تعلیم میں اساتذہ کا کردار

انسان دنیا میں کہیں رشتوں کے ساتھ جڑا ہوتا ہے ان میں کہیں خونی ہوتے اور کہیں روحانی، ان میں سے ایک رشتہ استاد کا بھی ہوتا ہے۔ استاد کو دنیا میں روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے اسلام میں استاد کا رتبہ والدین کے رتبے کے برابر قرار دیا گیا۔ کیوں کہ دنیا میں والدین کے بعد اگر بچے کی تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ معلم یعنی استاد ہے۔ وہ استاد ہی ہے جو ایک انسان کو جینے کا مقصد سیکھا دیتا ہے
دنیا میں جتنے بھی بڑے سائنسدان گزرے جب بھی ان سے کی بلندی کا سبب پوچھا جاتا تو ان میں ایک سبب استاد کا کردار ضرور ہوتا۔ کہا جاتا ہے والدین ایک بچے کو آسمان سے زمین میں لانے کا سبب بنتے ہیں جبکہ استاد اسی بچے کو آسمان یعنی بلندی کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے آج کے معاشرہ میں ایک بچے کی تربیت میں استاد کا کردار بالکل محدود ہوکر رہ گیا۔نہ وہ استاد رہے جو ایک شاگرد کو بلندی کی طرف لے جاہیں نہ وہ شاگرد رہے جو اپنے استاد کے ادب میں کوئی کمی نہ رکھیں۔ آج ہمادی پستی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ استاد نے تعلیم کو کاروبار کا ایک زریعہ بنالیا جبکہ شاگرد بھی محض ڈگری کے حصول کیلیے علم حاصل کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے آج ہمارے ملک میں علم والے تو بہت ملیں گے لیکن اکثر اخلاقی لحاظ سے خالی ہوں گے۔ہمارے سرکاری سکولوں کا حال دیکھ لیں ان سکولوں میں پی ۔ایچ ۔ڈی ڈگری ہولڈر استاد ملیں گے لاکھوں روپے تنخواہ لے رہیں ہیں لیکن حالت یہ کہ ان کو فرصت ہی نہیں ملتی سکول آنے کی اور اگر فرصت مل ہی جائے تو کلاس روم کو بیڈروم سمجھ لیتے ہیں اور کچھ کو تو سمجھانے اور پڑھانے کا اتنا شوق ہوتا ہے وقت کی کمی کے باعث شاگردوں کو اپنی اکیڈمی بلا لیتے ، بس تھورے سے پیسے لے لیتے ہیں اور جب نتیجہ آتا ہے تو جن بچوں نے اکیڈمی پڑھی وہ پاس ہوگئے اور جو صرف سکول پڑھتے رہے وہ منہ تکتے رہ گئے۔ آج کے استاد نے علم کو فروخت کرنا شروع کردیا جو جتنے زیادہ پیسے دے گا وہ اتنے اچھے مارکس لے گا۔ نجی سکولوں کا یہ حال کہ پوزیشن لینے کے چکروں میں بچوں کو پوری کتابیں زبانی یاد کروائی جاتی ہیں جب بچوں سے پوچھا جائے جو آپ پڑھ رہے ہو اس کا مقصد کیا ہے ؟ وہ جواب دینے سے قاصر ہوجاتے ہیں۔یہی وجہ ہے آج ہمارے ملک میں کوئی سائنسدان نہیں بن رہا ہے ڈگری تو سب کے پاس ہے لیکن علم نہیں۔جبکہ ہماری یونیورسٹیوں کا تو اﷲ ہی حافظ، پیسے لے کر پاس کرنا ، پیسے لے کر پیپر بتانا، ذاتی پسند اور ناپسند کی بنا پر پاس اور فیل کرنا ، لڑکیوں کے ساتھ افئیر چلا کر پاس کرنا تو گویا عام سی بات ہے ایسا لگ رہا ہوتا ہے جیسے ڈگری کے حصول کیلیے لین دین چل رہا ہو ۔سکول کی تعلیم سے لے کر اعلٰی درجے تک ایسا لگ رہا ہوتا ہے جیسے استاد اپنا کاروبار کررہا ہے اور شاگرد اپنی مستقبل کی سرمایہ کاری لگارہا ہو۔ تمام اساتذہ اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے اور اپنے رتبے کا لحاظ رکھتے ہوئے حقیقی معنوں میں علم فراہم کریں۔تاکہ کل کا بچہ ایک اچھا سائنس دان ،ریاضی دان، ڈاکٹر ، انجینئر بن سکے وہ اپنی پہچان کے ساتھ ایک استاد کی بھی پہچان کا سبب بنے۔
 

Adil Abbasi
About the Author: Adil Abbasi Read More Articles by Adil Abbasi: 4 Articles with 3817 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.