بات: انڈیا نے تقسیم برصغیر سے لیکر اب تک پاکستان کودِل
سے کبھی تسلیم نہیں کیا َ۔فاختہ امن کی اُڑے یا ہاتھوں کے طوطے ۔یہ سب خود
فریبی کے سوا کچھ نہیں۔انڈیا نے اثاثوں کی تقسیم سے لیکر مابعد جارحانہ
عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں تک ،کوئی ایک بھی ایسا تاثر نہیں
چھوڑا کہ وہ پاکستان کی خود مختاری کو تسلیم کرتا ہے۔اچھے پڑوسیوں کی طرح
رہنا چاہتا ہے۔چلیں اور بات کرتے ہیں ۔مان لیا 1971تک انڈیا کاطرز عمل
جارحانہ ،مکارانہ رہا ۔پاکستان توڑنے کیلئے جنگ ستمبر کے بعد اختیار کی گئی
چالبازیوں سے بنگالیوں میں پاک افواج کیخلاف نفرت پیدا کی ۔مزاحم بھی کردیا
۔سقوط ڈھاکہ کا سانحہ بھی رونما ہوا ۔ اندرا گاندھی نے یہ کہہ کراپنی فتح
مندی کا اظہار بھی کردیا’’آج جناح کا دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق
ہوگیا‘‘۔۔۔۔کیا بعد میں انڈیا نے اپنی روش تبدیل کی؟نہیں ناں پھر۔۔۔۔۔۔
دوسری بات: گزرے وقتوں کیساتھ ساتھ انڈیا کی قیادت کو’’مشرقی پاکستان‘‘میں
اپنے گھناؤنے کردار پر شرمندگی ہوئی ؟۔۔۔۔نہیں ۔اُسکے گھناؤنے وتوسیع
پسندانہ عزائم کم ہوئے ؟نہیں ۔۔۔پھر کیا ہوا؟ آئیے بتاتے ہیں انڈیا 1984
میں سیاچن پرجابیٹھا ۔لیکن پاکستان کو ٹف ٹائم دینے کی خوش فہمی میں یہ چال
بھی اُلٹی پڑ گئی۔اور دُنیا کا مہنگا ترین خطرناک محاذ اُسکے گلے پڑگیا۔ اب
گذشتہ بیس سال سے کوشش ہے کہ وہ اپنے خیر خواہ /اقتدار پرست’’بااثر‘‘
پاکستانی سیاستدانوں کے ذریعے سیاچن محاذ سے عزت کیساتھ جان چھڑا
لے۔۔۔پاکستان میں دہشتگردی کے ذریعے عدم استحکام و انتشار پھیلانے کیلئے
انڈیا اپنی گھناؤنی حرکتوں سے کبھی دستبردار نہیں ہوا۔ثبوت بھی کوئی ڈھکے
چھپے نہیں ہیں۔قومی اداروں کیمطابق انڈیا نے باقاعدہ پاکستان کیساتھ طویل
افغان سرحدی پٹی کے قرب و جوار میں سرگرمیوں کا سلسلہ چلایا ۔جسکے ثبوت
جنرل مشرف نے بھی عالمی فورمز پردئیے۔اور بعد بھی اس حوالے سے گرما گرم
خبریں آتی رہیں۔یہاں تک کہ تان کلبھوشن یادیو پرآن ٹوٹی۔کیا انڈیا نے اپنے
گھناؤنے کردار کو مانا؟؟نہیں ۔۔۔
تیسری بات: موجودہ انڈین پرائم منسٹرنریندر مودی کو بنگلہ حکومت کی
وزیراعظم نے2012میں اُسوقت ’’مشرقی پاکستان میں گھناؤنے کردار میں حصہ داری
پر‘‘بنگلہ دیشن لبریشن وار ایوارڈکودیا جارہا تھا۔اور مشرقی پاکستان میں
پاک فوج کیساتھ مل کر مکتی باہنی کی سفاکیت سے پاکستانیوں کو بچانے کیلئے
کام کرنیوالے بزرگ بنگالیوں کو پھانسیاں دی جا رہی تھیں ۔جبکہ اِدھر
پاکستان اسمبلی میں آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کا بل پیش
ہورہا تھا۔۔یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے ؟؟نہیں۔۔۔کیا یہ منظر نامہ اُن
دانشوروں اور ۔۔۔کی سمجھ میں نہیں آتا کہ سقوط ڈھاکہ کے پیچھے انڈیا کیساتھ
کن کن غداروں کا گھناؤنا کردار تھا۔چلیں اب رواں عشرے پر آتے ہیں۔
۔۔۔۔پاکستان پر آبی دہشتگردی مسلط کردی گئی ۔کشمیریوں کا جینا مذیدحرام
کردیا گیا ہے۔اسکے بعد بھی(انتہائی محدود پیمانے پر) اگر انڈین فوج کے کسی
لیفٹیننٹ جنرل عطاء حسین و الوک بنسل نامی شخص کے اشتراک سے لکھی گئی کتاب
میں گلگت بلتستسان میں انسانی حقوق کا مسئلہ ظاہر کیا گیا ہے تو اس پر
(احتجاج)واویلا کیوں؟؟جب دشمن سازشی و مکار ہوتو اُس سے کسی اچھائی کی توقع
کیسے کی جاسکتی ہے ؟جب توقع نہیں کی جاسکتی تو پھراوروں کو شاید عجیب نہ
لگے ۔مگر میرے جیسے لوگ اِسے’’پسند نہیں کرتے ‘‘سابق انڈین جرنیل کی کتاب
کو مقبولیت بخشی جائے۔
چوتھی بات: بے شک کتاب میں گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو
موضوع بنایا گیا ہے۔اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ جتنا زور کتاب کے مندرجات کو
جھٹلانے کیلئے لگائیں گے ۔کیا یہ بہتر نہ ہوگاکہ مذکورہ کتاب سے زیادہ ہم
اپنے روئیوں پر غور کریں ۔ جہاں کمی بیشی ہو،عقل کل بنے رہنے کے بجائے اپنی
اصلاح کرلیں۔بات تو پاکستان کی ہے ،پاکستانیت کے جذبے اگر سازشوں و مکاریو
ں سمیت دیگر عقل کل عناصر کی حرکتوں کی زد میں رہیں توکیا فرق پڑیگا؟؟
مظفرآباد میں حسب سابق سو سوا سو یا بہت ہی زیادہ ہوا تو حکومتی دلچسپی سے
پانچ سو سے چندہزار لوگوں کا مجمعہ (کثیر)اکٹھا کرکے کیا پیغام دیں گے؟؟
؟صاحبو! دُنیا بہت تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔اب خود فریبی کام نہیں چلے
گا۔ویسے جتنے بھی احتجاج منظم کرلئے جائیں۔شرکاء کی تعداد باعث ندامت ہی
ہوگی ۔کیونکہ سیاسی حکومتی سطع پر قومی ایجنڈا کی موجودگی ظاہر نہیں ہوتی
لہذاخواہ مخواہ پیالی میں طوفان اُٹھاناسعی لا حاصل ہی ہوگا۔ماضی کے کئی
تجربات ومشقوں کو ذہن میں تازہ کرلینا چاہیے ۔انڈین سابق جرنیل و الوک بنسل
کہتے ہیں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔آپ کو کتابی الزامات پر
’’آنیوں جانیوں ‘‘کے بجائے سوشل میڈیا پرگلگت بلتستان میں انسانی حقو ق کے
تحفظ کو اُجاگر کرنا چاہیے ۔تیزی سے ایسے پروگرامز ڈیزائن کرنے پرمتوجہ
ہونا چاہیے ۔جنہیں دیکھنے والے اپنی رائے میں انڈین کتاب کو’’ لغو‘‘باور
کریں۔۔۔۔۔۔
پانچویں بات: ہمیں یہ بات سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی ملک کے ایسے عام و خاص
لوگ جو باقاعدہ طور پر’’حلف وفاداری‘‘اُٹھاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ریاستی
ستونوں سے متعلق ذمہ داریوں میں ’’حلف وفاداری‘‘ہوتا ہے ۔مگر ایک رائے میں
پاکستان میں حلف کی پاسداری ؟؟؟ کی شرح فوج میں 99% جبکہ دیگر اداروں میں
50% ہے ۔پاکستان اسوقت دُنیا کی مشکل ترین جنگ لڑ رہا ہے ۔جتنی قربانیاں اس
جنگ میں دی گئی ہیں ۔ماضی میں اُسکی کوئی مثال موجود نہیں۔پاک فوج ملک کی
دھرتی اور اس پر بسنے والے لوگوں کی سلامتی کیلئے ہمہ جہتی جنگ لڑ رہی
ہیں۔چند ’’بیاناتی ‘‘رہنماء اور اِکا دُکا دوسرے لوگ بیانات کے ذریعے پاک
فوج کیساتھ بھی ہیں اورجنگ میں پاک افواج کی قربانیوں پر اپنی عقیدت دکھاتے
ہیں ۔حالانکہ فوج کے حامی اور غیر حامی،اس پر ا عتماد رکھتے ہیں کہ افواج
کی نگرانی میں انتخابات ہوں ،مطلب واضع ہے ۔اِسی طرح سیلاب ،زلزلہ ،دیگر
حادثات و غیر معمولی حالات میں بھی یہی افواج سب سے آگے کھڑی نظر آتی
ہیں۔جبکہ اِنھی افواج کیخلاف ملک کے اندرتسلسل سے محاذ بھی گرم رہتا ہے۔اگر
ہمیں اپنی قومی غیرت دکھانی ہے تو اپنی افواج ،اپنے اداروں کیساتھ ایسے
کھڑے ہوں کہ ’’نظر بھی آئیں‘‘دشمن تو ہماری رائے عامہ کوتباہ کرنے پر ایڑی
چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ فوجی زبان میں بیان کیا جائے ۔تو ’’پروپگنڈہ ہمیشہ
دشمن کا موثر ہتھیار ہوتاہے‘‘جبکہ یہ ہتھیار اُسوقت اور بھی موثر ہوجاتا ہے
۔جب دشمن کے پھیلائے ہوئے جال سے متاثر ہوجائیں ۔ بعض بدبخت تو چاہتے ہیں
کہ وہ کھل کھیلیں ،اُنھیں کوئی نہ پوچھے۔مگر ’’پاک افواج ‘‘کو رکاوٹ سمجھتے
ہیں اور عوامی حلقوں میں فوج کے بارے میں سوالات پیدا کرنے کی کوشش کرتے
ہیں۔
چھٹی بات: حلف بہرحال بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔نوعیت کچھ بھی ہو مگر حلف
کا تقاضا’’ وفاداری‘‘ہوتا ہے۔چاہے کوئی ادارہ ہو ملک ہو ۔پاکستان کی مسلح
افواج میں ریاست جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے سپوتوں کے راستے میں
’’امتیاز و تعصب‘‘کی کبھی کوئی رکاوٹ نہیں آتی ۔یہی وجہ ہے کہ اب تک درجنوں
جرنیلو ں کا تعلق کشمیر سے ہے۔اب بھی جرنیلوں میں کشمیری سپوت موجود
ہیں۔اِسی طرح مسلح افواج میں کشمیری سپوتوں کی اسوقت تعداد اکیاون ہزار پلس
ہے۔ہماری پاک افواج میں کسی کشمیری جوان ،افسر،سینئر افسر، جرنیل کوامتیازی
و متعصبانہ سلوک کا سامنا نہیں ۔کشمیر کا جوان پاک افواج کا حصہ بننے پر
ترجیح دیتا ہے۔بھرتی دفاتر کے باہر لائنیں نظر آتی ہیں۔پاک افواج میں
شمولیت اختیار کرنیوالے کشمیری جس سطع پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔وہ
ملک و قوم سے وفاداری کے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے ہمیشہ سرخرو ہوئے ہیں۔
ساتویں بات: ریاست جموں و کشمیرمسلم اکثریتی اور متنازعہ علاقہ ہے۔غالب
اکثریت اگر چہ ہمیشہ پاکستان کیساتھ اپنی وابستگی کا عزم و ارادہ رکھتی ہے
۔اور اِسی تناظر میں تحریک مزاحمت بھی منظم ہوئی ۔تحریک کی شمع میں خون
ڈالنے والوں کے جنازوں پر بھی سبز ہلالی پرچم ڈالا جاتا ہے ۔اور انڈین
فورسز کیخلاف احتجاج و نفرت کے اظہار کی سرگرمیوں میں بھی یہی سبز ہلالی
پرچم لہرا رہا ہوتا ہے۔جوکہ کشمیریوں کی اجتماعی رائے کا عکاس ہے۔بے شک
اقوام متحدہ کی قراردادوں کیمطابق کشمیرکی حیثیت کا فیصلہ باقی ہے۔مگر یہ
جو کشمیریوں کا انبوع کثیرسبزہلالی پرچموں کو لئے ،نعرے لگاتا ہوا سڑکوں پر
آتا ہے ۔اِسے کوئی نظر انداز کرسکتا ہے؟؟؟
آخری بات: کہتے ہیں کہ دشمن کو کبھی کمزور نہیں سمجھنا چاہیے ۔ضرورت اس امر
کی ہے کہ ایسی روش سے گریز کیا جائے جس سے دشمن کیلئے خوشی کی خبر
بنے۔لیفٹیننٹ جنرل عطاء حسین انڈین فوج سے ہے۔اُس نے انڈین مفاد میں لکھا
ہے ۔کہیں بھی اگر کوئی انڈین مفادات کے حصول و تحفظ کیلئے ذرائع ابلاغ کا
مورچہ سنبھالتا ہے تو سیخ پا ہونے کے بجائے ہمیں اپنے عمل سے اپنے ملک و
ملت کے مفاد کیلئے اداروں کیساتھ کھڑے ہونا چاہیے کہ نظر بھی آئیں اس بات
پر اختتام کرتے ہیں’’ آخر گلگت بلتستان ہی کیوں کتاب ‘‘کا مرکزی موضوع
بنایا گیا ہے؟آنیوالے دِنوں میں کس طرز کا کھیل شروع ہونیوالا ہے؟قلم و یا
بندوق کرائے پر لی گئی چیزیں کبھی فائدہ مند نہیں ہوتیں۔
|