لکڑی جل کوئلہ بھئی، کوئلہ جل
بھئیو راکھ
ہم دکھیا ایسے جلے کوئلہ بھئیے نہ راکھ
جی ہاں! آپ بڑھنے والوں کا حیران ہوتا درست بھی ہے اور لازم بھی، تحریر کا
موضوع اسقدر رومان پرور اور مضمون کا ابتدائیہ اتنا ہی المیہ!!! اور اس پر
سونے پہ سہاگہ یہ کہ دونوں کے مابین کوئی خاص ربط و تعلق بھی ہرگز دکھائی
نہیں دیتا۔ لیکن عزیرانِ من ان دونوں کے درمیان اتنا ہی گہرا تعلق ہے جتنا
گہرا ہماری نام نہاد اپوزیشن اور نکمی حکومت کے درمیان ہے جو چھپتا بھی
نہیں اور نظر آتا بھی نہیں! بقولِ شاعر:
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
لیکن اس خفیہ تعلق کو جاننے کیلئیے آپ کو ہمارے ساتھ ہمارے ماضی میں چلنا
ہوگا۔
یہ اس وقت کی بات ہے کے جب آتش کچھ ضرورت سے زیادہ ہی جواں تھا، جی ہاں اس
وقت ہماری عمر غالباً کوئی بیس بائیس برس رہی ہوگی اور چونکے اوائل عمری سے
ہی برادرم راشد اشرف کی طرح کتابوں اور لائبریوں سے کچھ عشق ہی سا رہا ہے
لہٰذا کبھی کبھار شام کو فرصت کے اوقات میں بناء نفع و نقصان کے تحت چلنے
والی ایک مقامی لائبریری میں اعزازی خدمات سرانجام دے دیا کرتے تھے۔ لگ بھگ
پنتیس چھتیس سال کے ایک صاحب باقاعدگی سے وہاں کتابیں لینے کی غرص سے آتے
تھے اور ہم انہیں ہمیشہ ہی انکل کہہ کر مخاطب کیا کرتے۔ ہمارے منہ سے لفظِ
انکل سن کر ان کے منہ کا ذائقہ جسطرح سے بدمزا ہوتا، اسکا اندازہ محض ان کے
چہرے کے تاثرات دیکھ کر ہی لگایا جاسکتا تھا۔
اب ایسا بھی نا تھا کہ ہم کوئی جان بوجھ کر انہیں انکل کہہ کر پکارتے تھے
اور اس بات کی تو بہت سے پڑھے والے خود گواھی دینگے کہ اس عمر میں آپ کو
جہاں کسی کے سر پر چاندی کا کوئی ایک تار بھی نظر آجائے تو وہ موصوف انکل
انکل اور اگر موصوفہ ہوں تو آنٹی آنٹی سی لگنے لگتیں ہیں اور نہ چاہتے
ہوئے بھی زبان سے انکل یا آنٹی کا قطاً غیر پارلیمانی لفظ نکل ہی پڑتا ہے
اب یہ اور بات ہے کہ آپ کی زبان سے بےدھیانی میں نکلا ہوا یہ بظاہر بےضرر
سا لفظ سننے والے کے دل و دماغ پر برچھی کی طرح سے جا لگتا ہے اور وہ محض
تلملا کر ہی رھ جاتا ہے۔
تو صاحبان، جیسے ایک لفظ ہوتا ہے انکل تو ایسے ہی ایک دوسرا لفظ بھی ہوتا
ہے، مکافاتِ عمل۔۔۔۔۔۔۔۔!!! جی ہاں یہ یقیناً مکافاتِ عمل ہی ہے کہ:
تینوں انکل انکل کیندا میں آپے انکل ہویا
ہمارے بچپن میں ریڈیو پاکستان سے اکثر و بیشتر احمد رشدی (مرحوم) کا گایا
ہوا ایک گیت بجا کرتا تھا:
جنٹلمین جنٹلمین میرا نام ہوگیا
یہ نام میرا لوگوں میں بدنام ہوگیا
اب بھی یہ گانا ہمارے کانوں میں گونجتا ہے لیکں کچھ یوں:
انکل مین انکل مین میرا نام ہوگیا
یہ نام میرا لوگوں میں بدنام ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ہمیں آج بھی یاد ہے کہ اپنے بچپن میں ہم جب بھی اپنے ننہال جایا کرتے تھے
تو ہمارے سارے ماموں زاد بھائی بہنیں جن میں سے سب سے چھوٹے بھی ہم سے عمر
میں کم از کم دس ایک برس بڑے تھے، تو کوئی ہمیں بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں
والا کہتا، تو کوئی گورے گورے گالوں والا کہہ کر ان کو اپنی دو انگلیوں میں
پکڑ کر انہیں پیار سے کیھنچتا، تو کوئی ہمیں ٹافیاں کھلاتا تو کوئی گود میں
اٹھا کر آئسکریم کھلانے کیلئیے چل پڑتا اور اب وقت کی ستم ظریفی تو ملاحظہ
فرمائیں جناب، حال یہ ہے کہ اگر ہم اپنے پیسوں سے بھی کسی کو آئسکریم
کھلانے کی دعوتِ عام دیں تب بھی غالباً ہمارے ساتھ کوئی چلنا گوارا نا کرے۔
یہ وقت بھی بھلا کتنی ظالم شے ہے، کسقدر جلد گزر جاتا ہے اور گزرتے گزرتے
انسان کے چہرے پر کیسے کیسے نقش و نگار ثبت کرجاتا ہے، لیکن جب یادوں کے
بند دریچوں کو کھول کر بیٹھیں تو ان سے اس گزرے ہوئے وقت کی معطر و مدھر
خوشبویں ہواؤں کے دوش پر کچھ ایسے آتیں ہیں کے کیا کہنے، بس زرا لمحہ بھر
کو اپنے گردوپیش سے ماورا ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، بقول فیص:
جو گزر گئی ہیں راتیں
انہیں پھر جگا کے لائیں
جو بسر گئی ہیں باتیں
انہیں یاد میں بلائیں
جو گزر گئی ہیں راتیں
جو بسر گئی ہیں باتیں
کوئی ان کی دھن بنائیں
کوئی ان کا گیت گائیں
اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ہماری سولہویں سالگرہ کو اب کم و بیش
چھبیس سالوں کا طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن آج بھی ہمیں ایسا ہی محسوس ہوتا
ہے کہ جیسے جانو کل ہی کی تو بات ہے! ہمارا کیک کاٹنا، ابو امی کے ہنستے
مسکراتے چہرے اور حتیٰ کہ اس کیک کا ذائقہ بھی آج دن تک اسی طرح سے ذہن
میں تازہ ہے اور کسی طور یقین نہیں آتا کہ ذہن کے نہاں خانوں میں آج بھی
تازہ اس سولہویں سالگرہ کو گزرے اتنے سال بیت گئے ہیں۔
یہ وقت کیسے، کب گزرا اور گزرتے گزرتے کب اور کیسے ہمارے چہرے ہر اپنے انمٹ
نقوس ثبت کر گیا خود ہمیں بھی اسکا کوئی اندازہ نہ ہوسکا اور اکثر یوں بھی
ہوتا ہے کہ ہم جب صبح سو کر اٹھتے ہیں تو غسلخانے میں داخل ہوتے ہوئے جب
نظر سامنے لگے آئینے پر پڑھتی ہے تو بلامبالغہ ایک لمحے کے لئیے تو ہمارا
نیم خوابیدہ ذہن خود کو دیکھ کر خود سے ہی یہ سوال کر بیٹھتا ہے:
لگتا ہے کہ انہیں ضرور کہیں دیکھا ہے؟
اور پھر اگلے ہی لمحے یہ حقیقت آشکارہ ہوتی ہے کہ میاں کس ہوش میں ہو، یہ
صاحب کوئی اور نہیں خود تم ہی ہو۔۔۔!!!!!!
خیر یہ بات تو رہی نیم خوابیدگی کی لیکن بخدا ہم خدا کو حاضر و ناضر جان کر
یہ عرض کر رہے ہیں کہ ایک بار ایک بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹور کے اندر ہم اپنی
سوچوں میں گم تیزی کے ساتھ باہر کی جانب جارہے تھے کہ اچانک سامنے سے ایک
شناسا شناسا سی صورت کو تیزی کے ساتھ اپنی جانب آتے دیکھا اور یک لحضہ سوچ
میں پڑ گئے کہ:
ضرور انہیں کہیں دیکھا ہے؟
لیکن اگلے ہی لمحے ذہن میں ایک بجلی سی کوند گئی اور احساس ہوا کہ ہم دیوار
پر نصب قدِ آدم آئینے میں خود اپنا ہی سراپا دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!
بقول منیر نیازی:
میں تو منیر آئینے میں خود کو تک کر حیران ہوا
یہ چہرہ کچھ اور طرح تھا پہلے زمانے میں
اور بقول قتیل:
اپنی نظر بھی اب مجھے پہچانتی نہیں
چلئیے قصہ مختصر کرتے ہیں، ہات صرف بچے بالوں تک ہی محدود رہے تو کچھ خاص
شکوہ نہ ہو لیکن کسی حسیں ماہ جبیں کے لبوں سے یہ ناس پیٹا لفظ انکل سن کر
جسقدر دکھ ہوتا ہے، اس دکھ کو وہ احباب ہی محسوس کرسکتے ہیں بلکہ اب تک تو
بخوبی کر ہی چکے ہونگے کہ جو اس وادیِ پرخار سے گزر کر آبلہ پائی کا لطف
اٹھا چکے ہیں اور گاہے بہ گاہے اٹھاتے رہتے ہیں، اب یہ اور بات ہے کے وہ
آبلے پاؤں پر نہیں سیدھے دل پر پڑھتے ہیں ۔
جی چاہتا کے کسی طور اگر وزارتِ قانون کا قلمدان ہمارے ہاتھوں لگ جائے تو
بخدا ہم اس لفظِ انکل پر دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کروا دیں اور اپنے جیسے
بزوعمِ خود نوجوانوں (کیا ہوا جو اب ہم جیسوں کی پیشانی اور سر زرا کشادگی
کی جانب مائل ہے اور باقی رہے سہے بالوں میں سے چاندی کے تار جابجا جھلک
رہے ہیں، آنکھوں کے سامنے عینکیں ٹکیں ہوئیں ہیں لیکن دل تو اب بھی ان نام
نہاد نوجوانوں سے کہیں بڑھکر جوان ہے) کو انکل کہنے والوں اور والیوں کو
انکے معصوم جذبات مجروع کرنے کی پاداش میں قانونی زباں بندی کے ساتھ ساتھ
کم از کم ہم جیسے سو لوگوں کو سرِعام لڑکا کہہ کر بلانے اور اپنے حلقہ ِ
احباب میں اس کار ِ خیر کی پرزور تشہیر کرنے کی سزا سنائی جائے، لیکں افسوس
کے ہمارے پاس گریجویشن کی ڈگری تو ضرور ہے مگر وہ جعلی نہیں لہٰذا اب ہمیں
وزارت تو ملنے سے رہی۔
ہاں البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اور ہم جیسے چند ہم خیال لوگ مل کر ایک
ادارہِ تحفظِ جذبات و احساساتِ سابق نوجوانانِ ملت (واضح ہو کہ یہاں ہم نے
سابق کا لفظ اپنے دل پر بڑا ہی بھاری پتھر رکھ کر استعمال کیا ہے) کا قیام
عمل میں لے آئیں اور پھر آپ کو قومی اخبارات میں کچھ اس قسم کی پریس
ریلیز پڑھنے کو ملا کرینگیں: ادارہِ تحفظِ جذبات و احساساتِ سابق نوجوانانِ
ملت کی جانب سے ریگل چوک پر مظاہرہ
تنظیم کے اراکین نے گذشتہ دنوں اپنے صدر جنھیں شر پسند عناصر کی جانب سے
سرِ عام انکل کہہ کر پکارا گیا، جس پر انکے جذبات شدید مشتعل و مجروح ہوئے،
ریگل چوک صدر پر اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے شدید غم و غصے
کا اظہار کیا اور ان کی جانب سے تمام شرپسند عناصر کو واضح لفظوں میں متنبہ
کیا گیا ہے کہ اگر آئندہ اس قسم کی کوئی بھی شر انگیزی ہوئی تو تنظیم اپنے
اگلے لائحہ عمل پر غور کریگی جو کہ یقیناً محض مظاہرے تک ہی محدود نہ رہے
گا اور کسی بھی ناخوشگوار واقعہ اور اسکے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی
تمام تر ذمہ داری مخالفین ہی پر عائد ہوگی۔ مظاہرے میں شامل چند جیالوں کی
جانب سے اپنے صدر کے حق میں مسلسل نعرہ بازی کی جاتی رہی اور وہاں موجود
چند افراد جن کے جذبات شدید مشتعل تھے نے اس کو بیرونی طاقتوں کی سازش قرار
دیا۔
ویسے ان کی بات میں دم تو ہے کیونکہ ان بیرونی ممالک میں تو ایک سے لیکر سو
سالہ مرد و خواتین کو ان کے نام ِ نامی ہی سے پکارے جانے کا رواج ہے، اور
یہ لوگ اس انکل و آنٹی کے تکلفات میں بالکل نہیں پڑتے، لہٰذا ممکن ہے کے
ہم لوگوں میں محض تفرقہ ڈلوانے ہی کی نیت سے ان لوگوں نے یہ نگھوڑ مارا
انکل و آنٹی کا مسئلہ ڈلوا دیا ہے۔
مگر بھائیوں خوش ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، کیونکہ نا تو کوئی ایسی
تنظیم ہی بنی ہے اور کبھی بن بھی نہ پائے، یہ تو سب ہم اپنے دل کے جلے
پھپھولے ہھوڑ رہے تھے اور بقول چچا جان:
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اب جب دل کو بہلانا ہی ٹھرا تو پھر اپنے احمد مشتاق صاحب کا یہ کہنا بالکل
درست معلوم ہوتا ہے
آئینہ دیکھ کے دل ڈولا تو میں نے سوچا
عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے
واضح ہو کہ یہ شعر کچھ یوں ہے:
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کر اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے
جسکے اولین مصرعے میں ہمارے بہت ہی مہربان دوست جناب اسد ضیاء حسن نے بطورِ
خاص ہمارے اس مضمون کے لیئے یہ تصمین فرمائی ہے۔ |