پراکڑکرچل رہاہے، کتناغافل انسان ہے جواس بات سے بے خبرہے کہ اس پہ بھی خزاں آئے گی ۔ یہ اس خوش فہمی میں مبتلاہے کہ سداجوبن ہی رہے گااورمیں شرم سے پانی پانی ہوگیا۔یہ انسانی مزاج کاحال ہے کہ پل پل رنگ بدلتا ہے کبھی سائے کی طلب میں سرگرداں،کبھی سرماکی دھوپ کاتمنائی۔کبھی نئے نئے رشتوں کی تلاش میں کوشاں،کبھی بالکل ہی تنہائی کاخواہاں۔کبھی بے حدمحبتوں کاسرچشمہ،کبھی بے پایاں نفرتوں کامظہر۔کبھی عقیدت واحترام کاپیکرتوکبھی بے نیاز ِ پیمان ِ وفا۔

کبھی خدائے لم یزل کاطاقتور دست وبازوتوکبھی شیطانی قوتوں کے تابع مجسمہ شیطان۔کبھی مسجود ِ ملائکہ توکبھی ساجد ِ نیازمند۔کبھی تمام ترانسانی عظمتوں کی انتہائی بلندیوں پرفائزتوکبھی ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوباہوا۔یہی نیرنگی فطرت ہے۔یہ ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ ہی رہے گا۔ ہماری دعایہ ہونی چاہئے کہ یااﷲ توہمیں نافع الخلائق بنادے،تیری مخلوق کوہم سے فائدہ ہواورہمیں تمام شرورسے اپنی امان میں رکھ۔آمین
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1143393 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.