یونین کو نسل بلدیاتی نظام (لوکل گورنمنٹ)کا اہم حصہ ہوتی
ہے ۔ ضلعی سطح پر پیدائش ، وفات، شادی اور نکاح نامے کا اندراج کی ذمہ داری
کونسل پر عائد ہوتی ہے۔اگر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ ضرورت و اہمیت یہاں
سے جاری کردہ سرٹیفکیٹ کی ہیں کیونکہ اگر پیدایشی سرٹیفکیٹ نہیں ہو نگے تو
نادرا میں رجسٹریشن کیسے ہو گی اورملازمت سمیت دیگر سرکاری و قومی امور میں
مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔افسوس یہاں پر بھی کرپشن کا کالا سایہ ہے اور
یونین کونسلوں کے سیکرٹریوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں وہ فرعون کے جان
نشین بن کر بیٹھے ہو ئے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ انہیں لوٹ مار کی کھلی چھٹی
ملی ہوئی ہے کوئی پوچھ گچھ ہی نہیں۔مصدقہ ذرائع کے مطابق یونین کونسلوں کے
چیئر مین و وائس چیئر مین کی ملی بھگت سے پیدائش، وفات و نکاح نامے کے
اندراج فیس کی آڑ میں کھلے عام کرپشن جاری ہے۔پیدائشی و وفات کی نارمل ولیٹ
پرچی بنوانے پر سرکاری فیس 100روپے ہے جبکہ نکا ح نامے کے اندراج کی بھی
یہی فیس ہے۔ اب یہاں پر یونین کونسل کے سیکرٹری کا راج ہے اورمن پسند ریٹ
مقرر کر رکھے ہیں۔ سو روپے کی بجائے ہزاروں روپے وصول کئے جا رہے ہیں۔اسی
طرح دوسری شادی کے خواہشمند افراد سے 10ہزار سے 30ہزار روپے اجازت نامہ
دینے کے لئے وصول کئے جاتے ہیں۔نکاح رجسٹرارسے بھی سرکاری فیس کے بجائے 500
روپے سے 1000 روپے فی نکاح وصول کئے جارہے ہیں جبکہ نکاح رجسٹرجاری کرنے کی
فیس سرکاری کچھ نہ ہے مگر سیکرٹری یونین کونسل10ہزار سے کم فیس پر
رجسٹرجاری نہیں کرتا۔اسی طرح طلاق نامہ رجسٹر کرنے کے لئے بھی کوئی فیس
نہیں ہے مگر جب تک5ہزار سے 10ہزار غیرسرکاری فیس وصول نہیں کی جاتی طلاق
نامہ رجسٹر نہیں ہوسکتا۔وزیر اعظم عمرا ن خان صا حب ملک سے بد عنوانی کے
خاتمے کے لئے پر عزم ہیں۔ تاہم ان سے التماس ہے کہ وہ کر پشن کی اصل جڑ کو
اکھا ڑ پھنکیں کیونکہ کرپشن نچلی سطح سے ہی اوپر تک جا تی ہے ۔ یعنی یو نین
کونسل سے شروع ہو کر پالیمنٹ ہاؤ س تک پہنچتی ہے۔ضروری ہے کہ گراس روٹ لیول
سے اس کا سدباب کیا جا ئے۔یونین کونسل میں ایک جنم پرچی بنوانا بھی جوئے
شیر لانے سے کم نہیں۔ کوئی شہری خواہ اس نے کوئی بھی اندراج کروانا ہوتو اس
بے چارے کو دفتر کے کئی چکر لگوائے جاتے ہیں، وہ منہ مانگا نذرانہ ان کی
خدمت میں پیش کر دے تو فوراً سر ٹیفیکٹ بن کر تیار ہو جاتا ہے ورنہ اعتراض
لگا کر واپس بھیج دیا جا تا ہے۔میرے ایک قریبی عزیز کو اپنا نکاح نامہ
کمپوٹرئزاڈ کرنے کی ضرورت پیش آئی تو کہا ں 100روپے سرکاری فیس۔ ان سے اس
مد میں 20ہزار وصول کئے گئے ۔پیسے بٹورنے کے لئے کاغذات بنانے ، متعلقہ
دستا ویزات اورتاخیرکا عذرتراشا گیا۔اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جرمانے کی مد
میں 20ہزار روپے ان سے بٹورے گئے۔ جبکہ پچھلی پنجاب حکومت نے پیدائش و
اموات کے اندراج کے بائی لاز میں ترامیم کی منظوری دیکراندراج فیس کے ساتھ
ساتھ تاخیر سے اندراج پر عائد 500 جرمانہ بھی ختم کر دیا تھا۔واضع رہے کہ
پیدائش اور اموات کے اندراج کے سلسلے میں ذیلی قوانین 2016ء (ترمیمی) کے
مطابق حکو ِمت پنجاب نے پیدائش کے اندراج میں تاخیر پر ہرقسم کا جرمانہ
معاف کر رکھاہے۔علاوہ ازیں 61 دنوں سے سات سال تک کے بچوں کی پیدائش کے
اندراج کا اختیار یونین کونسل کے چیئرمین یا میونسپل کمیٹی کے ایڈمنسٹریٹر
کو دیا گیا ہے۔شامکوٹ نو شیخاں والا میں ایک دوست جس نے اپنی والدہ اور
بھائی کی اموات کا لیٹ اندراج کروانا ہے تویونین کونسل کے سیکرٹری نے
30ہزارروپے مانگا ہے ۔اور پٹواری نے وارثت کے انتقال کا پچاس ہزارروپے
مٹھائی۔یونین کی سطح پر لوٹ مار کے خاتمے اور عوام کوسہولیات پہنچانے کے
لئے ضروری ہے ہریونین کونسل میں الگ الگ کاؤنٹرقائم کئے جائیں تاکہ جہاں سے
با آسانی ہر شخص کو تاریخ پیدائش، ڈیتھ اور نکاح نامے جیسے اندراج
وسرٹیفکیٹ کے حصول میں کوئی مشکل درپیش نہ ہو۔لیکن ایسا نہیں ہو سکا ۔روزانہ
شہریوں سینکڑوں افراد ان سرٹیفکیٹ کے حصول اور اندراج وغیرہ کے لیے دھکے
کھا رہے ہیں اور وہ ان یونین کونسلوں کے سیکر ٹریز کے رحم و کرم پر
ہیں۔یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس صورتحال میں اگر کسی کو ایمرجنسی ان
دستاویزات کی ضرورت پیش آ جائے تو وہ کہاں جائے گا؟۔تواتر سے ایسی شکایات
موصول ہوتی رہتی ہیں کہ سیکرٹری یونین کونسلز کی جانب سے بلا جوازاعتراضات
کی بنیاد پر پیدائش /موت کے اند راج میں تاخیر کی جاتی ہے اور لوگ خوار
ہورہے ہیں۔ نارمل اندراج ، لیٹ اندراج اور بعد از معیاد اندراج کے علیحدہ
علیحدہ ریٹ مقرر کر رکھے ہیں اور آج تک کسی بھی یونین کونسل کے سیکرٹری کے
خلاف کاروائی نہیں کی جا سکی۔ بتایا گیا ہے صرف نا جائز کما ئی کی خاطر
اعلیٰ افسران کی ملی بھگت سے پیدائش و اموات کے اندراج کے طریقہ کار کو بے
حد پیچید بنا دیا گیا ہے ۔نارمل اندراج پیدائش کے 60یوم ، لیٹ اندراج 61یوم
تا 7سال ، بعد از معیاد اندراج 7سال سے زائد عمر کے بچوں کیلئے علیحدہ
علیحدہ طریقہ کار مقرر ہیں۔ بلدیاتی و لوکل گورنمنٹ ہر حکومت کا پسندیدہ
موضوع ہوتا ہے جب کوئی بھی حکومت بر سر اقتدار آتی ہے تو سب سے پہلے اسی
سسٹم کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یونین کونسل ناظمین کا دور ختم ہوا تو یونین
کونسلوں کا نظام تحصیل ایڈمنسٹروں کے سپرد کردیا گیا جو کہ تقریبا پانچ سال
سے زیادہ عرصہ تک رہا ۔ بعدازاں یونین کو نسلوں کو نئے بلدیاتی نظام کے تحت
چیئر مین ، وائس چئیر مین اور مقامی کو نسلروں کے سپرد کر دیا گیا۔ مگر اس
دورانیے میں سیکرٹری حضرات اس قدربے لگام ہو گئے کہ انہوں نے بلدیاتی
سربراہوں سے مل کر خزانہ سرکار پر خوب ہاتھ صاف کئے اور سب نے بہتی گنگا
میں اپنے ہاتھ نہیں دھوئے بلکہ ڈبکیاں لگائیں۔ متعلقہ اہلکاروں نے اپنا
اپنا حصہ وصول کر نے میں پیش پیش رہے ۔ لوٹ مار کا یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ
پورے طمطراق سے ہنوز جاری ہے۔ اعلیٰ افسروں و بلدیاتی عہدیداروں کی پشت
پناہی پر تمام یونین کونسلوں کے ریکارڈ رجسٹر اندراج پیدائش و اموات میں
وسیع پیمانے پر ٹمپرنگ کر کے بھاری رشوت لے کر بوگس اور جعلی برتھ وڈیتھ
سرٹیفکیٹ بھی جاری کیے جا تے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ یونین کونسلوں کے
دفتروں میں پینے کا پانی تک میسر نہیں۔ یونین کونسل دفتروں کی حالت دیکھ کر
بھی کرپشن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے یونین کونسلوں میں بوگس بلوں کی مد
میں کروڑوں کی کرپشن کی جا تی ہے۔ سامان خریدے بغیر ہی یونین کونسلوں کی
مرمت کے نام پر فرضی اور بوگس بل بنا کر فی یونین کونسل لاکھوں روپے
نکلوائے جاتے ہیں۔ تمام سیکرٹریوں نے ریکارڈ ٹمپرنگ کرکے اس میں ردوبدل
کرکے بھاری رشوت کے عوض بوگس اور جعلی سرٹیفکیٹ جاری کر کے لوٹ مار کی
کمائی سے اپنی آمدن سے کئی گناہ زیادہ غیر قانونی اثاثہ جات بنالئے ہیں۔کل
تک سا ئیکلوں پر آنے والے گاڑیوں پر آگئے ہیں ۔انہوں نے کوٹھیاں بنا لیں۔۔۔۔۔ |