جولائی2015ءمیں مغربی ممالک کی کامیاب سفارتکاری کے بعد
امریکااور ایران کے درمیان اوباماکے دورِحکومت میں ایٹمی عدم پھیلاؤکے
معاہدے کو امسال مئی میں قصر سفیدکے نے فرعون ٹرمپ نے عالمی قواعدوضوابط کی
دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے چہیتے اسرائیل کی خوشنودی کی خاطربے بنیاد الزامات
لگاکریکسرمستردکردیاکہ اس معاہدے نے ایران کوساری دنیامیں امریکی مفادات کے
خلاف کام کرنے کاکھلالائسنس دیاہے بلکہ معاہدے کے نتیجے میں ایران
پرعائدپابندیاں ختم کرکے ایران کی تخریبی سرگرمیوں کو بڑھاواملاہے اوروہ نہ
صرف لبنان بلکہ شام اوریمن میں بھی مداخلت کررہاہے اوراپنے میزائل پروگرام
کوبھی آگے بڑھارہاہے تاہم روس،چین،جرمنی اور فرانس نے امریکی علیحدگی کے
باوجوداس معاہدے کوقائم رکھنے کاعندیہ دے رکھاہے۔
امریکانے ایران سے تنسیخ معاہدے کے ساتھ ہی نئی پابندیاں لگانے کاجواعلان
کیاتھا ،اب 4نومبر سے اس کونافذالعمل بھی کردیاجائے گا،یہی وجہ ہے کہ پچھلے
ایک ہفتے سے عالمی منڈی کساد بازاری کاشکارہوگئی ہے اورکئی ممالک کی سٹاک
مارکیٹیں اسی بناء پرکریش ہوچکی ہیں جس میں پاکستان بھی خاصامتاثرہواہے
ڈالر135روپے کا ہو گیا،بجلی گیس کے بعد مہنگائی کاایک طوفان آنے
والاہے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق تبدیلی کیلئے یہ سب برداشت کریں اوردل
بہلانے کیلئے تبدیلی کی علامت عثمان بزدارکودیکھتے رہیں کیونکہ اب کپتان نے
کہہ دیا کہ اصل تبدیلی تو بزدار ہی ہے تاہم عالمی معیشت کے ماہرین کے مطابق
عالمی معیشت میں ایک بڑے بحران کے پیداہونے کے امکان بڑھتے جا رہے ہیں
اورمعاہدے کی تنسیخ کے چھ ماہ گزرجانے کے باوجود دیگرممالک بالخصوص یورپی
یونین کے بزنس گروپ کوئی پیش رفت نہیں کرسکے۔
ڈونلڈٹرمپ نے اس بات کابھی اعلان کردیاہے کہ وہ ایران کوتیل برآمدنہیں کرنے
دے گا۔ماضی کے برعکس اس مرتبہ پابندیاں اس قدرسخت اور شدیدہیں کہ امریکانے
دنیابھرمیں کسی ملک کواستثنیٰ دینے سے انکارکردیاہے۔جاپان اوربھارت جن کی
تیل کی ضروریات کاکافی بڑاحصہ ایران سے پوراہوتاہے اورجنہیں ماضی میں
امریکی استثناحاصل تھا اب اسی سہولت کورد کر دیاگیاہے۔نتیجے کے طورپرعالمی
مارکیٹ پرشدیدمنفی اثرات مرتب ہوناشروع ہوگئے ہیںاورمارکیٹ میں تیل کی
قیمت80ڈالرفی بیرل کی سطح عبورکرچکی ہے جس کے جلدہی90ڈالر فی بیرل تک
پہنچنے کا امکانات ہیں۔روس اورچین یقینا کوئی نہ کوئی متبادل راستہ تلاش
کرلیں گے لیکن اصل مسئلہ تو یورپی ممالک کودرپیش ہے جن کی برآمدات میں بڑی
حدتک کمی آسکتی ہے اوریران بھی جوابی معاشی حملے کی تیاریاں مکمل کرنے
کااعلان کرچکاہے جس کیلئے اس نے ایران نے اس معاہدے سے علیحدگی کاعندیہ دے
دیاہے۔
اصل مسئلہ دنیامیں ڈالرکی حیثیت میں ادائیگی کی حکمرانی کاہے۔جب بھی
ڈالرمیں ادائیگیاں ہوتی ہیں ان کی آخری کلیرنس نیویارک میں امریکاکے مرکزی
بینک میں ہوتی ہے اور ایک اطلاع کے مطابق اس سلسلے میں امریکاصرف کمیشن کی
صورت میں ڈھائی سوملین ڈالرروزانہ وصول کرتا ہے اوریقیناًاس حوالے سے
امریکی معیشت بھی بری طرح شکست و ریخت کاشکار ہوگی جبکہ خود امریکا چین کے
قرضوں کی ادائیگی کے سلسلے اپنی معیشت کودیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے
روزانہ کی بنیادپرچین سے مزیدقرضہ لے رہاہے۔عالمی معاشی ماہرین کے مطابق
چین اپنے قرضوں کی رقوم کوبچانے کیلئے فی الحال ایساکرنے پرمجبورہے
اوردوسرا''ون روڈون بیلٹ''کی کامیابی تک چین کسی راست اقدام سے گریزکی
پالیسی اختیارکئے ہوئے ہے۔
دوسری طرف نئی امریکی پابندیاں عائدکرنے بعد ایران سے جس ملک کی بھی تجارت
ہوگی اسے بھی امریکی مالیاتی نظام سے نکال دیاجائے گا کیونکہ تیل کی تجارت
ڈالرمیں ہوتی ہے اس لئے ایران مارکیٹ میں بلااجازت تیل فروخت نہیں کرسکے
گا۔چند روز قبل یورپ نے اعلان کیاتھاکہ اس نے عالمی مالی ترسیلات کامتبادل
نطام تیارکرلیاہے جومکمل طورپرامریکی تسلط سے آزادہوگااوراس کواستعمال
کرنےوالے ملکوں کے کوائف امریکی نظام کی رسائی سے محفوظ رہیں گے۔یورپ کی یہ
پیش رفت جوابھی صیغۂ رازمیں ہے اگرکامیاب ہوجاتی ہے تواس سے نہ صرف امریکی
ڈالرکی حکمرانی خطرے میں پڑ سکتی ہے بلکہ امریکاکی یونی پاورجیسی حیثیت بھی
ختم ہونے کاامکان ہے۔امریکی تاجراور یورپ ٹرمپ کے اس جارحانہ روّیے سے سخت
نالاں ہیں اوراسے امریکی تسلط پرمبنی عالمی مالیاتی نظام کیلئے چیلنج
قراردے رہے ہیں۔
امریکاایک بارپھرسیاسی اورجنگی محاذپرمشرقِ وسطیٰ میں اپنے عرب حلیف ملکوں
کی معاونت سے مشرقِ وسطیٰ خصوصاًشام میں ایرانی مداخلت کی روک تھام کیلئے
تیاریاں کررہاہے۔ گزشتہ دنوں نیویارک میں امریکی وزیرخارجہ پومپیو کی
زیرصدارت سعودی عرب،قطر،متحدہ عرب امارات،کویت،بحرین اوراومان کے علاوہ
مصراوراردن کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہواجس میں ایران کے داعش،ایرانی
ملیشاؤں سمیت تمام دہشتگرد گروپوں کوختم کرنے کیلئے مل جل کرکام کرنے کیلئے
مل جل کرکام کرنے سے اتفاق کیاگیا۔اب دیکھنایہ ہے کہ کیایران امریکی
پابندیوں کاسامنا کر سکتاہے کیونکہ امریکی ڈالرکی عالمی مالیاتی نظام
پرحکمرانی کاخاتمہ ہوسکتاہے اور کیامشرقِ وسطیٰ میں امریکی اپنے اہداف کے
حصول میں کامیاب ہوسکتا ہے جبکہ ان دنوں سعودی صحافی خاشفجی کی گمشدگی
کامعمّہ بھی امریکااورسعودی عرب کے درمیان ایک بڑی کشیدگی کاسبب بناہواہے۔۔
اس معمّہ کی گتھی سلجھانے کیلئے امریکی وزیر خارجہ پومپیواپنے ایک ہنگامی
دورے پرریاض میں سعودی شاہ سلمان ،ولی عہداورسعودی وزیرخارجہ عادل الجبیرکے
علاوہ دیگراعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کرچکے ہیں۔یادرہے کہ دو ہفتے قبل ٹرمپ
نے ایک تقریب میں سعودی بادشاہ سلمان کودہمکی دیتے ہوئے کہاتھاکہ تمہاری
بادشاہت امریکی مددکی محتاج ہے، اگرامریکااپناہاتھ کھینچ لے تودوہفتے سے
زیادہ بادشاہ کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی اس لئے شاہ سلمان کووہاں متعین
امریکی فوج کے اخراجات برداشت کرناہوں گے۔اب خطے کی تمام مسلم ممالک
کوضرورت تواس امرکی ہے کہ جس قدرجلد یہ اپنے تمام اختلافات دورکرکے
امریکاکے ہاتھوں بلیک میل ہونے کابندوبست کرلیں گے،اسی میں ان کی عافیت ہے۔
اقوام عالم کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ایران کے کے ساتھ امریکاکی ہونے والی
یکطرفہ جارحیت کے خلاف انصاف پسندی سے کام لیتے ہوئے اس کاساتھ دیں کہ کل
کلاں اس آزمائش میں وہ بھی مبتلاہوسکتے ہیں۔
شکست مان نہ لیناکہیں اندھیروں سے
فروزاں دل میں کوئی شعلۂ سحررکھنا |