سبری مالا کے معاملے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر نظر
ثانی کی ۱۹درخواستیں موصول ہوئیں ۔یہلوگ چاہتے تھے دسہرہ کی تعطیلات سے قبل
سماعت ہو نیز اس وقت تک فیصلے کو معطل رکھا جائے تاکہ جب مندر پوجا پاٹ کے
لیے کھلے تو پرانی روایات کا پاس و لحاظ کیاجاسکے ۔ سپریم کورٹ نے اس
معاملے میں سخت موقف اختیار کرتے ہوئے دونوں گزارشات کو مسترد کردیا ۔جسٹس
گوگوئی نے چھٹی سے لوٹنے کے بعد نظر ثانی کے لیے ۱۳ نومبر کو ۳ بجے کا وقت
طے کیا ہے ۔ ہندو قدامت پرستوں کے لیے۳ اور ۱۳ کامہورت یقیناً شبھ نہیں
ہوگا ۔ خیر اعداد میں کیا رکھا ہے؟ دیکھنا یہ ہے کہ اب کی بار اس پنڈورا
بکس سے کون سا آسیب برآمد ہوتا ہے۔ کیرالہ جیسے تعلیم یافتہ اور روشن
خیال سمجھے جانے والے صوبے میں جہاں کمیونسٹ صوبائی حکومت برسرِ اقتدار ہے
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا یہ حشر اس کے عزت و وقار پر کلنک سے کم نہیں ہے۔
انگریزی میں ’بی ‘ کی جگہ ’ایس‘ رکھ دیا جائے تو بابری سبری میں بدل جاتا
ہے۔ فی الحال سنگھ کی گاڑی شمالی ہندوستان میں بابری اور جنوب میں سبری کے
پہیے پر رواں دواں ہے۔ اس سے پہلے کہ رام جنم بھومی کا معاملہ جنوبی
ریاستوں میں لے کر جایا جاتا سبری مالا کے تنازع نے ہندو سماج اور حکومت کو
اپنے آہنی پنجے میں جکڑ لیا ہے۔ اب یہ جنوب سے شمال کی جانب چل پڑا ہے ۔برٹش
ڈپٹی ہائی کمیشن کے زیر اہتمام ممبئی میں منعقد ایک کانفرنس کے دوران مرکزی
وزیر اسمرتی ایرانی کے متنازع بیان دے کر اس جانب اشارہ کردیا۔ انہوں نےکہا
کہ’ مجھے مندر میں پوجا کرنے کا حق ہے لیکن اس کو ناپاک کرنے کانہیں ۔ میں
ابھی مرکزی وزیر ہوں، اس لیے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کھل کر تبصرہ نہیں کر
سکتی ، لیکن کیا آپ ماہواری کے خون سے بھیگا سینٹری پیڈ لے کر اپنے دوست کے
گھر جائیں گی؟نہیں آپ نہیں جائیں گی، تو آپ بھگوان کے گھر پر اس کو لے کر
کیوں جانا چاہتی ہیں؟‘
سبریمالاتنازع پرسمرتی ایرانی کے اس بیان سے میڈیا میں کہرام مچ گیا ۔
پنجاب کی سابق وزیر اور بی جے پی کی رہنما لکشمی کانتا چاولہ نے اس پر کہا
’سمرتی ایرانی کو مرکزی کابینہ میں رہنے کا حق نہیں ہے۔ انہیں بولنے سے
پہلے کچھ تو سوچنا چاہیے‘۔ لکشمیچاولہ نے یہ سوال کیا کہ’ ہندوستان کی سابق
وزیر تعلیم اور اب مرکزی کابینہ کیرکن کیا پتھر کے زمانے کی سوچ کے ساتھ
ملک کی قیادت کریں گی؟‘۔ انہوں نے سمرتی پر طنز کرتے ہوئے کہا ’ کیوں نہ
حکومت ہند سے کہہ کر ملک کی تمام ملازمت پیشہ خواتین اور اسکول و کالج میں
جانے والی لڑکیوں کو ہر ماہ چار دن کی جبراً چھٹی دے دی جائے تاکہ وہ نہ تو
تعلیم کے مندر میں جائیں ، نہ ہی انصاف کے مندر میں اور نہ ہی جمہوریت کے
سب سے بڑے مندر لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں داخل ہوسکیں‘۔ محترمہ چاولا نے
مرکزی وزیر سے معلوم کرنا چاہا کہ’ ’پاکیزگی کے نام پر تو خواتین کو ستی
بھی کیا جاتا تھا ۔ جواب دیجئے کہ کیا آپ اس کی حامی ہیں۔‘‘
کیرالا کی صوبائی حکومت نے ۱۸ جولائی کو سپریم کورٹ سے کہہ دیا تھا کہ وہ
مندر میں خواتین کے داخلے کی حمایت کرتی ہے مگرسبری مالا مندر کے انتظامیہ
کا موقف تھا چونکہ بھگوان ایپا برہم چاری ہیں اس لیے ۱۰ تا ۵۰ سال کی عمر
تک کی عورتوں کے داخلے اجازت نہیں ہونی چا ہیے۔ اس لیے کہ اس عمر کی خواتین
ماہواری کے وقت پاکیزگی نہیں رکھ سکتیں، ان کی آمد سے مندر کی پوترتا قائم
نہیں رہ سکے گی۔سپریم کورٹ نے اس دلیل کو ٹھکرا کر سبھی عمر کی عورتوں کو
جانے کی اجازت دے دی ۔ عدالت نے کہا کہ عورتوں کو مندر میں گھسنے کی اجازت
نہ دینا آئین کی دفعہ ۲۵ (مذہب کی آزادی)کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس چندر چوڑ نے ویسے تو اکثریت کی رائے سے اتفاق کیا مگر اپنے علٰحیدہ
فیصلے میں لکھا کہ خواتین پر روک لگانے کے پس پشت کارفرما یہ تصور کہ
عورتوں کی موجودگی برہم چاریہ کےلیےخطرہ ہے دراصل مردوں کے تجرد پسندی کا
بوجھ عورتوں پر ڈالتا ہے ۔ یہ خواتین کے تئیں دقیانوسی سوچ کا مظہر
ہے۔ایپاّ بھکتوں کے پاس اس مصیبت سےبچنے کے لیے یہ راستہ تھا کہ وہ اپنے
آپ کو رام کرشن مشن یا لنگایت سماج کی طرح غیر ہندو قرار دے دیتے لیکن چیف
جسٹس دیپک مشرانے اس پر بھی روک لگاتے ہوئے کہہ دیا کہ ایپا پیروکار الگ
مذہبی فرقہ نہیں بنائیں گے۔
عدالتی فیصلوں سے قطع نظر سبری مالا کا قضیہ ہندوستانی سیاست کے طالب علموں
کو عوام کی نفسیات سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔ کیرالا کے باشندوں کے تعلق سے
عام طور جو غلط فہمی پر پائی جاتی ہے اس کا شکار سنگھ پریوار بھی تھا۔
انہیں خوف رہا ہوگا کہ اگر سبری مالا میں خواتین کے داخلے کی پابندی پر
تنقید کی جائے تو رائے عامہ ان کے خلاف ہوجائے گی اس لیے آرایس ایس نے اس
رسم کو اپنے ملیالم ترجمان میں فرسودہ قرار دے دیا۔ آرایس ایس کے دانشور
سریش جوشی تو ۲۰۱۶ سے سبری مالا میں خواتین کے داخلہ کی حمایت کررہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ مذہبی مقامات پر ذات، جنس اور مذہب سے قطع نظر سارے
لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت ہونی چاہیے۔
سریش جوشی جی کا سارا جوش اس وقت سرد پڑگیا جب ناگپور میں واقع سنگھ کے صدر
دفتر نے ہزاروں معتقدین بشمول خواتین کے جذبات و احساسات کے احترام کااعلان
کردیا۔ عدالتی فیصلے کے خلاف عوام کا غم وغصہ دیکھ کر سریش جوشی نے قلابازی
کھا کر کہا ’ بدقسمتی سے کیرالا کی حکومت نے معتقدین کے جذبات کا خیال کیے
بغیر فوراً فیصلے پر عملدرآمد کے اقدامات شروع کردیئے۔ اس کے خلاف ایپاّ
بھکتوں کی طرف سےایک فطری ردعمل سامنے آیا جو روایات کو بزور قوت توڑنے کے
خلاف احتجاج ہے ‘ ۔ یہی بات جب طلاق ثلاثہ کی بابت کہی جاتی ہے کہ اس کی
اصلاح تعذیراتی قوانین کے زور پر ممکن نہیں ہے تو ان کی سمجھ میں یہ بات
نہیں آتیاور آتی بھی ہوتو یہ اپنی حکومت کو نہیں سمجھاتے۔
خیریہ تو سب کہنے سننے کی باتیں ہیں حقیقت یہ ہے ہوا راخ دیکھ کرسیاسی
فائدہ اٹھانے کی خاطر بی جے پی لنگوٹ کس کر میدان میں کود پڑی ۔ اس کو عوام
کے جذبات کو اچھال کر انہیں اپنا ہمنوا بنانے نادر موقع مل گیا ۔ بی جے پی
کے صوبائی صدر کی موجودگی میں جنوبی ہند کے اداکار کولّم تُلسی نے اعلان
کردیا کہ ’’سبریمالہ مندر میں آنے والی خواتین کے دو ٹکڑے کر دینا چاہیے۔
ایک حصہ دہلی بھیج دینا چاہیے اور دوسرا حصہ ترواننت پورم میں واقع وزیر
اعلیٰ کے دفتر روانہ کیا جانا چاہیے۔‘‘دہلی میں وزیراعظم اپنا آدمی ہے اس
لیے اس کے دفتر کا ذکر نہیں کیا لیکن صوبائی وزیراعلیٰ چونکہ سیاسی حریف ہے
اس لیے ساری مصیبت کے لیے اس کو ذمہ دار ٹھہرادیا گیا۔
تلسی نے ایپاّ کے بھکتوں اس زور وشورسے کیرتن کرنے کی ترغیب دی کہ ’عدالت
کے ایڈیٹ سن سکیں‘ ۔ سپریم کورٹ کی کھلے عام توہین کرنے والے اس اداکار کے
خلاف شکایت درج ہوئی تو اس نے معافی مانگ لی اور معاملہ رفع دفع کردیا گیا۔
کانگریس والوں نے یہ ماحول دیکھا تو وہ بھی اپنا سیکولر مکھوٹا اتار کر بی
جے پی کے شانہ بشانہ احتجاج میں شامل ہوگئے۔ اس نے بڑے فخر کے ساتھ اعلان
کیا کہ یو ڈی ایف دورِ حکومت میں اس روایت کو قائم رکھنے کے سرکار کی جانب
سے عدالت میں ایک حلف نامہ داخل کیا گیا تھا ۔
صوبے میں فی الحال کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے جولا مذہبیت اور مساوات مرد
وزن کے علمبردار ہے ۔ فی الحال سب سے بڑا چیلنج اسی کے سامنے ہے۔ ایک طرف
تو اس کو سپریم کورٹ کے احکامات کو نافذ کرنا ہے دوسری جانب اپنے ان ووٹرس
کو سنبھالنا ہے جو تیزی کے ساتھ سنگھ کی گود میں جارہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پی
وجینکا معروضی موقف یہ ہےکہ اس تنازع میں ایل ڈی ایف کا سرے سےکوئی کردار
ہی نہیں ہے۔ ۱۹۹۱ کے اندر کیرالا کے ہائی کورٹ نے یہ پابندی لگائی ۔ اس کے
بعد جب بھی ایل ڈی ایف اقتدار میں آئی اس نے عدالت کے فیصلے کو نافذ کیا ۔
اس فیصلے کے خلاف کچھ لوگوں نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا جس نے فیصلہ بدل
دیا تو اب نئے فیصلے کا نفاذ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے جس کے وہ پابند
ہیں۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ فیصلے سے قبل کانگریس اور بی جے پی دونوں نے اس
کی پابندی کا یقین دلایا تھا لیکن اب بی جے پی اس پر سیاست کررہی ہے اور
کانگریس اس کی بی ٹیم بنی ہوئی ہے۔ انہوں نےآر ایس ایس کوسبری مالا مندر
میں عورتوں کے داخلہ کی مخالفت کرنے والے مظاہرین اورپولیس کے درمیان جھڑپ
کاذمہ دار ٹھہرایا۔وجین نے فیس بک پر لکھا کہ آر ایس ایس دہشت پھیلا کر
بھگوان ایپا کے مندر کو برباد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں بی
جے پی نے ریاستی حکومت کا جواب دیاکہ سی پی ایم کی قیادت والی ایل ڈی ایف
حکومت ایپا مندر کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش کر رہی ہے اور وہی کشیدگی کے لیے
ذمہ دار ہے۔
اس ہنگامہ کے دوران بی جے پی کا سارا زور کمیونسٹ رائے دہندگان کو برگشتہ
کرکے اپنی جانب راغب کرنے پر مرکوز تھا ۔ اس نے کانگریس کے مقابلے اپنے آپ
کو ہندو دھرم کا بڑا رکشک ثابت کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔ بی جے پی کو
ملنے والی کامیابی سے ظاہر ہوتا ہے کہ برسوں تک حکومت کرنے کے باوجود اس
تعلیم یافتہ صوبے میں اشتراکیت کی جڑیں کس قدر کھوکھلی ہیں کہ ایک معمولی
سی آندھی نےاسے ہلا کر رکھ دیا۔ کیرالا کے عوام کا رحجان دیکھ کر
کمیونسٹوں کی اصول پسندی پر پر سیاسی مفاد حاوی ہوگیا۔ ابتداء میں ان کا
خیال تھا کہ اگر عقیدےکی بنیاد پر کانگریسی رائے دہندگان کی متبدا تعداد بی
جےپی کے ساتھ چلی جائے تو اس تقسیم کا انہیں فائدہ ہوگا اور وہ اسے بہ
آسانی شکست دے سکیں گے ۔ ایسا لگتا ہے کہ تریپورہ کی شکست سے کمیونسٹ
پارٹی نے کوئی سبق نہیں سکا۔
ایپاّ مندر عموماً ہر ماہ پانچ دن کے لیے کھلتا ہے اس بار جب کھلا تو
مظاہرین نے راستے میں جانچ پڑتال شرو ع کردی اورخواتین زائرین تو دور
صحافیوں کو تک بسوں اور گاڑیوں کھینچ کر اتار دیا ۔ اس طرح گویا سپریم کورٹ
کے احکامات کی کھلے عام دھجیاں اڑائی گئیں اور کوئی ان لوگوں کا کچھ بگاڑ
نہ سکا ۔ مندر میں جانے والی خواتین کو تحفظ فراہم کرنے والے وزیراعلیٰ کی
یقین دہانی دھری کی دھری رہ گئی ۔ مذکورہ عمر کی ایک بھی عورت ۵ دن کے عرصہ
میں مندر کے اندرداخل نہ ہوسکی ۔ پجاری نے جب اس عمر کی خواتین کے داخلے پر
مندر بند کردینے کی دھمکی دے دی تو ٹرسٹ کے کمیونسٹ سربراہ پدما کمارکے ہوش
ٹھکانے آگئے ۔ انہوں نے یہ کہہ کر روکنے والوں کی بلواسطہ حمایت کر دی کہ
سچی ہندو عقیدتمند عورت مندر میں جانا نہیں چاہتی بلکہ شہرت پسند خواتین
خبروں میں رہنے کے لیے یہ سب کررہی ہیں۔
عدالت میں جانے والی شریعت مخالف خواتین کے بارے میں جب یہی دلیل دی جاتی
ہے تو یہ کمیونسٹ بہت چین بہ جبیں ہوتے ہیں اور شریعت کی حمایت میں مظاہرہ
کرنے والی لاکھوں خواتین کو ملاوں کے ذریعہ ورغلائی جانے والی جاہل خواتین
گردانتے ہیں ۔فاطمہ سلیمان نامی ایک مسلمان خاتون نے بھی سبری مالا جانے کی
کوشش کی تو مسلم سماج نے اس سے پلہ جھاڑ لیا ۔ ظاہر ہے پیشانی پر بڑا سال
ٹیکا لگا کر مندر جانے والی خاتون کا اسلام سے کیا تعلق؟ اس طرح یہ معاملہ
ہندو مسلم تنازع بننے سے بچ گیا ۔ ویسے بھی ایپا ّ کی یاترا پر جانے والے
زائرین پہاڑی پر چڑھنے سے قبل فافر نامی مسجد کے پاس جمع ہوکر طواف کرتے
ہیں اور درمیان میں ایک چرچ کے اندر قیام کرتے ہیں۔مسلم لیگ نے فیصلے
کےخلاف بیان دے کر اس تنازع کو فرقہ وارانہ رنگ دینےسے بچالیا۔
وطن عزیز میں اسلام کو بدنام کرنےاور مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیے عام
طور پر دو حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ دین اسلام کے بارے میں یہ بہتان
طرازی کی جاتی ہے اس میں خواتین کو مساوی حقوق نہیں دیئے گئے ۔ اس کے لیے
کبھی طلاق تو کبھی گواہی اوروراثت وغیرہ کا راگ الاپا جاتا ہے ۔ عدالتی
چارہ جوئی کا ناٹک اور ان احکامات کی روشنی میں قانون سازی کرکے مسلمانوں
پر احسان جتایا جاتا ہے۔عدالت عظمی ٰ کے ذریعہ جب بھی شریعت میں مداخلت کی
جاتی ہے تو مسلمانوں پرشریعت کو آئین اور عدالت سے برتر سمجھنےکا الزام
لگایا جاتا ہے۔ ملک سے ان کی وفاداری پرشکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتاہے۔
سبری مالا کے معاملے میں سپریم کورٹ کے احکامات کی تمام سیاسی جماعتوں سمیت
ہندو سماج نے مخالفت کرکے یہ ثابت کردیا کہ مذہب کے معاملے عدالت کا حکم
صدا بہ صحرا ثابت ہوگا اور کمیونسٹ پارٹی کی حکومت بھی اس فیصلہ کونافذ
نہیں کرسکے گی ۔
کیرالہ میں کانگریس اور بی جے پی سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کرنے والے
ہجوم کی حمایت کررہے ہیں اور کمیونسٹ حکومت ان سے نرمی برت رہی ہے کیونکہ
اس ہجوم کا تعلق اکثریتی فرقہ سے ہے اور کوئی اسے ناراض نہیں کرنا چاہتا ۔
ایسےمیں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک آئین و قانون کی حکمرانی ہےیا
نہیں ؟ یہاں پر جمہوریت ہے یا ہجومیت ہے؟ یا یہ دونوں ایک ہی سکہ کے دو
پہلو ہیں ؟ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا یہ جنگل راج اگر نظام رحمت ہے تو
آمریت اور ملوکیت کو زحمت قرار دینا کیونکردرست ہے؟ سچ تو یہ ہے یہ سارے
ایک تھیلے کے چٹے بٹے ہیں ضرورت ان کے متبادل اسلامی نظام سیاست کو پیش
کرنے کی ہے جوحقیقی معنیٰ میں عدل و انصاف اور امن و آشتی کا علمبردار ہے
۔
|