اٹھارویں ترمیم اور 58 ٹو بی کی تباہ کاریاں۔

آج کل جناب آصف زرداری صاحب اس بات پر خاصے فکر مند دکھائی دیتے ہیں کہ حکومت شاید اب 18ویں ترمیم کو ختم کرنا چاہتی ہے،مگرسوال یہ پیدا ہوتا کہ یہ 18ویں ترمیم ہے کیا ؟۔مگر اس کے ساتھ ایک اور ٹینشن بھی ہے جس کا نام آرٹیکل 58ٹوبی ہے آج ہم ان دونوں ہی معاملات پر گفتگو کو آگے بڑھائے گئے کیونکہ 18ویں ترمیم اور آرٹیکل58ٹوبی کی کہانی کا راز فی الحال ایک ہی کوزے میں بند نظر آتاہے۔اس ملک میں ایک وقت یہ تھا کہ لوگ یہ کہتے تھے کہ کسی وزیراعظم نے آج تک اس ملک میں پانچ سال مکمل نہیں کیے ایک وزیراعظم کو گولی مار دی گئی تو دوسرے وزیراعظم کو پھانسی پر چڑھادیا گیااور جو باقی ان ستر سالوں میں وزیر اعظم بنے انہیں صدر کے زریعے گھر بھجوانے کا سلسلہ شروع ہوگیا کیونکہ 58ٹو بی کا اختیار صدر کے منصب کو پاور فل بناچکا تھا اور جس کے تحت صدر مملکت انتہائی طاقتور تصور کیا جاتا تھا اور حکومت کی تمام تر مشینری صدر مملکت کے ارد گرد ہی گھوما کرتی تھی اور اس کے آگے ملک کا وزیراعظم بھی ایک سیمبل کے طور پر دکھائی دیتا تھاوہ اختیار بھی اسی 18ویں ترمیم کی بدولت ٹرانسفر ہوکر وزیر اعظم کی گود میں جاگر اتھے،اس کے علاوہ اس ترمیم سے صوبوں کو اختیارات کی منتقلی اور بہت سی وزارتوں کے جملہ حقوق بھی مل گئے تھے جس میں محکمہ صحت ،محکمہ تعلیم ، محکمہ داخلہ ،محکمہ ایری گیشن سمیت بہت سے دیگر اختیارات شامل ہیں،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس 18ویں ترمیم کی تاریخ پیدائش کیاہے اورکن وجوہات پر یہ ترمیم لانے کی کوشش کی گئی،مگر اس سے پہلے میں اپنے پڑھنے والوں کو 58ٹو بی کا شکار کچھ منتخب حکومتوں کا حال بتانا چاہونگا، جنرل ضیاء الحق نے سب سے پہلے اس آرٹیکل کو متعارف کروایااور اس کا کلہاڑا بھی خود جنرل ضیاء الحق کی اپنی بنائی ہوئی اسمبلی کے وزیراعظم محمد خان جونیجوپر پڑاجو چکنا چور ہوئی پھر اس کے بعد سن 1988کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی حکومت وجود میں آئی مگر وہ چندماہ میں ہی کرپشن جیسے الزامات سے دوچار ہوگئی اور اس وقت کے صدر غلام اسحق خان نے 58ٹوبی کے اختیارات کے تحت اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا،بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کے بعد میاں نوازشریف صاحب1990میں پہلی بار اس ملک کے وزیراعظم بنے لیکن اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے ایک بار پھر نوازشریف کی حکومت کو تین سال کے بعد ہی ختم کرنے کی کوشش کی لیکن سپریم کورٹ نے اس حکومت کو بحال تو کردیا مگر بعد میں جنرل وحید کاکڑ نے نہ صرف میاں نوازشریف بلکہ صدر غلام اسحاق خان کو بھی چلتا کیااور دونوں سے ہی 18جولائی 1993کو استعفیٰ لے لیا،اس عمل کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک بار پھر سے وزیراعظم بننے کا موقع مل گیالیکن ان کی دوسری حکومت کو بھی ابھی تین سال ہی ہوئے تھے اورفاروق لغاری نے خود کو ہی صدر بنانے والی پارٹی کی اسمبلی توڑدی ،اس کے بعد فروری 1997کے الیکشن کے نتیجے میں میاں نوازشریف اس ملک کے دوسری بار وزیر اعظم بنے اس میں بھی کچھ ہی عرصے کے بعداس وقت کے صدر فاروق لغاری 97میں میاں نوازشریف کی اسمبلی کو توڑنا ہی چاہتے تھے کہ اس کے وقت چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کرامت نے مزاحمت کرکے قومی اسمبلی کو توڑنے سے نہ صرف روکا بلکہ اس عمل سے صدر فاروق لغاری نے اس معاملے پر اپنی ہزیمیت جانتے ہوئے یہ ضروری سمجھا کہ اب انہیں صدرات سے بھی استعفیٰ دیدینا چاہیے یہ وہ موقع تھا کہ اس وقت کے صدر فاروق لغاری کی جانب سے اسمبلی توڑنے کا نوٹیفکیشن کا لیٹر بھی ٹائپ ہوچکا تھااور اس صورت میں نوازشریف اور اراکین اسمبلی اس قسم کی کسی بھی خبر کو سننے کے لیے اسمبلی کے باہر آکر کھڑے ہوگئے تھے کہ اسی دوران میاں نوازشریف صاحب کو ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کرامت ایوان صدر تشریف لے گئے ہیں جس کے بعد ایک اطمینان کی فضاء سب پر طاری ہوگئی تھی،مگر یہ خوشی زیادہ دیر قائم نہ رہی کیونکہ اس وقت ایک چھوٹی سی تجویز کے پاداش میں نوازشریف نے اپنے اوپر ایک احسان کرنے والے جس جنرل کرامت سے استعفیٰ لیکر ان کی جگہ جنرل مشرف کو لانے کی غلطی کی اسی مشرف نے 12 اکتوبر 1999کوملک میں ایمرجنسی لگا کر ان کی حکومت کو ختم کردیا،اس کے بعد بھی اسی 58ٹو بی کی طاقت کے نشے نے میر ظفر اﷲ جمالی ،چودھری شجاعت حسین ،اور شوکت عزیز سے اپنی مرضی کی حکومت کروائی، یہ ہے وہ58 ٹوبی کی ایک چھوٹی سی جھلک جس کی طاقت کے احترام میں وزیر اعظم کا اوپر کاسانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے ہی رہتا تھا میرے خیال میں جناب آصف زرداری نے58 ٹو بی کا شکار محترمہ بے نظیر کی حکومت اور نوازشریف نے خود اپنی حکومت کے خاتمے کو دل پر لے لیا تھا اور انہوں نے یہ تہیہ کرلیا تھا کہاوہ صدر کے پاس سے اس اختیار کا خاتمہ کرکے ہی دم لینگے اور اب یہ بدلہ کس طرح سے لیا گیا اس کا بھی ایک دلچسپ واقعہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے جارہا ہوں جو شاید تاریخ میں پہلی بار کسی کے قلم سے نکلا ہوگا جواس وقت کی حکومت کے ایک قریبی شخص کی بدولت مجھ تک پہنچا ہے 2008کی حکومت کو دو ہی سال گزرے تھے کہ جنرل مشر ف جو وقت اس ملک کے صدر پاکستان بھی تھے ان کی ریٹائرمنٹ کا وقت بھی قریب ہی تھااس وقت کی دوحریف جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان صدارت کے موزوں پر گفت و شنید شروع ہوگئی ایک دن اچانک میاں نوازشریف اپنے بھائی شہباز شریف کے ساتھ اسلام آباد میں آصف زرداری صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے کچھ خاطر تواضح ہونے کے بعد تینوں رہنماؤں کے درمیان بات چیت کا آغاز شروع ہوا تو آصف زرداری نے کہاکہ "میاں صاحب ہمارے صدر تو آپ ہی ہیں " لہذا آپ پاکستان کے صدر بن جائیں نوازشریف نے انتہائی سادگی سے یہ جواب دیا کہ میں صدر نہیں بن سکتا کسی اور موزوں آدمی کو صدارت کے منصب کے لیے چنا جائے تاہم زرداری صاحب نے یہ بات کئی باردھرائی کہ میاں صاحب میرے صدر تو آپ ہی ہیں ،ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ اچانک ایک اور آدمی نمودار ہوا اور وہ آکر تینوں رہنماؤں کے ساتھ بیٹھ گیا اور اس شخص نے بات چیت کے درمیان اپنی بات کا لقمہ دیا کہ آصف زرداری صاحب آپ ہی کیوں نہیں صدر بن جاتے ؟۔اس بات پر میاں صاحب ہنس پڑے اور کہاکہ اگر صدر آرٹیکل 58ٹو بی پارلیمنٹ کو واپس دیدے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا، لہذا یہ گفتگو اسی نقطے پر ختم ہوگئی اور دوسرے موضوعات ملاقات کا حصہ بن گئے مگر زرداری صاحب دل ہی دل میں یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ اب وہ ہی اس ملک کے صدر بنیں گے اور وہ اس بات کا فائنل جملہ میاں صاحب کے منہ سے سننا چاہتے تھے ،پھر وقت نے ایک بارپھر کروٹ بدلی اور آصف زرداری اس ملک کے صدر بن گئے اور انہوں نے 18ویں ترمیم 8اپریل 2010 کو لاکرکے حسب وعدہ 58ٹو بی کے ساے اختیارات اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے حوالے کردیے ،مگر اس کے ساتھ وفاق کے بہت سارے اختیارات بھی صوبوں کے حوالے کردیے اور اس بات کا مقصد شاید یہ تھا کہ ان کے زہن میں یہ خاکہ ضرورتھا کہ چاہے بار بار انہیں وفاق میں کامیابی نہ مل سکے مگر سندھ میں تو زیادہ تران ہی کی حکومت نے قائم رہنا ہے۔18ویں ترمیم کی منظوری بھاری اکثریت سے منظور ہوگئی،مگر آج 2018کے انتخابات میں بننے والی عمران خان کی حکومت سے نہ جانے کیوں آصف زرداری کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں کہ کہیں تحریک انصاف کی حکومت 18ویں ترمیم کو ختم تو نہیں کرنے جارہی مگر ایسا کرنا اس قدر آسا ن کام بھی نہیں ہے آصف زرداری چاہیں تو مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کو ملا کر اس وسوسے کو جب چاہے روک سکتے ہیں مگر یہ طے ہے کہ جہاں اس ترمیم سے پہلے وفاقی حکومت سے عوام کو کوئی فائدہ نہ مل سکا ہے وہاں ان اختیارات کے صوبوں میں جانے سے بھی عوام کو کچھ نہ مل سکا ہے۔ یعنی اس تحریر سے ہم نے سبق یہ سیکھا ہے کہ 18ویں ترمیم صوبے رہے یا پھر وفاق میں ـ"عوام نو کجھ نئی لبنا ـ "۔ آپ کی فیڈ بیک کا انتظار ہے گا۔ ختم شد

Rao Imran Salman
About the Author: Rao Imran Salman Read More Articles by Rao Imran Salman: 75 Articles with 67642 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.