محمد بن قاسم

محمد بن قاسم کی زندگی کے واقعات اور سچی داستان پر مشتمل ایک مکمل داستان جو سلسہ وار پوسٹ کی جائے گی ۔۔۔
وہ حقائق جو ہم سے چھپائے گئے
ٹیم خدائی فوجدار کی طرف سے

محمد بن قاسم (پہلی قسط)

ہندوستان کے مغربی ساحل کی اہم بندرگاہوں اور جزیرہ سراندیپ (موجودہ سری لنکا یا سیلون)کے ساتھ ایک مدت سے عربوں کے تجارتی تعلقات چلے آرہے تھے ۔ زمانہ جاہلیت میں چند عرب تاجر سراندیپ میں آباد ہو گئے تھے ۔ اور جب عرب میں ایک نئے دین کا چرچا ہونے لگا ، تو یہ دین ان تاجروں کو اپنے آباؤ اجداد کے مذہب کو ترک کرنے پر آمادہ نہ کرسکا ۔ لیکن ایرانیوں اور رومیوں کے مقابلے میں عربوں کی شاندار فتوحات کی خبریں سن کر ان کی قومی عصیبت جاگ اٹھی ۔ ایران ، عرب کے مقابلے میں ایک متمدن ملک سمجھا جاتا تھا ۔ اس لئے ہندوستان کے بازاروں میں عرب کے مقابلے میں ایران کی مصنوعات کی زیادہ قدر تھی ۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے حکمران ایران کو ایک طاقتور ہمسایہ خیال کرتے تھے ، اور عربوں کے مقابلے میں ایرانی تاجروں کو زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ اگر شام سے کوئی قافلہ آجاتا ، تو روم کی قدیم سطوت سے مرعوب ہندوستانی انہیں بھی عربوں سے زیادہ مراعات دیتے ۔ لیکن حضرت ابو بکرؓ صدیق اور حضرت عمر فاروقؓ کی شاندار فتوحات نے عربوں کے متعلق ہمسایہ ملک کے باشندوں کا زاویہ نگاہ تبدیل کردیا۔

سراندیپ اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں آباد ہونے والے وہ تاجر جو ابھی تک عرب کے اندرونی انقلاب سے متاثر نہیں ہوئے تھے ۔ کفر کے مقابلے میں اسلام کی فتوحات کو ایرانیوں اور رومیوں کے مقابلہ میں عرب کی فتوحات سمجھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے ۔ عربوں کے نئی دین سے ان کی نفرت اب محبت میں تبدیل ہو رہی تھی ۔ اُس زمانے میں جن لوگو ں کو عرب جانے کا اتفاق ہوا ، وہ اسلام کی نعمتوں سے مالا مال ہو کر واپس آئے ۔عبد الشمس عرب تاجروں کا سرکردہ تھا ۔ اس کا خاندان ایک مدت سے سراندیپ میں آباد تھا ۔ وہ اسی جزیرہ میں پیدا ہوا ۔اور اسی جگہ آباد ہونے والے ایک عرب خاندان کی لڑکی سے شادی کی ، جوانی سے بڑھاپے تک اُ س کے بحری سفر بھی سراندیپ سے کاٹھیا واڑ تک محدود رہے ۔ اُسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ عرب میں اس کے خاندان کے دوسرے افراد کون ہیں اور کس جگہ رہتے ہیں۔

دوسرے عربوں کی طرح وہ بھی مادرِ وطن کے ساتھ اُس وقت دلچسپی لینے لگا۔ جب یرموک اور قادسیہ میں مسلمانوں کی شاندار فتوحات کی خبریں دنیا کے ہر گوشے میں پہنچ چکی تھی ۔ موجودہ راجہ کے باپ کو انہی خبروں نے عرب کے ایک گمنام تاجر کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر آمادہ کیا تھا ۔ اُس نے عبد الشمس اور اس کے ساتھیوں کو دربار میں بلایا اور بیش قیمت تحائف دے کر رخصت کیا۔

۴۵ھ ؁ میں اپنے باپ کی وفات کے بعد نئے راجہ نے تخت نشین ہوتے ہی عبد الشمس کو بلایا اور کہا، مدت سے ہمارے ملک میں تمہارے ملک کا کوئی تاجر نہیں آیا ، میں عرب کے تازہ حالات معلوم کرنا چاہتا ہوں ۔ مجھے تمہارے نئے دین کے ساتھ دلچسپی ہے ۔ اگر تم وہاں جانا پسند کرو تو میں تمہارے لئے ہر سہولت مہیا کرنے کے لئے تیار ہوں ۔

عبد الشمس نے جواب دیا، آپ کے منہ سے میرے دل کی دبی ہوئی آواز نکلی ہے ۔ میں جانے کیلئے تیار ہوں!
پانچ عرب تاجروں کے سوا باقی تاجر عبد الشمس کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہو گئے ، دس دن بعد بندرگاہ پر ایک جہاز کھڑا تھا اور عرب اپنے بال بچوں سے رخصت ہو رہے تھے ۔ عبد الشمس کی بیوی فوت ہو چکی تھی ۔ اس نے سینے پر پتھر رکھ کر اپنی اکلوتی بیٹی کو الوداع کہا ۔ اس لڑکی کا نام سلمیٰ تھا ۔ شہر میں کوئی ایسا نہ تھا جو اسے نسوانی حسن کا بلند ترین معیار تصور نہ کرتا ہو۔ شاہسوار اسے تندو سرکش گھوڑے دوڑاتے اور بہترین تیراک اسے خوفناک آبشاروں میں کودتے اور سمندر میں مچھلی کی طرح تیر تے دیکھ کر دم بخود رہ جاتے تھے ۔

عبد الشمس کی روانگی کے بیس دن بعد کاٹھیارواڑ کے تاجروں کا ایک جہاز بندرگاہ پر رُکا اور عبد الشمس اور اس کے دو ساتھیوں نے اتر کر یہ خبر سنائی کہ ان کا جہاز اور دوسرے ساتھی سمندر کی لہروں کا شکار ہو چکے ہیں اور اگر کاٹھیارواڑ کے تاجروں کا جہاز وقت پر نہ پہنچتا تو وہ بھی چند ساعت اور پانی میں ہاتھ پاؤں مارنے کے بعد ڈوب جاتے ۔

راجہ نے اس حادثے کی خبر نہایت افسوس کے ساتھ سنی ۔ سندھی تاجروں کے سردار کا نام دلیپ سنگھ تھا ۔ راجہ نے اُسے دربار میں بلایا اور تین عربوں کی جان بچانے کے عوض اسے تین ہاتھی انعام دیے ۔راجہ کو مہربان دیکھ کر دلیپ سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے وہاں آباد ہونے کا خیال ظاہر کیا ۔ راجہ نے خوشی سے ان کی یہ درخواست منظو ر کی اور شاہی خزانے سے ان کے لئے مکان تعمیر کروادیے ۔
چند سال کی وفادرانہ خدمات کے بعد دلیپ سنگھ کوراجہ کے بحری بیڑ ے کا افسر بنا دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس واقعے کے تین سال بعد ابوالحسن پہلا مسلمان تھا جسے تجارت کا ارادہ اور تبلیغ کا شوق اس دور افتادہ جزیرے تک لے آیا ۔

کئی ہفتوں کے سفر کے بعد ایک صبح ابو الحسن اور اس کے کے ساتھی جہاز پر کھڑے سراندیپ کے سر سبز ساحل کی طرف دیکھ رہے تھے ۔

بندرگاہ کے قریب مردو عورتیں اور بچے کشتیوں پر سوار ہو کر اور چند تیرتے ہوئے لوگ جہاز کے استقبال کو نکلے۔ ایک کشتی پر ابو الحسن کو جزیرے کی سیا ہ فام اور نیم عریاں عورتوں کے درمیان ایک اجنبی صورت دکھائی دی ۔ اس کا رنگ سرخ و سفید اور شکل و صورت جزیرے کے باشندوں سے بہت مختلف تھی ۔ دوسری کشتیوں سے پہلے جہاز کے قریب پہنچنے کے لئے وہ اپنی کشتی پر کھڑی دو تندو ملاحوں کو جو کشتی کے چپو چلا رہے تھے ، ڈانٹ ڈپٹ کر رہی تھی ۔ یہ کشتی تمام کشتیوں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی جہاز کے ساتھ آ لگی ۔ لڑکی نے ابوالحسن کی طرف دیکھا اور اس نے بیباک نگاہوں کا جواب دینے کی بجائے منہ دوسری طرف پھیر لیا ۔۔۔ ابو الحسن کے ساتھوں کو بھی عورتوں کا نیم عریاں لباس پسند نہ آیا ۔ حسین لڑکی نے جہاز والوں کی بے اعتنائی کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے سراندہی زبان میں کچھ کہا لیکن جہاز پر سے کوئی جواب نہ آیا ۔ اچانک ابو الحسن نے کسی کی چیخ وپکا ر سن کر نیچے دیکھا ۔ کشتی سے آٹھ دس گز کے فاصلے پر وہی خوبصورت لڑکی پانی میں غوطے کھا رہی تھی اور کشتی والے اس کی چیخ و پکار سے باوجود سخت بے اعتنائی سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ ابو الحسن نے پہلے رسی کی سیڑھی پھینکی لیکن جب اس بات کا یقین ہو گیا کہ لڑکی کے ہاتھ پاؤں جواب دے رہے ہیں اور وہ سیڑھی تک نہیں پہنچ سکتی تو وہ کپڑوں سمیت سمندر میں کود پڑا ، لیکن لڑکی اچانک غائب ہو گئی اور وہ پریشان ہو کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا ۔ اتنی دیر میں بہت سی کشتیاں جہاز کے گرد جمع ہو چکی تھیں اور جزیرے کے باشندے قہقے لگا رہے تھے ۔

ابو الحسن نے تین مرتبہ غوطہ لگانے کے بعد دل برداشتہ ہو کر سیڑھی پکڑ لی لیکن ابھی ایک پاؤں اوپر رکھا تھا کہ کسی نے اس کی ٹانگ پکڑ کر پانی میں گرا دیا ۔ اس نے سنبھل کر ادھر اُدھر دیکھا تو لڑکی تیزی سے سیڑھی پر چڑھ رہی تھی ۔

ابو الحسن جہاز پر پہنچا تو اس سے ساتھی پریشان سے ہو کر جزیرے کی لڑکی کے قہقے سن رہے تھے ، لڑکی نے ابوالحسن کی طرف دیکھ کر عربی زبان میں کہا ۔ "مجھے آپ کے بھیگ جانے کا بہت افسوس ہے ۔"

لڑکی کے منہ سے عربی کے الفاظ سن کر سب کی نگاہیں اس پر جم گئیں ۔ ابو الحسن نے پوچھاَ ۔ کیا تم عرب سے ہو ؟

لڑکی نے ایک طرف سر جھکا کر دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کے بالوں کا پانی نچوڑتے ہوئے جواب دیا ۔ ہاں ! میں عرب سے ہون ، ایک مدت سے ہم عربوں کے جہاز کی راہ دیکھا کرتے تھے ۔ میں آپ کو خوش آمدید کہتی ہوں ۔ آپ کیا مال لائے ہیں ؟ (جاری ہے ۔۔۔۔۔۔)
 

Khidai Foojdar
About the Author: Khidai Foojdar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.