موجودہ بلدیاتی نمائندے 25دسمبر 2016کو ہونے والے بلدیاتی
انتخابات کے نتیجہ میں منتخب ہوئے ہیں الیکشن خواہ کوئی بھی ہو اس میں حصہ
لینا کسی بھی عام فرد کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے الیکشن لڑنے کیلیئے سرمائے
کے ساتھ ساتھ افرادی قوت کی بھی بڑی شدت سے ضرورت ہوتی ہے بہت سارے اخراجات
بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں دن رات ایک کر کے سخت محنت کے بعد کوئی بھی
امیدوار کہیں جا کر کامیاب ہوتا ہے اتنی مشکل سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد
بھی اگر منتخب شدہ نمائندوں کو خاطر خواہ نتائج نہ مل سکیں تو ان کو سخت
مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ن لیگ نے اپنے دور حکومت میں بلدیاتی اداروں
کو بہت زیادہ ترقیاتی فنڈز دیئے ہیں اور کام بھی ان کے زریعے سے ہی کروائے
ہیں سابقہ گورنمنٹ نے ان اداروں کو بہت زیادہ اہمیت دیئے رکھی تھی ن لیگ نے
بلدیاتی اداروں کے زریعے کام کروائے بھی بے شمار ہیں اور ان سے کام لیئے
بھی بہت زیادہ ہیں چھوٹی سطح پر عوام سے بہترین رابطے کا زریعہ بھی یہی
ادارے ہیں جب سے پاکستان تحریک انصاف نے حکومت سنبھالی ہے بلدیاتی ادارے
بلکل غیر فعال ہو کر رہ گئے ہیں بلکہ ایسا محسوس ہو رہا کہ یہ ادارے سرے سے
ختم ہی کر دیئے گئے ہیں ان کا کوئی وجود ہی باقی نہ رہا ہے یہ بات قابل
تسلیم ہے کہ موجودہ بلدیاتی نمائندے ن لیگ کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوئے ہیں
اور اس کے حمایت یا فتہ بھی ہیں اور زیادہ تر منتخب نمائندوں کا تعلق بھی ن
لیگ ہی سے ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز یہ نہیں ہے ان کو بلکل بے یارو
مددگار چھوڑ دیا جائے حکومت کو چاہیئے کہ بجائے نئے انتخابات کروانے پر غور
و خوض کرے بلکہ انہی اداروں میں نئے اصطلاحات لا کر ان کو پھر سے فعال
بنائے اور ان سے کام لینا شروع کرے ہاں یہ الگ بات ہے کہ ان پر اس بات کی
سختی سے پابندی ہونی چاہیئے کہ وہ کسی بھی دوسری پارٹی کو پروموٹ کرنے کی
کوشش نہ کریں بلکہ غیر جانبداری سے اور قوانین کے مطابق حکومتی نپالیسیوں
پر عمل پیرا رہ کر اپنے کام کریں ان کو کچھ نئے زمہ داریاں سونپ دی جائیں
جن کا سیاست سے کوئی دور دور تک تعلق ہی نہ ہو وہ پنے کاموں میں لگے رہیں
چلیں اگر حکومت ان کے زریعے کسی بھی قسم کے ترقیاتی کام نہیں بھی کروانا
چاہتی ہے تو نہ سہی مگر ترقیاتی کاموں کے علاوہ بھی بہت سارے کام ہوتے ہیں
جو یہ بخوبی انجام دے سکیں گئے ایسا کرنے سے ان کے دلوں حکومت کیلیئے جہگہ
بنے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ حکومتی پالیسیوں سے متاثر ہو کر ان میں سے
بہت سارے پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بھی بن جائیں جس سے پی ٹی آئی کو
سیاسی فائدے حاصل ہو سکیں گئے اور اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو گا عوام
نے ان کو ووٹ دے کر منتخب کیا ہے عوام ان سے اپنے کام کے مطالبات کرتے ہیں
جس کا ان کے پاس سوائے شرمندگی کے کوئی جواب ہی نہیں ہے اب توان کو ہر طرف
سے طعنے ہی مل رہے ہیں کوئی بھی ایسا کام یا کوئی بھی ایسے حالات نہیں ہیں
جن کو سامنے رکھ کر وہ اپنی عوام کو مطمئن کر سکیں ان کو اگر ختم کر دیا
جاتا ہے تو بھی حکومت کیلیئے بہت سے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ایک تو بے
شمار اخراجات اٹھانے پڑ جائیں گئے دوسرا اگر پھر بھی اس حوالے سے حکومت کو
اپنے حمایت یافتہ نمائندے نہ مل سکے تو سوائے وقت کے ضیاع کے کچھ بھی نہ مل
سکے گا لہذا بات یہاں پر ہی ختم ہو سکتی ہے کہ موجودہ نظام کو ہی چلنے دیا
جائے اور اس میں نئی جدت لا کر اس کو قابل عمل بنایا جائے تو اس سے بہت
ساری مشکلات کے حل میں مدد مل سکتی ہے نیز اس سے پہلے سے موجود نمائندوں کی
عزت نفس بھی محفوظ رہے گی اور حکومتی امور بھی بطریق احسن چلتے رہیں گے - |