اب رنگ بازی چھوڑنا ہوگی

اپوزیش کا دعویٰ ہے کہ عمران خان جعلی وزیر اعظم ہیں۔وہ اس کٹھ پتلی سیٹ اپ کے کپتان بنائے گئے ہیں جو کرپٹ اور بے ایمان سسٹم کو بچانے کے لیے تیارکیا گیاہے۔نوازشریف اس سسٹم کو کاری ضربیں لگارہے تھے۔یہ لرز رہاتھا۔پہلی بار اسے مشکلات کا سامنا تھا۔سسٹم پوری طرح نوازشریف کے خلاف متحرک ہوگیا۔وہ کسی نہ کسی طرح اس مصیبت کو کچلنا چاہتاتھامگر بے بسی کا سامنا کرنا پڑا۔سسٹم کی بد قسمتی کے نوازشریف کے پہلے دو حکمران بد ترین حکمران نکلے ۔نوازشریف دور میں نہ صرف سابقہ دونوں حکومتوں کی تباہیاں مٹائی گئیں بلکہ ملک کو چار قدم آگے لے جانے کے اسباب کیے گئے ۔دہشت گردی کے خوف سے دبکے پاکستانی ملک کے حالات بہتر ہونے پر گھروں سے باہر آنے لگے۔ کاروبار میں روانی آنے لگی۔نوازشریف کی مضبو ط پوزیشن کے بعد انہیں ناکام بنانا مشکل تھا۔اس لیے عیاری کا یہ جال بنا گیا۔حکومت بنانے کے بعد سے تحریک انصاف کو متواتر مشکلات کا سامنا ہے۔کبھی کسی بکھیڑے کا منہ دیکھنا پڑرہا ہے کبھی کسی ۔اپوزیشن کی اے پی سی ابھی ہوئی نہیں مگر حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں۔وہ اس قدر بول رہی ہے کہ مذید حالات خراب ہونے لگے۔کچھ تو اپوزیشن کی اے پی سی کے ممکنہ اعلامیے کا خوف ہوسکتاہے کچھ مبینہ طور پر اسرائیلی طیارے کے پاکستان میں آنے پر جو ملک گیر بحث جاری ہے۔اس نے بوکھلاہٹ میں مبتلا کررکھا ہے۔یہ ایسا حساس مسئلہ ہے جس پر لب کشائی آسان نہیں ۔اپوزیشن جس اعتمادسے اسرائیلی طیارے کے پاکستان اترنے کی باتیں کررہی ہے۔اس نے حکومت کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔اعلی ٰ عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو ڈر ہے کہ اگر اب تسلیم نہیں کرتے اور بعد میں تصدیق ہوئی تو سبکی ہوگی۔مگر اقرار کرنا بھی آسان نہیں اسرائیل سے کسی قسم کے رابطے حکومت کی بقا میں مسئلہ بنا سکتے ہیں۔اسرائیل سے متعلق قوم بڑی حساس ہے۔بھارت اور اسرائیل دونوں کا نام سن کر اس کا خون کھول اٹھتاہے۔سابق وزیر اعظم نوازشریف کو عمران خاں مودی کایار کہہ کرچھیڑا کرتے ہیں۔یہ طعنہ اصل میں عوام میں بھارت کے نفرت انگیز جزبات پائے جانے کے سبب دیا جاتا ہے۔نوازشریف بھارت سے دوستی نہ سہی مگر نارمل تعلقا ت رکھنے کے خواہاں رہتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک فضول کی شو بازی میں اربوں روپے گنوا رہے ہیں۔اکہتر کے بعد سے کوئی باقاعدہ جنگ نہیں لڑی گئی۔مگرہر دوسرے تیسرے سال گیدڑ بھبکیوں کا سلسلہ جاری ہے۔دونوں طرف بیٹھے بد نیت لوگ اس چھوٹی موٹی چھیڑ چھاڑ کے جاری رہنے کے حق میں ہیں۔اس میں ان کی روٹی روزی چھپی ہے۔اسی میں ان کی اہمیت اور ان کاجواز چھپا ہے۔نوازشریف نیک نیتی سے ایسی سوچ رکھتے ہیں مگر یہاں سیاست برائے یاست کا کلچر ہے۔ عمران خان اسی لیے محض سیاست چمکانے کے لیے نوازشریف کو مودی کایار کہہ دیا کرتے ہیں۔اب جب کہ وہ خو دوزیر اعظم بن چکے ۔اب وہ بھی بھارت سے دوستی کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ اسرائیل سے اختلاف خالصتاً مذہبی معاملہ ہے۔ اسرائیل کو خالصتاً یہودی سٹیٹ قراردے کر اربوں کی زمین چھین کر قائم کیا گیا ہے۔اگر وہاں کے اصل مکینوں کو مناسب مداوہ کردیا جاتاتو شاید بدتدریج حالا ت نارمل ہوجاتے ۔مگر ایسا نہیں کیا گیا۔بلکہ وہاں کے اصل مکینوں کو ڈھور ڈنگر وں کی طرح لیا گیا۔اسرائیلی طیارے کی آمد کی تصدیق سوشل میڈیا پر جاری کی جاچکی۔حکومت کو اور تو کچھ جواب نہیں بن پارہا اب اے پی سی کو لے کر لن طرانیاں کرنے میں لگی ہے۔

اپوزیشن کی پوری توجہ اے پی سی کی تیاریوں میں ہے۔جناب آصف زرداری پوری طرح متحرک ہیں۔حکومت کو اصل خوف بھی زرداری صاحب ہی سے ہے۔وہ مفاہمت کے کاریگر تصور کیے جاتے ہیں۔وہ سودے بازی کے گرو ہیں۔کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔کسی بھی قیمت پر اپنا مقصد پانے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔حکومت کو ڈرہے کہ اس بار بھی وہ کوئی کمال نہ دکھاجائیں۔ وہ اپوزیشن کے ایک بڑے اتحاد کا شو دکھانا چاہتے ہیں۔سوائے مسلم لیگ ن کے تمام جماعتیں اس اے پی سی میں پوری دلچسپی لے رہی ہیں۔مسلم لیگ ن بھی بائی کاٹ نہیں کرے گی۔ اس کاوفد لازمی شریک ہوگا۔جناب زرداری صاحب اس اے پی سی کو کامیاب بنانے میں کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس سے پیپلز پارٹی کو کچھ فائدہ ہوگا؟ کیااس سے عوام کا کچھ بھلا ہوگا؟ کیا اس سے ریاست کاکچھ سدھرے گا؟بظاہر ایسا کچھ ہوتا نظرنہیںآتا۔پارٹی اگر آج اپنی تاریخ کے کمزور ترین دور سے گزررہی ہے تو اس کے پیچھے قیادت کی ناسمجھی والے فیصلے ہیں۔ریاست اور عوام کے مسائل بھی بڑے پیچیدہ ہیں۔چھوٹی موٹی اچھل کودسے حالات میں بہتری آنے کا کچھ امکان نہیں۔اس اے پی سی سے حکومت پر عارضی دباؤ توڈالا جاسکتاہے۔مگر اپوزیشن کے بقول اس جعلی مسلط کی گئی حکومت سے نجات پانا آسان نہیں ۔اس کے لیے تو ایک لمبی چوڑی پلاننگ کی ضروت ہے۔بڑی لمبی جدوجہد درکارہے۔پی پی قیادت صرف اسی وقت متحرک ہوتی ہے جب اس پر مشکل وقت آتا ہے۔تب یہ تھوڑی بہت رنگ بازیوں سے وقت ٹالا کرلیتی ہے مگر یہ رنگ بازیاں بڑے معاملات میں کارگر نہیں ہوسکتیں۔یپلز پارٹی کو جو مشکلات درپیش ہیں۔ان کے حل کے لیے سمت درست کرنا پڑے گی۔قومی لیول کی سوچ اپنانا ہوگی۔چھوٹی موٹی رنگ بازیوں نے پہلے بھی پارٹی کمزو رکی۔آئندہ بھی کچھ نہ ملے گا۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141018 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.