قرآن و حدیث اور علما و فقہا کرام کی تحقیق
اورہمارے آئین وقانون کے مطابق اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گستاخ رسول کی
سزاموت ہے۔ اور امت کی تاریخ میں اس قسم کے واقعات ہوتے رہے ہیں اور عاشقان
رسالت نے اس حوالے سے عموما قانون کی پروا کئے بغیر گستاخ رسول پر حملے کئے
ہیں۔قیام پاکستان سے قبل جب برصغیر پاک و ہند پر برطانوی راج قائم تھا اس
وقت ہندوؤں کی طرف سے جب بعض ایسی تحریریں سامنے آئیں تو غازی
عبدالرشید،غاز علم الدین اور عبدالعزیز جیسے لوگوں نے گستاخان رسول کا کام
تمام کیا۔ انگریز راج میں گستاخ رسول کے لئے دستور میں کوئی خاص قانون سازی
نہیں ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ علم الدین غازی پر راجپال کے قتل کی پاداش
میں مقدمہ چلا تو ان کو پھانسی ہوگئی۔توہینِ مذہب کے قوانین پہلی مرتبہ
برصغیر میں برطانوی راج کے زمانے میں 1860 میں بنائے گئے تھے اور پھر 1927
میں ان میں اضافہ کیا گیا تھا۔برطانوی راج نے جو قوانین بنائے ان میں کسی
مذہبی اجتماع میں خلل ڈالنا، کسی قبرستان میں بغیر اجازت کے داخل ہونا، کسی
کے مذہبی عقیدے کی توہین کرنا، یا سوچ سمجھ کر کسی کی عبادت گاہ یا عبادت
کی کسی چیز کی توہین کرنا جرم قرار پائے تھے۔ ان قوانین میں زیادہ سے زیادہ
سزا دس سال قید اور جرمانہ تھی۔
قیام پاکستان کے بعد اور بالخصوص 1973 کے آئین کے وجود میں آنے کے بعد
صورتحال یکسر بدل گئی ہے۔1980 کی دہائی میں توہینِ مذہب کے قوانین میں
اضافہ کیا گیا۔ 1980 میں اسلامی شخصیات کے خلاف توہین آمیز بیانات کو بھی
جرم قرار دے دیا گیا تھا جس میں تین سال قید کی سزا مقرر کی گئی۔1982 میں
ایک اور شق شامل کی گئی جس میں جان بوجھ کر قرآن کی بیحرمتی کی سزا پھانسی
رکھ دی گئی۔ 1986 میں پیغمبرِ اسلام کی توہین کی سزا بھی موت یا عمر قید
رکھ دی گئی۔
جب سے یہ قانون بناہے مسلمانوں نے اس قانون پرعمل درآمدکے لیے ہمیشہ
عدالتوں کادروازہ کھٹکھٹایاہے ، نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس کی رپورٹ کے
مطابق 1987 سے لے کر اب تک 633 مسلمانوں، 494 قادیانیوں، 187 عیسائیوں، اور
21 ہندوں کے خلاف ان قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ان میں سے زیادہ
تر توہینِ قرآن کے مقدمات ہیں اور توہینِ رسالت کے مقدمات قدرے کم ہیں۔اس
رپورٹ سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ اس قانون کااقلیتوں کے خلاف غلط
استعمال نہیں ہوااگرایساہوتاتوزیادہ مقدمات مسلمانوں کی بجائے ان اقلیتوں
کے خلا ف بنتے ۔
اس قانون کے حوالے سے ہمیشہ یہ رویہ اپنایاگیا کہ آج تک کسی گستاخ رسول
کوعدالت نے سزانہیں دی اگرکسی نچلی عدالت نے سزادی بھی ہے توبڑی عدالت نے
ملزم کورہاکرکے بیرون ملک بھیج دیا عملی طورپریہ قانون معطل ہے جب عدالتیں
انصا ف نہیں کرے گیں تولامحالہ لاقانونیت پھیلے گئی لوگ قانون کواپنے ہاتھ
میں لیں گے توہین رسالت ایک ایسامسئلہ ہے کہ عوام سب کچھ برداشت کرلیتے ہیں
مگرپیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین بالکل برداشت نہیں کرتے یہی وجہ ہے
کہ جب وہ عدلیہ سے مایوس ہوئے تومسلمانوں کی ایمانی غیرت جاگ اٹھی ،آسیہ
مسیح کیس میں عدالت نے یہ لکھا ہے کہ پچھلے اٹھائیس برس میں ایسے 62 افراد
کو مقدمات کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی قتل کر دیا گیا جن پر توہین مذہب یا
پیغمبر اسلام کی توہین کا الزام لگایا گیا تھا۔اس سے ثابت ہواکہ اگرعدالتیں
بروقت فیصلے کردیتیں یہ افرادماورائے عدالت قتل نہ ہوتے ۔
آسیہ مسیح کیس میں عدالت نے اپنے فیصلے میں مزیدتحریرکیاہے کہ عدالت نے اس
بارے میں لکھا ہے کسی کو حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین کی اجازت
نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی مجرم کو سزا کے بغیر چھوڑا جا سکتا ہے لیکن اس
کا ایک پہلو یہ بھی ہے بعض اوقات کچھ مذموم مقاصد کے حصول کے لیے قانون کو
انفرادی طور پر غلط طریقے سے استعمال کرتے ہوئے توہین رسالت کا جھوٹا الزام
لگا دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ نامور شخصیات بھی جنہوں نے اس امر کا اعادہ
کیا کہ توہین رسالت کے قانون کا چند افراد کے ہاتھوں غلط استعمال ہو رہا ہے،
خطرناک نتائج کا سامنا کر چکے ہیں۔
۔عدالت کااعتراض کسی حدتک ہم درست مان بھی لیں توسوال پیداہوتاہے کہ جن
لوگوں نے جھوٹے الزامات اورمقدمات بنائے ان کے خلاف قانون حرکت میں کیوں
نہیں آیا؟ایسے افرادکے لیے 295-Aکاقانون موجود ہے مگرعدالتوں نے یاریاست نے
اس حوالے سے اپنی ذمے داری پوری کیوں نہیں کی ؟
جہاں تک آسیہ بی بی کیس کاتعلق ہے توپہلے دن سے اس کیس میں بین الاقوامی
قوتیں متحرک ہیں ،آسیہ کے کیس میں گواہوں کی موجودگی ،آسیہ بی بی کے اعتراف
کے بعد جب جرم ثابت ہوگیاتوآسیہ بی بی کے شوہرعاشق مسیح نے24فروری 2010 کو
جنیوا میں اقوام متحدہ کی حقوقِ انسانی کونسل سے رجوع کیا۔ ایک کیتھولک
امدادی تنظیم نے آسیہ بی بی کے حق میں اٹھارہ ہزار سے زیادہ افراد کے دستخط
جمع کیے ۔گزشتہ سال یورپی پارلیمنٹ کے قانون سازوں نے سخاروف ایوارڈ برائے
آزادی اظہاری رائے کے لیے آسیہ بی بی کونامزدکیاسخاروف انعامات کا یہ سلسلہ
یورپی پارلیمان نے شروع کیا تھا اور اس انعام کا نام روسی سائنس دان آندرے
سخاروف کے نام پر رکھا گیا ہے۔یہ ایوارڈملالہ یوسف زئی بھی حاصل کرچکی ہیں
آسیہ کے خلاف زیر دفعہ 295-C تعزیرات پاکستان جرم کے تحت آسیہ مسیح کے خلاف
شیخوپورہ میں 19جون 2009 کو 326 نمبرایف آئی آردرج ہوئی اور 8-11-2010
کوسیشن جج نے اسے جرم کا مرتکب قرار دیا اور اسے زیر دفعہ 295-C تعزیرات
پاکستان کے تحت سزائے موت مع جرمانہ ایک لاکھ روپے کی سزادی ۔ اس فیصلہ کے
خلاف ہائی کورٹ لاہور میں اپیل کی گئی اور لاہور ہائی کورٹ نے تاریخی فیصلہ
صادر کرتے ہوئے اس فیصلہ کی توثیق کردی۔ فاضل ججز جسٹس سید شہباز علی رضوی
، جسٹس محمد انوارالحق لاہور ہائی کورٹ نے لکھا کہ مندرجہ بالا جن امور کے
متعلق گفتگو کی اور بحث کی گئی اس کے مطابق فوجداری اپیل نمبر 2509 سال
2010 مسترد کردی گئی اور اپیل کنندہ آسیہ مسیح کو دی گئی سزائے موت کی
توثیق کی گئی یہ تاریخ فیصلہ 16 اکتوبر2014 کودیاگیا۔ بائیس جولائی دو ہزار
پندرہ کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے توہین رسالت کیس کی مجرم آسیہ بی
بی کی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا تھا۔ 8اکتوبر2018کوچیف جسٹس سپریم
کورٹ جسٹس ثاقب نثارکی سربراہی میں قائم بینچ نے فیصلہ محفوظ کیاتھا
جو31اکتوبرکوسنایاگیا
آسیہ مسیح کیس کی فیصلے کی ٹائمنگ نے بہت سے سوالات اٹھادیے ہیں سب سے پہلے
تویہ اعتراضات اٹھایاجارہاہے کہ آج سے 89سال قبل اسی دن عاشق رسول غازی علم
دین کوپھانسی کے پھندے پرلٹکایاگیاتھا جس کے بعد مسلمان ہرسال
31اکتوبرکوغازی علم دین شہیدکے حوالے سے تقریبات ،جلسے اورجلوس منعقدکرتے
ہیں اسی دن مبینہ طورپرگستاخ رسول آسیہ مسیح کوتوہین رسالت کیس سے بری کرکے
اس د ن کی اہمیت کومتنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے ؟اورمسلمانوں کے دلوں
سے اس دن کے حوالے سے جواحترام ہے اسے ختم کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی ہے
؟اس کے ساتھ ساتھ یہ فیصلہ ایسے وقت بھی کیاگیا ہے کہ جب وزیراعظم پاکستان
عمران خان چین کے انتہائی اہم دورے پرروانہ ہورہے ہیں ظاہرہے کہ اس فیصلے
سے قوم سراپااحتجاج بن گئی ہے یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیوں دیاگیاکہ جب ملک
کی معاشی حالت انتہائی ابترہے اس فیصلے سے ملک میں جوافراتفری پھیلے گی اس
کاذمے دارکون ہوگا؟
2014 سال سے یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں تھا ایسے وقت میں کیوں دیاگیا جب نئی
حکومت کوقائم ہوئے صرف دو ماہ ہوئے ہیں اوروہ مختلف بحرانوں میں پھنسی ہوئی
ہے ایسے وقت میں ایک اورایسافیصلہ آگیاکہ حکومت مزیدایک اوربحران میں پھنس
گئی ہے اس فیصلے سے پیداہونے والے سوالات کے جوابات نہایت اہم ہیں وقت آنے
پرشایدتمام سوالوں کاجواب مل سکے ؟ |