چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب نے دربار داتا صاحب کے
احاطہ میں کھڑے ہوکر فرمایا ملک ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے مان لیتے ہیں
مگریقین کیسے آئے گاکیونکہ عمران خان نے الیکشن سے پہلے جس تبدیلی کا نعرہ
لگایا تھا اسکا عملی طور پر ابھی تک کوئی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا گذرنے
والے دو ماہ کے دوران وہی سب کچھ ہوتا رہا جو پچھلی حکومتوں کے دوران ہوا
مائیں بچوں کو سڑکوں پر جنم دے رہی ہیں بے روزگاری اور غربت بڑھت بڑھتے
خودکشیوں تک جا پہنچی ہے ایک وقت کا راشن خریدنے والے اس سے بھی عاجز آچکے
ہیں پولیس اور تھانہ کلچر ویسے ہی ہے جیسا پہلے تھا چوروں اور ڈاکوؤں کا
خود ہی تعاقب کرنا پڑتا ہے سرکاری محکموں میں فائلوں کو ویسے ہی پہیے لگائے
جارہے ہیں جیسے پہلے لگتے تھے ٹھیکوں میں کمیشن ویسے ہی جاری ہے سفارش اسی
طرح چل رہی ہے جیسے خادم اعلی کے دور میں چلتی تھی غریب ،مجبور اور بے
سہارا ویسے ہی ذلیل وخوار ہورہا ہے جیسے پہلے ہوتا تھاغربت ویسے ہی منہ چڑا
رہی ہے جیسے پہلے تھی غریب انسان معمولی چالان ہونے پر ویسے ہی کھمبوں پہ
چڑھ کر بجلی کی تاریں پکڑ کر موت کو گلے لگا رہے ہیں جیسے پہلے ہوتا تھا
ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او ویسے ہی خدا بنے بیٹھے ہیں جیسے پہلے تھے جنوبی
پنجاب کے لوگ ویسے ہی محرومیوں کا شکار ہیں جیسے پہلے تھے عدالتوں میں کیس
ویسے ہی سست روی کا شکار ہیں جیسے پہلے تھے بجلی ،گیس اور پیٹرول کی قیمتوں
میں ویسے ہی اضافہ ہے جیسا پہلے تھا افسر شاہی کا رعب اور دبدبہ ویسے ہی
عوام کے دلوں پر ہے جیسے پہلے تھا غربت اور بے روزگاری میں ویسے ہی اضافہ
ہورہا ہے جیسے پہلے تھا قرضوں کا بوجھ ویسے ہی بڑھتا جارہا ہے جیسے پہلے
تھا احتساب کا عمل اتنا ہی سست ہے جتنا پہلے تھا بے گناہ جیلوں میں ویسے ہی
بند ہیں جیسے پہلے تھے اور چوروں ڈاکوؤں کو ویسے ہی پروٹوکول مل رہا ہے
جیسے پہلے تھا مین شاہراہوں سے لیکر عام سڑکوں کے درمیان ویسے ہی گڑھے
موجود ہیں جیسے پہلے تھے سرکاری اور پرائیوٹ سکولوں کے درمیان نصاب کا اتنا
ہی فرق ہے جتنا پہلے تھے راتوں رات کروڑ اور پھر ارب پتی بننے والے لوگ
ویسے ہی آپ کے اردگرد موجود ہیں جیسے پہلے والوں کے ساتھ ہوا کرتے تھے
سفارش اور مٹھائی کے زریعے تعیناتیاں کروانے والے ویسے ہی آج تعیناتیاں
کروارہے ہیں جیسے پہلے کرواتے تھے اور تو اور آپکے دور حکومت میں بھی اقربا
پروری اتنی ہی ہے جتنی پہلے تھی تو تبدیلی کا آغاز کہا سے شروع ہوا اور کب
شروع ہوا مجھے تو اسکا بات کا احساس نہیں ہوا ہاں ملک میں تبدیلی کا آغاز
اگر افسران کے تبادلوں سے آتا ہے تو پھر واقعی تبدیلی کا آغاز ہوچکا ہے
کیونکہ جب سے ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے اسی دن سے تبادلوں کا آغاز
ہو چکا ہے کسی کو ٹیلی فون کال نہ سننے پر تبدیل کردیا جاتا ہے تو کسی کو
صرف اس لیے تبدیل نہیں کیا جاتا ہے کہ وہ وزیر سے قرب رکھتے ہیں کسی کو اس
وجہ سے تبدیل کروادیا جاتا ہے کہ وہ ہماری مرضی سے افسران کے تبادلے نہیں
کررہا ملک میں تبدیلی کا آغاز صرف تبادلوں کے سیلاب سے نہیں آتا بلکہ عوام
کی فلاح وبہبود کے لیے بنائے جانے والے منصوں کے عملی طور پر شروع ہونے سے
آتا ہے ابھی تک پچھلے دور کی باقیات کا عروج ہے اور رہی سہی کسر پنجاب میں
بننے والے دو واضح گروپوں نے پوری کررکھی ہے جسکی وجہ سے بیوروکریسی بھی
پریشانی کا شکار ہے ایک کی مانتے ہیں تو دوسرا تبادلہ کروادیتا ہے اگر اسکی
نہیں مانتے تو پھر بھی تبادلہ ہو جاتا ہے دو بڑوں کی لڑائی میں عوام ویسے
ہی پریشانی کا شکار ہے جیسے پہلے والی حکومت میں تھی اب چیف جسٹس صاحب نے
فرمایا ہے کہ ملک ٹیک آف کررہا ہے تو مان لیتے ہیں کہ پچھلے دوماہ کی
خواریوں کے بعد ہی سہی چلوں ملک نے شاہراہ ترقی کے پہلے زینے پر قدم تو
رکھا جو کام عمران خان صاحب کو اقتدار سنبھالتے ہی کرنے چاہیے تھے وہ اب دو
ماہ گذرنے کے بعد شروع کیے جارہے ہیں اور جو کام اپوزیشن کے رہنما کررہے
ہیں وہ خود حکومت کو کرنا چاہیے تھے کچھ دن قبل حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ
کچھ لوگ این آر او مانگ رہے ہیں جنکے نام نہیں بتائے گئے مگر آج سابق
وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری نے مطالبہ کردیا کہ این آر او
مانگنے والوں کے نام بتائیں جائیں اب حکومت کو چاہیے کہ ایسے افراد کے نام
سامنے لائے جنہوں نے این آر او جیسی بیماری کو گلے لگانے کی کوشش کی تاکہ
قوم کو پتہ ہو کہ کون اندر سے کیا اور باہر سے کیا نظر آتے ہیں ایک اور بات
حکومت عوام میں اپنا اعتماد بحال کرے بلکل اسی طرح جیسے چیف جسٹس میاں ثاقب
نثار نے عوام کے دلوں میں گھر کرلیا ہے اب پاکستان کے کسی بھی کونے میں کسی
کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو وہ مظلوم شخص حکومت کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ
اسکی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح چیف جسٹس کے سامنے پہنچ جائے بس
پھر اسکا مسئلہ حل ہوجائیگا اگر ایک فرد نے محنت اور جرات سے اپنا یہ مقام
پیداکرلیا ہے تو پی ٹی آئی قیادت کو کیا ہوا جو اقتدار میں ہی عوام کے
ووٹوں سے آئی ہے جنہوں نے الیکشن سے پہلے نئے پاکستان کا جو خواب عوام کو
دکھایا تھا اسے اب پورا کریں کیونکہ اس وقت عوام ،ادارے اور عدلیہ عمران
خان کے ساتھ ہیں شکایت سیل کا آغاز بھی ایک اچھا اقدام ہے مگر یونین کونسل
کی سطح پر ایسا نظام لایا جائے کہ علاقہ کے لوگوں کے مسائل علاقہ میں ہی حل
ہوسکیں اسکے ساتھ ساتھ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے شام کی
عدالتوں کا قیام بھی ایک اچھا اقدام ہے اور فیملی کورٹ میں اب عرصہ دراز سے
چلنے والے کیسز جلدی اپنے انجام تک پہنچیں گے جبکہ پنجاب حکومت کوچاہیے کہ
اورنج لائن میٹرو ٹرین کے منصوبہ پر بھی جلد از جلد کام مکمل کرکے اسے عوام
کے لیے کھول دیا جائے تاکہ شہر میں ٹریفک کی روانی برقرار رہے اور شہریوں
کو بھی اچھی ٹرانسپورٹ سروس مہیا ہوسکے اور جب تک عوام کی فلاح وبہبود کے
منصوبوں پر عمل شروع نہیں ہوگا اور عوام خوشحال نہیں ہوگی اس وقت تک تبدیلی
کو ہم نہیں مانتے مگر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہہ دیا کہ ملک ترقی کی
طرف بڑھ رہا ہے تو مان لیتے ہیں جناب۔ |