آسیہ سے عافیہ تک

میرے کارواں میں شامل کوئی کم ظرف نہیں ہے
جو نہ مٹ سکے حرمت رسول پروہ میراہمسفرنہیں ہے
آج تین دن سے ملک کے جو حالات ہورہے ہیں کراچی سے لاہور،ملتان سے بہاولپور،اسلام آباد بلکہ پوراپاکستان ہی سیل ہوکررہ گیا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک شدیدمتاثرہوئی بلکہ میرے کچھ دوستوں نے بتایا کہ وہ لاہورکسی کام سے آئے تولاہورہی رہنے پرمجبورہوگئے کوئی جاننے والا کراچی گیا تو وہاں سے نکل نہ سکا کسی نے اسلام آبادکی راہ لی تو اسے واپسی کی راہ نہ ملی جس وجہ سے کئی لوگوں کوتکالیف اٹھانی پڑیں اس کے علاوہ جھگڑوں میں کئی لوگ زخمی توکئی لوگوں نے موت کوگلے لگای اوردرجنوں لوگ گرفتارہوئے جس کی وجہ سے مجھے قارائین نے اس پرآرٹیکل لکھنے کوکہا ایک دوست نے مجھے میسج کیا کہ کس کوحق حاصل ہے کہ نبی کریم ﷺ کی امت کو تکلیف دے حالانکہ آپ نبی کریم ﷺخود لوگوں سے پتھرکھاتے مگرکبھی کسی کوتکلیف نہ دی بلکہ تکلیف دینے والوں کیلئے دعاکرتے ۔حضرت عمرفاروق راضی اﷲ عنہما کے بارے میں روایت ہے کہ ایک دن انہوں نے کعبہ کو دیکھ کے کہا کہ اے کعبہ آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے اورتیرامقام کتنا بڑاہے مگراﷲ پاک کے نزدیک مومن کا مقام تجھ سے بھی بڑاہے (رقم الحدیث2030،ترمذی)۔2009جون میں آسیہ پرکھیتوں میں کام کرنے والی کچھ عورتوں نے الزام لگایا کہ آسیہ نے آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے جس کی وجہ سے 2010میں ٹرائل کورٹ نے آسیہ کیس پر سزائے موت سنائی کیونکہ گستاخ رسول کی سزا۔۔سرتن سے جدا۔آسیہ نے 2014میں لاہورہائی کورٹ کا رجوع کیاتو آسیہ کی درخوست مستردکرتے ہوئے عدالت نے سزائے موت کی سزا برقراررکھی اس کے بعدانصاف کی بڑی عدالت میں آسیہ نے 2016میں درخواست جمع کرائی اوراس کیس کی سماعت میں ایک جج نے اس کیس پر آنے سے انکارکردیااسی سال 8اکتوبر2016کو3رکنی بینچ نے تقریباً گھنٹے بخث کے بعدفیصلہ محفوظ کرلیا گیاآسیہ کیلئے پاکستان بھرسے اپیلیں آئی جس کی وجہ سے ماضی کے گورنرسلمان تاثیرکو ان ہی گارڈ نے ہی قتل کردیاکیونکہ انہوں نے آسیہ کی حمایت کی تھی آسیہ کے مقدمہ کے مدعی قاری سالم نے کہا کہ آسیہ نے ٹرائل کورٹ میں اپنا جرم مانا تھا کہ ان سے گستاخی ہوئی ہے عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں قراردیاہے کہ کوئی شخص چاہے وہ توہین رسالت جیسے جرم کا مرتکب ہی کیوں نہ ہوآئین میں درج مروجہ شفاف طریقہ سماعت کے بعدگناہ گارثابت نہیں ہوجاتاہرشخص کوبلا امتیازذات پات ،معصوم اوربے گناہ تصورکیا جائے گا۔یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ سزا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے اس فیصلے کے بعدسوال یہ اٹھتے ہیں کہ کیا آسیہ کو تحفظ ملے گا؟ کیا ان کے خاندان کو لوگ معاشرے میں برداشت کریں گے اورجو آسیہ کا وکیل تھا اسے پروٹیکشن ملے گی؟آسیہ کی رہائی کا تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس ثاقب نثار جبکہ اضافی نوٹ سینئرجج آصف سعیدکھوسہ نے تحریر کیا ہے یہ فیصلہ اس بات کی دلیل ہے کہ اکثرایسے پروپگینڈے بنائے جاتے ہیں مگرتوہین رسالت کی سزاصرف سزائے موت ہے مگرمشعال کیس اورایوب مسیح کیس کو دیکھ کے یاد آتا ہے کہ کچھ نامنہاد مسلمان اپنی ذاتی دشمنی کیلئے ایسے بیانات دیتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں لوگ اسلام سے اورمسلمانوں سے ڈرنے لگے ہیں میری ایک دوست سے ملاقات ہوئی تواس نے آسیہ کے متعلق اتنا کہا کہ میں آسیہ پراورتوکچھ نہیں کہنا چاہتا مگرہمارے معاشرے میں ایک اہل تشیہہ کھل کے عبادت نہیں کرسکتا توجب درجنوں مسلمان ایک غیرمسلم کے خلاف بیان دیں گے توفیصلہ تواس کے خلاف جانا ہے ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے 28برس میں اسلام اور رسول نبی کریم ﷺ کے نام حوالے سے گستاخی کرنے کے الزام میں 62لوگوں کوفیصلے سے پہلے ہی قتل کردیا گیااس قانون کی وجہ سے کئی بے گناہ لوگوں کو موت کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی عزت میں کمی ہورہی ہے پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاج اورمظاہرے کیے جارہے ہیں اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا قانون اسلامی طرز سے ہے اور اس پرکوئی سمجھوتہ نہیں مگرعوام کی تکلیف برداشت نہیں کریں گے سوشل میڈیا پرلوگ عمران خان اور چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف سازشوں میں لگے ہوئے ہیں سننے میں آیا ہے عمران خان نے دورا چین پرجانے سے پہلے اس آپریشن کا ذمہ چیف آف آرمی سٹاف کودیا ہے جس سے امیدہے کہ معاملات بہترہوں گے۔ اپنے قارائین کو آسیہ کی بریت بارے بتاتاچلوں جس کی چاروجوہات ہیں جس کے بارے میں 1۔ایف آئی آر جمع کرانے میں دیرجس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں2۔گواہان کے بیان میں عدم مطابقت3۔آسیہ کے غیرعدالتی اعتراف جرم4۔آسیہ پرلگائے گئے الزامات کی صحت اور ان کے ماحول کے تناظرکونظراندازکرنا۔ملزمہ نے 2010میں عدالتی بیان میں کہا تھا کہ مسلمانوں نے اسلام قبول کرنے کیلئے دباؤ دیا جس پرمیں انکارکیا توانہوں نے توہین رسالت کا الزام لگا دیا ہے 2010میں جب آسیہ کو سزائے موت کی سزاسنائی گئی توپاکستان میں سزائے موت کی یہ پہلی خاتون تھیں ۔میں اپنی قارائین سے صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہہ ایک عورت کہہ رہی ہے کہ میں نے توہین رسالت ﷺ نہیں کی تویہ دین کے نامنہاد محافظ کیوں تلے ہیں کہ وہ کہے کہہ میں نے رسول ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے اب ان احتجاج کی وجہ سے جتنے لوگ ٹریفک میں خوارہوئے جو موت کے گھاٹ اتارے گئے ان کے خون کا ان کی تکالیف کا کون ذمہ دارہے یٹ سکولوں کی طرح صرف بزنس بن گیا ہے لوگ جائیں بھاڑ میں پر ان کو اپنے بزنس کی ہے ہمارے ملک میں اگرمہنگائی ہوتی ہے پیٹرول مہنگا ہوتا ہے تو لوگ واویلا کرتے ہیں سڑکیں بلاک کردیتے ہیں مگر عافیہ کی وجہ سے پاکستانی عوام کی خاموشی بھی سوالیہ نشان ہے ۔ قارائین کوبتاتاچلوں کہ ڈاکٹرعافیہ صدیقی وزن 110کلوانکی پیدائش 1973کوکراچی میں ہوئی تھی اور انکے بالوں کا رنگ براؤن ہے اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے امریکہ کے فوجیوں سے بندوقیں چھین کر ان پر فائرنگ کی مگرہمارے ملک کے حکمرانوں نے امریکہ سے کبھی اس معاملہ پر کھلم کھلا بات نہیں کی کیونکہ جو بھی حکمران بنتا ہے اپنی عیاشی میں مست ہوکر سب کے ساتھ اس معصوم پاکستانی بیٹی کو بھی بھول جاتے ہیں حکمران تو پاکستان کے ہوتے ہیں مگرایسے لگتا ہے جیسے پانچ سال کیلئے امریکہ کے غلام ہوں اور جی حضور کی رٹ لگائی ہوتی ہے جنرل عائشہ صدیقی نے جب عافیہ سے ملاقات کی تواس کے باد بتایاکہ عافیہ پر جسمانی تشدد اور جنسی ہراسانی کی تصدیق ہوئی اور باقی رپورٹ کو خفیہ رکھا گیا اور کہا گیا اسی وجہ سے عافیہ غنودگی میں رہتی ہے ۔پہلے تو میڈیا پر کبھی کبھار عافیہ کے حوالے سے کوئی خبردیکھنے اور سننے کو مل جاتی تھی مگر الیکشن کی وجہ سے وہ خبریں بھی دب کررہ گئیں عافیہ پر جنسی،جسمانی ،ذہنی تشددکی خبروں کی تردیدیاتنقیدکی ضرورت نہیں کیونکہ صرف عافیہ کی رہائی کی ضرورت ہے مجھے یاد پڑتا ہے کہ امریکہ کے صدربارک اوبامہ نے خط بھیجا تھا کہ پاکستان کے صدر،وزیراعظم،وزیرخارجہ کہہ دیں کہ عافیہ پاکستانی ہے تو میں اس کی سزامعاف کردوں گامگرہمارے ملک کے بے حس حکمران خط کے جواب میں ایک سطر کیا کوئی بیان تک نہ دیا اور چپ سادھ لی ۔جہاں حکمرانوں نے چپی لی وہاں ہمارے عدلیہ نے بھی ہاتھ کھڑے کرلیے ویسے تو ہماری عدلیہ اتنی مضبوط ہے وقت کے وزیراعظم کو جیل میں ڈال دے اسمبلیاں تحلیل کردے وزیراعظم صدرکو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دے مگرعافیہ کے معاملہ پر چیف جسٹس کی تین رکنی بنچ میں درخواست گزار نے کہا کہ پاکستانی شہری کے حقو ق ہیں تو امریکہ عدالت میں دعویٰ دیرکریں تو میاں ثاقب نثار کے ریمارکس تھے کہ ہماری عدالتیں امریکہ میں عافیہ کے معاملے پر کردارادانہیں کرسکتی اور ہماراحکم امریکی عدالتوں نے اٹھا کے پھینک دیا تو ہماری عزت خاک میں مل جائے گی میں سوچتا ہوں اتنی مضبوط عدلیہ اور امریکہ کے سامنے بے بس ....صدافسوس۔مشرف کی نااہلی اور حماقت کی وجہ سے عافیہ کو 2003میں افغانستان لے جایا گیا اور میڈیا پر عافیہ کو یہ کہہ کردہشتگردقراردیا جاتا ہے کہ اس نے زخمی حالت میں M-4گن سے امریکہ کے فوجیوں پر حملہ کیا جس کی وجہ سے انہیں ۔2009میں امریکہ لے جایا گیا اور آج تک ان پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں 2010میں امریکی قانون کے مطابق امریکی فوجیوں پر قاتلانہ حملہ کرنے کی وجہ سے انہیں 88سال قید کی سزاسنائی اور انہیں 6فٹ لمبی اور6فٹ چوڑی کوٹھڑی میں رکھا گیا ہے حکومت میں آنے سے پہلے عمران خان نے عوام سے وعدہ کیا کہ اقتدارمیں آکرعافیہ کو پاکستان لانا میری پہلی ترجیح ہوگی مگرآج تک وعدہ وفا نہ کیا شایدامریکہ کے آگے ہمارے حکمران اتنے بے بس کیوں ہیں سمجھ نہیں آتی اگرعافیہ کو مجرم سمجھا ہوا ہے تو اسے جو سزا وہاں ملی ہے وہ سزا اپنے ملک میں لے آنے کے بعدپوری کرائی جا سکتی ہے جس میں قانونی کاروائی کرکے پاکستان اپنے شہری کو لے آئیں شایدامریکی غلامی کے آگے بولنے کا فقدان ہے جیسے ایک ساتھ مظاہرے اور احتجاج ہوئے اگراب ویسے ہوں تو شاید عافیہ کو ملک واپس آنے میں دیر نہ لگے گی مگراس احتجاج کے بعد ہمارے ہی لوگوں میں یہ بات بٹھا دی گئی کہ عافیہ دہشتگردہے اگرہم اپنے ہی لوگوں کو خود دہشتگرد کہیں گے تو لوگ کیسے چپ رہ سکتے ہیں ۔ہم نے احتجاج تو کیے مگرکبھی اپنی پبلیسٹی کیلئے تو کبھی شغل میں اگرہم دوبارہ احتجاج کریں اور دل سے کریں تو شاید عافیہ ہم شرمندہ ہیں کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑے ویسے دیکھا جائے توآجکل جتنے احتجاج ہورہے ہیں ہرکوئی اپنی سیاست چمکانے کیلئے آیاہوا ہے ورنہ رضوی جیسے لوگوں کو اسلام کی تبلیغ کیلئے نکلنا چاہیے نہ کہہ لوگوں کو ذلیل وخوارکرنے کیلئے آج پاکستان کے ساتھ لاہور میں بھی ذلت ہے جہاں 20منٹ لگتے ہیں وہاں 4گھنٹے کا سفرہے میرے بھائی نے ایمرجنسی میں گھرجانا تھا تووہ لاہورسے ملتان رکشے پرگیا ہے جس کی وجہ سے ایسے کئی لوگ لائنوں میں پھنسے ہوئے ہیں لہٰذا میں اپنی حکومت، سپریم کورٹ اورفوج پراعتمادکرتاہوں اسی لیے عوام سے بھی گزارش کروں گا کہ خداراخدارا اگرآسیہ کہتی ہے کہ میں نے گستاخی نہیں کی تواسے زبردستی مجبورنہ کریں کہ وہ گستاخ رسول ﷺ بنے جس کے یقیناً آپ لوگ ذمہ دارہوں گے اورعافیہ کو قید سے رہائی کیلئے اپنی خاموشی توڑیں۔ایک شعرعافیہ کے نام:
ہے انتظارمجھے جنگ ختم ہونے کا
لہو کی قیدسے باہرکوئی بلاتا ہے

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 288 Articles with 197231 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.