کچھ دور جدید کے بقراطوں کے نام

دور خاضر میں الیکٹرانک میڈیا پھیل رہا ہے جبکہ پرنٹ میڈیا سکڑ رہا ہے پہلے والے نے خبر اور تبصرے کسی واقعہ کے ظہور پذیر ہونے کے بعد فوراً سکرین پر آ جاتا ہے جبکہ پرنٹ میڈیا میں یہ رپورٹ اگلے دن پڑھنے کو ملتی ہے مگر سوشل میڈیا نے بھی اس میں سرعت پیدا کر دی ہے مشرف کے عہد میں نیو ورلڈ آرڈر کے تحت نجی چینلوں اور ریڈیو کے لائسنس دیئے گئے جن کو چلانے کیلئے ماہرین کی ضرورت تھی لہذا یونیورسٹیوں میں جرنلز ما ور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے کورس متعار ف کروائے گئے ، طلباء اور طالبات نے نئے شعبوں کو جوائن کیا اور آج ان اداروں میں ملازمتیں کر رہے ہیں دیکھنا یہ ہے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی یلغار سے ہمارا سماج کتنا تبدیل ہوا ہے تو معلوم ہوگا ہم نے ترقی معکوس کی ہے جنرل ضیاء الحق کے عہد میں تعلیم اور صحافت کے کے شعبہ پر دائیں بازو کے دانشور استاد اور لکھاری قابض ہو گئے جنہوں نے آمر کے نظریاتی کو بڑھانے کیلئے تحریریں ادبی پروگرام اور شاعری کو فروغ دیا جس میں مذہبی دیکھاوا ، رجعت پسندی، تعصبات اور مذہبی فرقہ پرستی شامل تھی آج بھی اس عہد سے نظریاتی ہم آہنگی رکھنے والے فوج اور سیاسی تعلقات کے حوالہ سے اظہار رائے کرتے ہیں مگر ضیاء عہد کے کلچر اور سماج میں ابھرنے والے تضادات کے نقصان کے بارے میں کچھ نہیں کہتے ہیں انہیں ایوب خان کی اعتدال پسندی پسند نہیں آتی ہے نہ ہی بھٹو کی آزاد خیالی سے متاثر ہیں بلکہ انہیں پیپلز پارٹی اور سیکو لر قیادتوں سے چڑ ہے وہ انہیں نظریہ پاکستان کا مخالف قرار دیتے ہیں جس تیزی کے ساتھ میڈیا کے چینلوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے پروگرام جو کہ بیشتر سیاسی مباحثے ہوتے ہیں تو ان کیلئے اینکروں تجزیہ نگاروں اور مبصروں کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا ہے ملک کے بڑے مقبول چینلوں پر وہی مخصوص چہرے جس میں سیاسی جماعتوں کے نمائندے ریٹائرڈ اور سول بیور و کریٹس دیکھائی دیتے ہیں جوکہ اپنی پارٹی کی گائیڈ لائن کے مطابق پالیسیوں اور حکومتی ناکاموں کا رونا رو رہے ہوتے ہیں جبکہ سالوں سرکاری اور دیگر ملازمتوں میں گزارنے والے نام اور قیادت کی حامیوں کے بارے میں کچھ کہتے نہیں رہے ہیں شائد انہیں یہ نقاص اقتدار میں رہتے ہوئے دیکھائی نہیں دے رہے تھے ۔اور نہ ہی اس کی اصلاح کیلئے دور اختیارات میں کوئی اقدامات اٹھائے ہیں ٹی وی پروگراموں میں حصہ لینے والے بیشتر لوگ ماضی میں پالیسی ساز اداروں کا حصہ رہے ہیں اور انہوں نے اپنے دور اختیار کے دوران ان پالیسیوں کی تعریف کی ہے جنہیں اب وہ ریاست کیلئے مضر قرار دے رہے ہیں ۔

بد قسمتی سے الیکٹرانک میڈیا پر نظر آنے والے دور جدید کے بقراط خود کو تمام ریاستی سیاسی ، سماجی اور معاشی امور کا ماہر قرار دیتے ہیں اور اپنی ختمی رائے سے نوازتے رہتے ہیں حالانکہ ان میں سے اکثریت نے ان شعبوں نے حوالہ سے کسی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل نہیں کی ہے اور نہ ہی ان کا عمیق اور گہرا تعلق کیا ہے وہ سطحی اور غیر سنجیدہ گفتگو کرتے ہیں دوسری طرف ملک کی پالیسی میں بیورو کریسی کا اہم کردار ہے ہمارے 90%منتخب نمائندے مطلوبہ تعلیمی قابلیت اہلیت نہ رکھنے کی وجہ سے ان کے مشوروں پر انحصار کرتے ہیں بیورو کریٹس ان کی کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں یہی وجہ ہے آج ہماری ریاست قیادت کی نا اہلیت کے بحران سے دو چار ہے ہمارے سول اور فوجی حکمرانوں نے کبھی تھینک ٹینکس بنانے اور ان میں متعلقہ شعبوں کے ماہرین کو شامل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے جو کہ پاکستان کے سماجی اور معاشی تناظر میں بہتر پالیسیاں بنانے کیلئے مشورہ دے سکیں ہمارے تعلیمی نصاب بالخصوص تاریخ سیاست اور سماجیت انہی کے تیار کردہ ہیں ۔ جنہیں ایک نقطہ نظر کے تحت ترتیب دیا گیا ہے یہی وجہ ہے ہم تاریخ کو درست تناظر میں جاننے کے قابل نہیں ہیں بلکہ تمام عمل نظریاتی حوالے سے یکطرفہ ہے مذہبی انتہا پسندی اور جہادی کلچر کے بیانیہ کا متبادل پیش کرنے والے کمزور بنیادوں پر کھڑے اور اس ضمن میں ریاستی رٹ کو سختی سے منوانے میں ناکام ہیں آج ریاست کے اہم اداروں کو ریاست کے انتہا پسندوں کی طرف سے تنقید اور دھمکیوں کا سامنا ہے ہمارا میڈیا اپنی ریٹنگ کے چکر میں یکطرفہ دائیں بازو اور کارو پوریٹ طبقات کے مفادات کا تحفظ کرنے والے تجزیہ نگاروں کو پروگراموں میں جگہ دیتا ہے یوں بھی ہماری تمام بڑی سیاسی جماعتیں کارپوریٹ شعبہ کی پالیسیوں کی حامی اور حمایت کرتی ہیں جبکہ ٹی وی کے پروگراموں میں معیشت کی بہتری عوامی حاکمیت روا داری ، مساوات عقل اور شعوری ابھار کے حوالے سے باتیں کرنے والوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے یہی صورتحال اخبارات کی ہے جہاں پر ایک ہی سمت میں تقریریں چھاپی جاتی ہیں کبی کبھی روایتی نظریات اور ڈھنک ٹپاؤ کے مشوروں کے بر عکس ملک کے چند کالم نگار دانشور محمود شام آئی اے رحمان، حسین نقی، ڈاکٹر لال خان ، مقتدرہ منصور، امتیاز عالم،سلیم صافی، عائشہ صدیقہ اور کشور ناہید کی تحریروں میں نظر آ جاتی ہے جو کہ تاریخ معیشت اور ریاست کے تاریخی تناظر اور سماج میں پیدا ہونے والے اتار چڑاؤ تحریکوں کے منظوری پس منظر میں حقائق کی روشنی میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔

دور جدید کے سیاست دان جن میں نواز شریف اور عمران خان وغیرہ شامل ہیں ان کے بیانات اور طرز عمل میں کوئی پختگی نہیں دیکھائی دیتی ہیں ایک نے تو ریاستی اداروں کی محاذ آرائی میں اپنی سیاسی زندگی کیلئے گنجائش نکالنے کی کوشش کی ہے جبکہ عمران خان ریاست اور اداروں کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے ان جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اہم راہنما شعور و فکر کی اس اس معراج پر نہیں ہے کہ وہ اپنی فہم و فراست سے ملک کو ثقافتی اور معاشی اور سماجی بحرانوں سے نکال سکیں پیپلز پارٹی کے راہنما تاریخ سیاست اور دور حاضرہ کے مسائل کے بارے میں کچھ سوچ رکھتے ہیں مگر ان پر کرپشن کے الزامات ہیں یہی صورتحال عوامی نیشنل پارٹی کی ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی نئی قیادت بلاول بھٹو زرداری تعلیم یافتہ اور سیاسی و خارجی مسائل کے حوالے سے فہم و فراست رکھنے والا نوجوان ہے اگر آصف زرداری اس کو آزادانہ طورپر پارٹی امور سنبھالنے کی اجازت دیں تو وہ یقینا ان بحرانی کیفیات سے نکالنے میں خوصلہ افزائی پیش رفت کر سکتا ہے ۔

علم و دانش کی منڈی میں اور بھی کئی دانشور ہیں جو کہ عملی سیاست کا حصہ نہیں ہیں مگر تحریروں کے ذریعہ سماج کے سدھار میں حصہ ڈالتے ہین کچھ تو محض سوشل میڈیا تک محدود ہو چکے ہیں ان میں اشفاق سلیم مرزا ، شاہین مفتی ، فاروق طارق، اور فرخ سہیل گوندی وغیرہ شامل ہیں جو کہ پسے طبقات کو روشنی اور بہتری کی امید دلاتے رہتے ہیں جبکہ مارکیٹ اکنامی کے نیو لبرل ایجنڈا ماہر معاشیات ڈاکٹر عثمان حسن ، سلیمان شاہ، ڈاکٹر عشرت حسین اور ڈاکٹر فرخ سلیم وغیرہ کو قومی خزانہ خالی دیکھائی دیتا ہے جس کی ذمہ داری سابق حکومت پر ڈال دیتے ہیں ، بات یوں ہے ہم نے قرضوں کو غلط ترجیحات اور غیر پید ا واری کاموں میں استعمال کر کے خود کو اس کے شکنجے میں جکڑ لیا ہے اس کی مثال ایسے دکاندار کی ہے جو کہ کاروبار چلانے کیلئے قرضے تو لے لیتا ہے مگر اس کو منافع نہیں ملتا ہے جس سے وہ قرضے واپس کر سکے یہی صورتحال ہماری ریاست کی ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف اور دیگر اداروں نے وقتی طور پر ملک کی معیشت کو سہارے دینے کیلئے قرضے دیئے تھے مگر ہم معیشت کی اصل بنیاد صنعت کاری اور کاروبار کو فروغ دینے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے آج ہم قرضہ جاتی شکنجہ میں جکڑے جا چکے ہیں یہ باتیں سن کر دل بیٹھنے لگتا ہے کثیر الجہتی بحران سے نکلنے کی راہ نہیں سجائی دیتی ہے آج ہمیں تاریخ سیاست اور معیشت کے ماضی اور مستقبل کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے ہم تجزیہ بحث استعدلال اور منطق کو بھول چکے ہیں ہمیں قائد اعظم کی وہ تقریر نہیں سنائی جاتی جس میں رشوت کو برا کہا گیا ہے آئین اور قانون کی بالا دستی کی بات کی گئی ہے پاکستان میں کرپشن کا سلسلہ قیام پاکستان کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا اور ابھی تک جاری ہے ہم لوگ بوڑھے ہو چکے ہیں اور نظام کیلئے طویل جدو جہد کر کے تھک چکے ہیں اب یہ تمام باتیں محض رومانیت مخصوص ہوتی ہیں نئے مضامین نے یونیورسٹیوں میں جگہ لے لی ہے کیونکہ جدید ٹیکنالوجی اور ایجادات کا دور ہے انسانی رویوں کو بہتر سمجھنے والے علوم فلسفہ، تاریخ، سیاست، اور سماجیت کی سرمایہ کی منڈی میں کوئی اہمیت نہیں ہے نہ ہی نئی نسل سیاست اور ثقافت کے بارے میں جاننا چاہتی ہے لہذا ہمیں اس دور جدید کی بقراطوں کی باتیں سننے اور بریکنگ نیوز پر گزارا کرنا پڑے گا اگر ہماری ریاست نے اپنی رٹ منوانے کیلئے سخت اقدامات نہ کئے مستقبل میں بہتری اور ترقی کی امیدیں ماند پڑ جائیں گی۔

Iftikhar Bhutta
About the Author: Iftikhar Bhutta Read More Articles by Iftikhar Bhutta: 7 Articles with 7065 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.