کبھی یہ بات تنہائی میں سوچیئے گا۔

ایمزون کے جنگل کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ دنیا کا سب سے بڑھ جنگل ہے جو 9 ممالک تک پھیلا ہوا ہے، اس جنگل کے بارے بہت ساری باتیں حیران کن ہیں لیکن سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس جنگل میں تقریباً چار سو قبائل آباد ہیں جن کی آبادی کوئی 30 لاکھ لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہ آبادی اکیسویں صدی میں بھی جدید دنیا سے عافل ہیں۔ یہ لوگ ہر قسم کی انسانی آسائشوں سے دور ہیں ان کے پاس کیوں کچھ نہیں وہ اس لیے کہ یہ لوگ صدیوں سے اس جنگل میں رہتے آئے ہیں وہ اب اس دنیا سے باہر نہیں آنا چاہتے اور شاید ہماری دنیا بھی ان کو قبول نہ کرے کیونکہ ہم تو اپنے ساتھ اپنے ملک شہر اور حتی کہ گھر میں رہنے والے افراد کو برداشت نہیں کرتے تو بچارے ان جنگل کے رہنے والے سادہ لوگوں کو کیا برداشت کریں گے۔

جدت پسندی اور نئی چیزوں کو استعمال کرنے سے خواہشات بڑھتی ہیں۔ خواہشات بڑھنے سے زندگی زیادہ معاملات میں مصروف ہوجاتی ہے۔ دنیاوی زندگی کی مصروفیت بڑھ جائے تو انسان خدا کو یاد کرنے سے غافل ہوجاتاہے۔ چنانچہ کسی بھی نئی چیز کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بات کم از کم آج کے دور کا کوئی انسان نہیں سوچے گا۔ ہم تو اپنے گاؤں سے شہر میں ہجرت کرنے کے بعد واپس گاؤں جانا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ گاؤں والے ہماری نظر میں جاہل بن جاتے ہیں اور ہم پتہ نہیں اپنے آپ کو کیا تصور کرنے لگ جاتے ہیں، جدید چیزوں کے استعمال کی خواہشات بڑھتی ہیں یہ میں اور آپ نہیں سوچتے بلکہ دنیا میں سب سے طاقتور ملک امریکا کے ایک قبیلے ایمش کے لوگ سوچتے ہیں۔ امریکا میں ایمش قبیلہ ریاست اوہیو اور انڈیانہ میں آباد ہے یہ لوگ دنیا کے باقی انسانوں سے مختلف ہیں۔ ایمش لوگ امریکہ کے شہری ہونے کے باوجود سائنس ٹیکنالوجی اور زندگی کی جدید ترین ضرورتوں اور آسائشوں سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ ایمش لوگ کاروں ، موٹر سائیکلوں اور ریل گاڑی کی بجائے ا?ج بھی گھوڑا اور گدھا گاڑی استعمال کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جدت پسندی انسان کو انسانیت کے معراج سے گرا دیتی ہے اور سماجی زندگی افراتفری اور بے چینی کی نذر ہو جاتی ہے۔

یہ لوگ امریکہ میں رہ کر بھی بجلی استعمال نہیں کرتے یہ لوگ آج بھی انگاروں والی استری کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے پاس نہ موبائل ہے، نہ لیپ ٹاپ ہے، نہ ٹیبلٹ ہے، نہ ٹی وی اور نہ اہی لیکٹرونکس کی دوسری اشیاء ہیں۔ ایمش قبیلے کے لوگ نہ ہی امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں سے جدید تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کے بچے امریکا میں صرف آٹھویں گریڈ تک سرکاری تعلیم حاصل کرنے کے پابند ہیں۔ ان کا گورنمنٹ کے ساتھ معاہدہ ہے کہ ان کے بچے آٹھویں گریڈ کے بعد اپنے دینی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کریں گے۔ ان کی عورتیں سکارف لیتی یا ٹوپی پہنتی اور ایک ہی رنگ کے کپڑے استعمال کرتی ہیں۔ مرد مونچھیں منڈواتے اور داڑھی بڑھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ آج تک اتنی بڑی تعداد میں پرانی اقدار کے ساتھ زندہ ہیں۔ان کے بچے جب بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں تو یہ لوگ ان شادی کردیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنا سرمایہ بینکوں میں نہیں رکھتے پھر بھی یہ لوگ خوشحال ہیں۔ یہ لوگ گاڑی بنک سے لون پر حاصل کر کے نسل در نسل اس کی اقساط ہی ادائیگی کرنے کی بجائے گھوڑا اور گدھا گاڑی استعمال کرتے ہیں حتی کہ زمین میں ہل بھی گھوڑوں کی مدد سے چلاتے ہیں۔

دوسری طرف ہم اپنی طرز زندگی کو دیکھیں ہم ہر چیز ڈبہ بند اور بوتل والا پانی خرید کر پیتے ہیں پر تمام بیماریوں کا مجموعہ بھی ہمارا جسم ہوتا ہے، آج کے دور میں ہمارے پاس وقت نہیں ہے پر ہم بے کار بھی ہیں ، ہمارے پاس ڈگریاں ہیں پر ہمارے پاس عمل نہیں ہے ، اگر میرا نیٹ پیکج ختم ہو جائے تو میں پاگل ہو جاؤ گا ہم یہی سوچتے ہیں۔ گاڑی، گھر ، اے سی ، بجلی، فون، انٹرنیٹ، قیمتی لباس ، زیوارت ، یہ سب میری زندگی کا حصہ ہیں اور ہم ان کو بنیادی ضرورت تصور کرتے ہیں۔ لیکن ایمزون کے جنگلی اور امریکا کے ایمش ان تمام تر چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی ان کا استعمال نہ کر کے زندہ ہیں تو ہم بھی زندہ رہے سکتے ہیں دراصل جب ہم خواہشات کو ضروریات بنا لیتے ہیں تو پھر اس دنیا میں ہم انہی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنے آپ کو رسوا اور شرمندہ کروانا پڑتا ہے۔
کبھی یہ بات تنہائی میں سوچئے گا.!

Abdul Jabbar Khan
About the Author: Abdul Jabbar Khan Read More Articles by Abdul Jabbar Khan: 151 Articles with 129319 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.