سرمایہ افتخار یا بوجھ

دنیامیں ایک مرتبہ پھراسرائیل کے خلاف نفرت میں اضافہ ہورہاہے جس کیلئے دنیابھرمیں بسنے والے یہودیوں کے اندراس نفرت کے حقائق جاننے کیلئے یہ سوچ پیداہورہی ہے کہ اس خرابی کی وجہ کیااوراس کاذمہ دارکون ہے؟ برطانیہ کے سابق چیف ربّی لارڈ جوناتھن سیکز نے معروف امریکی اخبار ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘میں ایک مضمون لکھا ہے، جس میں اُنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک بار پھر یہودیوں سے شدید نفرت کی لہر اُٹھی ہے۔ اُنہوں نے اپنے مضمون میں لکھاہے:’’دنیا میں بھی بیشترسیاست دان اِس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ اِس وقت یورپ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اینٹی سیمیٹزم ہے۔ اگر کبھی یہ نُکتہ اُٹھائیے تو اُن کی طرف سے مختصر اور ٹکاساجواب ملتاہے کہ اسرائیل کی حکومت نے فلسطینیوں سے جوسُلوک روا رکھاہے،یورپ میں یہودیوں سے شدید نفرت کااظہاراُس کاردِّعمل ہے مگرسوال یہ ہے کہ اگر اسرائیلی حکومت کوئی پالیسی اپنارہی ہے تواُس پرردِّعمل کہیں اورکیوں؟ اسرائیل کی پالیسیاں پیرس کی کوشرمارکیٹس یابرسلزاورممبئی کے ثقافتی مراکزمیں تونہیں بنائی جارہی ہیں۔ پیرس، برسلزاورممبئی میں نشانہ بنائے جانے والے اسرائیلی نہیں،یہودی تھے‘‘۔

امریکی ہفت روزہ’’ٹائم‘‘میں امریکی ریاست مشی گن کے ربّی (اورایک آئی ٹی اورسوشل میڈیا مارکیٹنگ کمپنی کے صدر) جیسن مِلرکاایک مضمون’’اِٹزٹائم ٹواسٹاپ اِگنورنگ دی نیوویوآف اینٹی سیمیٹزم‘‘کے عنوان سیکزکے مضمون کاحوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:’’میں اِس پوزیشن میں ہوں کہ یہودیوں کے خلاف نفرت کی نئی لہر کے خلاف زیادہ قوت سے آوازبلند کرسکوں۔ یہودیوں سے نفرت کی یہ نئی لہر نازی اِزم سے نہیں بلکہ اسلام اِزم سے پیدا ہوئی ہے۔ ربّی سیکزنے بالکل درست نشاندہی کی ہے۔ اکیسویں صدی میں اسرائیل یااسرائیلیوں سے نفرت کااظہارنہیں کیاجارہا بلکہ یہودیوں کے خلاف جونفرت صدیوں موجودرہی ہے،وہی اپناجلوہ دکھارہی ہے۔ یہ ویسی ہی نفرت ہے جو70سال قبل یورپ میں دکھائی دی تھی اور جس میں لاکھوں یہودی مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کردیا گیا تھا‘‘۔

میں بہت احترام سے یہ بات کہتا ہوں کہ ربّی سیکز اور جیسن مِلر نے یہودیوں کے خلاف پائی جانے والی نفرت کے خلاف آواز اُٹھاتے وقت اِس حقیقت کو نظرانداز کردیا ہے کہ اسرائیل میں فلسطینیوں کے خلاف جو ریاستی دہشتگردی کی جارہی ہے، اُسی نے اسرائیل مخالف جذبات کو یہودی مخالف جذبات میں تبدیل کردیا ہے لیکن یورپ میں یہودیوں کے خلاف جومہم چلی اورجس کے جواب میں لاکھوں یہودیوں کوماردینے کادعوی کیا جاتاہے وہاں تومسلمان یااسلام موجودنہیں تھا؟آخران وجوہات کاذکرکیوں نہیں کیاجاتا؟ میں نے اپنے کئی مضامین میں اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس کے سابق ڈائریکٹر ییہو شیفت ہرکابی کی کتاب "اسرائیلز فیٹ فُل آور" کا حوالہ دیا ہے جس میں اُنہوں نے اسرائیل کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ جلد از جلد مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی کردے۔ ہرکابی کے نزدیک فلسطینی علاقوں پر قبضہ برقرار رکھنا اسرائیل کیلئے بہت حد تک موت کا پروانہ ہے۔

ہرکابی نے لکھا ہے:’’ہم اسرائیلیوں کو اپنی پالیسیوں اوررویّے پرنظرثانی کرناہوگی۔ ہمیں اِس بات کاخیال رکھناہوگا کہ ہم دُنیابھرمیں بسے ہوئے یہودیوں کیلئے سرمایۂ افتخار کے بجائے کہیں بوجھ نہ بن جائیں۔ اسرائیل ہی وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعے دنیابھرمیں یہودیوں کوجانچااورپرکھاجائے گا۔ اسرائیل واضح اورعلانیہ طورپرایک یہودی ریاست ہے اوراِس میں یہودی کردارہی جھلکنا چاہیے۔جوکچھ اسرائیل میں جھلک رہاہے،اُسے یہودی کردارہی سمجھاجائے گا۔ یہودیوں سے نفرت کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہ عمل صدیوں پرمحیط رہاہے۔اسرائیلی ریاست جوکچھ بھی کرے گی، اُسی کی بنیاد پردیکھاجائے گا کہ یہودیوں سے نفرت کی جائے یانہ کی جائے۔اگر اسرائیل کی ریاست کوئی غلط کام کرتی ہے توپوری دنیا میں یہودیوں سے نفرت کرنے والوں کواپنے رویّے کا ٹھوس جوازملے گا۔اسرائیل کویہودیوں سے نفرت کے خاتمے کیلئے قائم کیاگیاتھا۔ اگر یہ ریاست ہی یہودیوں سے نفرت کی بُنیاد فراہم کرتی ہے تو اِس سے بڑھ کر المیہ کیا ہوسکتا ہے؟ اسرائیلیوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو کچھ اپنی ریاستی حدود میں کر رہے ہیں، اُس کا خمیازہ صرف اُنہیں نہیں، بلکہ دنیا بھر میں بسے ہوئے یہودیوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں یہودی مخالف لہر کے حوالے سے فرنٹ لائن تو اسرائیل ہی ہے‘‘۔

یہودیوں سے مختلف وجوہ کی بنیاد پر صدیوں سے نفرت کی جاتی رہی ہے۔ اِس وقت یہودیوں سے نفرت کی جو لہر پائی جارہی ہے، اُسے ایک بڑے عِفریت کا بیدار ہونا کہا جاسکتا ہے۔ اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بڑی طاقتوں نے صہیونیت کو پروان چڑھنے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہودیوں کے خلاف نفرت کی لہر ختم ہوگئی تھی، کیونکہ نازی جرمنوں کے ہاتھوں لاکھوں یہودیوں کی ہلاکت نے دنیا بھر میں اُن کیلئے ہمدردی پیدا کی تھی۔ اسرائیل کی ناجائزریاست کا قیام اِسی تناظر میں دیکھا اور برداشت کیا گیا تھامگر چند بڑی طاقتوں نے اپنے مفادات کے حصول کیلئے اسرائیل میں صہیونیت کو پروان چڑھنے کا بھرپور موقع فراہم کیااوراسرائیل کے بڑھتے ہوئے انسانیت سوزمظالم پربھی ابھی تک آنکھیں بندکررکھی ہیں، جس کے نتیجے میں ایک بار پھر دنیا بھر میں یہودیوں کو نفرت کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ پچھلے چندبرس قبل یہ توقع کی جارہی تھی کہ اب فلسطینی اور یہودی ایک ہی علاقے میں پُرامن بقائے باہمی کے اُصول کی بنیاد پر رہ سکیں گے مگر ایسا نہ ہوسکا۔ بلکہ یہ کہیے کہ اسرائیلی بے تحاشہ جارحیت نےاِس کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔

حالات خواہ کچھ ہوں، دنیا بھر میں ایسے لوگ رہیں گے جوایسی ہی دوسری کئی وجوہات کی بناء پر یہودیوں سے نفرت کرتے رہیں گے اور ساتھ ہی ساتھ ایسے لوگ بھی کم نہیں، جو دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمنوں کے ہاتھوں لاکھوں یہودیوں کے قتل(ہولوکاسٹ) کا انکار کرتے ہیں۔میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ یہودیوں کی طرف سے نازی جرمنوں پر ساٹھ لاکھ افراد کے قتل کا الزام ایسا ہے جس پر بحث ہوسکتی ہے۔ تعداد پر اختلاف تو ہوسکتا ہے مگر جہاں یہودیوں کے قتل عام کا سِرے سے انکار کردینا انتہائی ناقابلِ قبول بات ہے وہاں ان وجوہات کاذکرکرنابھی ضروری ہے۔ یہودیوں کوبڑے پیمانے پر قتل کیا گیالیکن اُس کی وجوہات کا انکار کرنا بھی اُتنے ہی بڑے پیمانے کا قتل عام ہے!اب یہودیوں سے نفرت کا عِفریت ایک بار پھربیدارہورہاہے اوراِس کے ہاتھوں یہودیوں کی زندگی پھرخطرے میں ہے،اس کاصحیح ادراک اوران وجوہات کوتسلیم کرنے کے بعداس کاتدارک انتہائی ضروری ہے۔

یہودیوں سے نفرت کی نئی لہرکاتجزیہ کرنے بیٹھیے توبیسویں صدی کے دوسرے نصف کے واقعات کاجائزہ لینے سے معاملات بالکل واضح ہوکرسامنے آئیں گے۔یورپ میں آباد یہودی مجموعی طورپرمحفوظ تھے۔وہ تعداد میں بہت کم تھے مگرعلمی اورفَنّی اعتبارسے بہت بلند تھے۔ کئی یورپی ممالک میں یہودیوں نے سیاست اورمعیشت پرغیرمعمولی اثرات مرتب کیے۔ تعداد میں بہت کم ہونے پربھی وہ اثرورسوخ کے اعتبارسے بہت بلند رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ میں اُنہیں یورپ کی علمی اشرافیہ قراردیتاہوں مگر ساتھ ہی ساتھ مجھے اِس بات پرحیرت ہے کہ اِس علمی اشرافیہ نے صہیونی لابی کے ہاتھوں برین واش ہوناگواراکیا۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ یورپ کے یہودیوں کی اکثریت نے فلسطینیوں پرڈھائے جانے والے صہیونی مظالم کو مظالم سمجھنے ہی سے انکار کی روش پر گامزن رہنا قبول کیا لیکن بالآخراگران کواس کااحساس ہوگیاہے تواس کا علاج بھی ایمانداری سے کرناہوگا۔

اسرائیلی ریاست نے فلسطینیوں کے حوالے سے جو رویّہ اختیار کیا اور جو پالیسی اپنائی، اُس نے ساری خرابیاں پیدا کیں اور دنیا بھر میں یہودیوں سےنفرت کوایک بارپھرزندہ کیا۔ ہرکابی نے اپنی کتاب میں صاف صاف لکھا ہے کہ صہیونی ریاست نے بین الاقوامی قوانین کویکسرنظراندازکیا، استعماری ہتھکنڈے اختیارکیے اورڈھکے چُھپے اندازسے نسلی تطہیرجاری رکھی جس کے نتیجے میں آج دنیابھرمیں صرف اسرائیل سے نہیں بلکہ عمومی طورپرتمام یہودیوں سے شدید نفرت کی جاتی ہے۔ کل تک جسے اسرائیل مخالف لہرسمجھ کرنظراندازکیاجارہا تھا، وہ اب یہودیت مخالف لہرمیں تبدیل ہوچکی ہے۔ صہیونی ریاست نے اس بات کاپورا خیال رکھا کہ یہودیوں سے نفرت کا جوعِفریت محوِ خواب ہے، وہ کہیں نیند کی حالت ہی میں دُنیانہ چھوڑجائے۔

برطانیہ کے کمیونٹی سروس ٹرسٹ نے ایک حالیہ جائزے میں بتایا ہے کہ ملک بھر میں یہودی مخالف واقعات میں ایک سال کے دوران ۱۰۰؍فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ۲۰۱۳ء میں یہ واقعات ۵۱۳ تھے جو ۲۰۱۴ء میں ۱۱۶۸؍ہوگئے اور اِن میں سے ۸۱ واقعات پُرتشدد تھے اوراب یہ تعدادبڑھ کر کئی گناہوگئی ہے۔ کمیونٹی سروس ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ برطانیہ بھر میں یہودیوں سے نفرت کے اظہار اورپُرتشدد واقعات کادوبارہ اُبھرنابہت حدتک اسرائیل کی پالیسیوں کانتیجہ ہے۔غزہ کے فلسطینیوں سے جوسلوک روارکھاجارہاہے اورجس طورعام شہریوں،بالخصوص بچوں اور عورتوں کونشانہ بنایاجارہاہے،اُس سے دنیابھرکی طرح برطانیہ میں بھی یہودیوں سے نفرت پروان چڑھ رہی ہے۔ یہاں ہمیں ہرکابی کے الفاظ یادآتے ہیں۔ ہرکابی نے اِس نکتے پرزوردیاہے کہ دنیابھر میں یہودیوں سے نفرت کوپروان چڑھانے میں اسرائیلی ریاست کی پالیسیوں کابہت اہم کردارہے۔دنیابھرکے لوگ یہودیوں کے اخلاقی کردارکااندازہ اسرائیلی ریاست کی پالیسیوں اور اقدامات سے لگاتے ہیں۔

تمام حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسرائیل کے خلاف پنپنے والے جذبات کو یہودیوں کے خلاف نفرت میں تبدیل ہونے سے اگرکوئی روک سکتا ہے تووہ خود یہودی ہیں۔ یورپ اورامریکا میں آباد یہودی اِس حوالے سے نہایت اہم کردارادا کرسکتے ہیں اوراِس کی عملی صورت یہ ہے کہ یورپ اورامریکا کے یہودی مل کرباضابطہ طورپر یہ اعلان کریں کہ اسرائیل کی صہیونی اسٹیبلشمنٹ جوکچھ کرتی ہے، اُس کایہودیوں اوراُن کے مذہب کی بنیادی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اُنہیں اسرائیلی ریاست کی طرف سے فلسطینیوں پرڈھائے جانے والے مظالم اور اُن سے انصاف نہ کیے جانے کی کھل کرنہ صرف مذمت بلکہ عملی اقدام بھی کرنے ہوں گے۔

اگریورپ اورامریکاکے یہودیوں نے ایسانہ کیایعنی صہیونی ریاست کے افکارواعمال سے برأت کا اظہارنہ کیاتووہ دن دورنہیں، جب یہودیوں کے خلاف نفرت کاعِفریت انگڑائیاں لیتاہوامکمل طورپر بیدارہوگااورتب تمام یہودیوں کیلئے انتہائی مشکل حالات پیداہوجائیں گے۔اِس عفریت کے بیدار ہونے سے پہلے امریکااوریورپ کے یہودیوں کوبیدارہوناہے۔یہی وجہ ہے کہ ایلان پاپ نے مشہورزمانہ برطانوی دانشورایلن ہارٹ کی مشہورزمانہ کتاب’’زائن اِزم: دی ریئل اینیمی آف دی جیوز‘‘ کو سات الفاظ میں حقیقی سَچّائی قراردیا ہے۔

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 316031 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.