آسیہ ملعونہ کی رہائی

تحریر: انیلہ افضال
’’آپ سے توہین عدالت برداشت نہیں ہوتی ، ہم توہین رسالت کیسے برداشت کر لیں‘‘۔
یہ ہیں وہ تاریخی الفاظ جو ایک کافر کی عدالت میں ایک سچے عاشق رسول نے کہے تھے۔ ایک فاضل عدالت کا جج اور حاکم ہونے کے باوجود اس کی زبان تالو سے چپک گئی تھی مگر قلم حرکت میں تھا اور اس قلم نے اس سچے عاشق رسول کے لیے موت کی سزا لکھ دی تھی مگر نہیں جانتا تھا کہ ’’شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے ‘‘۔ اس جنبش قلم کے نتیجے 31 اکتوبر کو یہ فرزند اسلام پھانسی پر لٹک گیا پھندے کو چوم کر وہ شہادت کے اعلیٰ ترین منسب پر فائز ہو گیا اور ہر سال شمع رسالت کے پرونے اس کی برسی انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ مناتے رہے ہیں ۔

آنے والے وقتوں میں مؤرخ لکھے گا کہ اس خطہ ارض پر جدید دور میں ، جب کہ دنیا سمٹ کر گلوبل ویلج بن گئی تھی، ایک بار پھر 31 اکتوبر آئی تھی۔ ایک بار پھر ایک عدالت لگی تھی۔لیکن اس دن کی عدالت اس وقت کی عدالت سے مختلف تھی۔اس عدالت میں جج مسلمان بھی تھا۔ وہ عدالت ملک خداداد پاکستان کی تھی کہ جس کا وجود ہی اسلام کے نام پر تھا اس دن اس عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہوا کوئی عاشق رسول نہیں تھا، کوئی مسلمان نہیں تھانہ ہ ہی کوئی کلمہ گو تھا۔ بلکہ ایک نوجوان آسیہ ملعونہ تھی۔ جس نے مقصود کائنات، محبوب خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی تھی۔

مگر جب فیصلہ ہونے لگتا ہے تو،قلم بک جاتا ہے، قانون ٹوٹ جاتا ہے۔ انصاف کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں، ایمان کی بولی لگ جاتی ہے۔ ضمیر کو چند ٹکوں کے عوض بیچ دیا جاتا ہے۔ہاں آج کے دن ایک ملعونہ آسیہ کو ہماری عدالت بری قرار دیتی ہے۔ آج کے دن گستاخوں کو آزادی دے دی جاتی ہے۔ کفر کے لیے رول ماڈل بنا کر پیش کردیا جاتا ہے۔ اپنے ایمان کی حقیقت دکھا دی جاتی ہے کہ ہم آج وہ لوگ نہیں جو آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی خاطر تن من دھن قربان کردیں بلکہ ہم تو چند ٹکوں میں بک جاتے ہیں۔

آہ!آج قبر میں پڑی اس لوہار کے بیٹے کی روح تڑپ اٹھی ہوگی۔ وہ کہہ رہا ہوگا کہ اے مسلمانوں میں نے آقا ﷺکی ناموس کا تحفظ اپنی جان دے کر کیا تھا۔ تمہارا قلم بھی آقاﷺ کی ناموس کے لیے نہ چل سکا۔ یقیناً آج سے تقریبا80 سال پہلے 31 اکتوبر کو مسلمان یہی سوچتے ہوں گے کہ ہماری اپنی حکومت نہیں اس لیے ہمارے غازی کو پھانسی ہوئی۔افسوس! آج ہم یہ بھی نہیں کہ سکتے کہ ہماری اپنی حکومت نہیں اس لیے ملعونہ بری ہوئی ۔

سید کفایت اﷲ کافی علیہ الرحمہ کو انگریز حکومت جب گستاخ رسول کو قتل کرنے کی پاداش میں تختہ دار پہ لٹکانے لگے تو آپ نے پھانسی کے پھندے کو تھام کر ایک پیغام دیا کہ ،
کوئی گل باقی رہے گا، نہ چمن رہ جائے گا
پر رسول اﷲﷺ کا دین حسن رہ جائے گا
ہم صفیرو باغ میں ہے کوئی دم کا چہچہا
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو
اس تن ِ بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا
نامِ شاہانِ جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں
حشر تک نام و نشانِ پنجتن رہ جائے گا
جو پڑھے گا صاحبِ لولاک کے اوپر درود
آگ سے محفوظ اس کا تن بدن رہ جائے گا
سب فنا ہو جائیں گے کافی ، ولیکن حشر تک
نعت حضرت کا زبانوں پرسخن رہ جائے گا

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142126 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.