آج پھر سیما نے تھکے تھکے قدموں سے اسکول کی لائبریری کا
تالہ کھولا، اندر داخل ہوکر اس نے سوچا:
آج بھی لائبریری میں اکیلی میں ہی ہونگی۔ اس نے بے خیالی میں ایک الماری کا
دروازہ کھولا تو اسے کتابوں پر جالے لٹکتے نظر آئے ، اس نے دکھی دل سے ڈسٹر
پکڑ کر کتابوں سے جالے اتارنے شروع کیے۔
سیما ایک انگلش میڈیم سکول میں لائبریرین تھی۔اس کو کتابوں سے شروع سے محبت
تھی،وہ بچپن سے کتب بینی کو پسند کرتی تھی۔ شروع شروع میں جب اس نے اسکول
کی لائبریرین کی ذمہ داری سنبھالی، تو اس کو سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی
تھی ۔سکول کے طلبا و طالبات نہ صرف نصابی کتابیں لائبریری سے لیتے، بلکہ
کہانی کی کتابیں، شاعری کی کتابیں بھی لیتے اور ہفتے بعد پڑھ کر واپس کرتے۔
لائبریری میں پڑھنے والے طلبا و طالبات گروپ کی شکل میں نوٹس بناتے نظر آتے
، مگر پچھلے پانچ سال سے جب سے ٹیکنالوجی کا یلغار ہوا تھا، بچے زیادہ تر
آئی پوڈز اور آئی پیڈز پر گیمز کھیلتے نظر آتے۔ سکول میں بیشتر بچے موبائیل
فون لے کر آتے اور ریسز کے دوران بجائے کھیلنے یا دوستوں سے گپ شپ کرنے کے
بجائے سیل فون پر گیمز کھیلتے یا میسجنگ کرتے نظر آتے۔سیما ہر روز یہ تماشہ
دیکھتی اور دکھی دل سے سوچتی:
"یہ نئی نسل کس جانب جا رہی ہے؟
ہم نے اپنے بچوں سے کتابیں چھین کر ان کے ہاتھوں میں مشینیں پکڑا دی ہیں ۔"
آج بھی سیما اسی مظاہرے کو دیکھ کر دل برداشتہ سی بیٹھی تھی کہ لائبریری کا
دروازہ کھلا اور شگفتہ سی آواز آئی:
کیا ہم کچھ کتابیں لائبریری سے لے سکتی ہیں؟
سیما نے سر اٹھایا تو دو بچیاں اس کے سامنے کھڑی تھیں ۔سیما نے ان کی شکل و
شباہت سے اندازہ لگایا، وہ دونوں جڑواں بہنیں تھیں ۔سیما نے اثبات میں سر
ہلایا،ان بچیوں نے اپنے نام وفا اور حیا بتائے،سیما نے ان کے لائبریری
کارڈز بنائے، ان بچیوں نے کافی ساری کتابیں اپنے کارڈز پر ایشو کروائیں ۔اب
تو یہ ہفتہ وار معمول سا بن گیا۔ایک دن انہوں نے سیما سے پوچھا:
"یہ یہاں کے بچے لائبریری کیوں استعمال نہیں کرتے؟"
سیما نے دل گرفتگی سے کہا:
"اصل میں اب طلبا و طالبات کی توجہ ایلکٹرانک گیمز پر مبذول ہوگئی ہے۔"
وفا اور حیا ہنس پڑیں ، وفا بولی :
"میم ! ہم تو کینیڈا سے آئی ہیں، مگر کتابیں ہماری سب سے اچھی دوست ہیں ۔"
حیا نے اچانک چٹکی بجائی اور بولی:
"مجھے پتا ہے کہ لائبریری کو کیسے پھر سے آباد کرنا ہے۔"
اس نے سیما کو تفصیل بتائی، سیما کئ آنکھیں چمک اٹھیں ۔اگلے روز وفا،حیا
اور سیما پرنسپل صاحب کے کمرے میں بیٹھے میٹنگ کررہے تھے ۔اگلے ایک مہینے
میں سکول کی نہ صرف لائبریری کی رونقیں بحال ہوگئیں بلکہ بچوں کے ہاتھوں
میں کتابیں پھر سے نظر آنے لگیں ۔
آج ٹی وی چینل کے انٹرویو میں پرنسپل صاحب، سیما، وفا اور حیا مدعو
تھے۔پروگرام کے میزبان نے پوچھا:
"سیما صاحبہ! یہ کتابیں کیسے دوبارہ بچوں کی زندگی میں شامل ہو ئیں؟"
سیما نے ہنس کر جواب دیا:
"شاکر صاحب جدید وقت کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے ہم نے کچھ انقلابی اقدامات
کیے اور یہ قدم ان پیاری بچیوں کے کہنے پر پرنسپل صاحب نے اٹھایا ،جو کہ یہ
ہیں ۔
"ہم نے پزا ہٹ سے Reading program کی پارٹنرشپ کی ہے ،ہمارے جس بچے کے ہفتہ
وار 300 منٹ Reading کے ہوجاتے ہیں اس کو ہم ایک چھوٹا منی پزا کا اعزازی
کوپن دیتے ہیں، دوسرا بڑی کلاسوں کے بچے ،چھوٹی کلاسوں کے بچوں کے reading
buddies بن گئے ہیں ۔اس سے کتابیں پڑھنا ایک زبردست تفریحی ایکٹویٹی بن گیا
ہے۔ ہر کلاس جو سب سے زیادہ reading minutes پورے کرتی ہے اس کے طلبا و
طالبات کا نام نوٹس بورڈ پر اعزازی طور پر لگایا جاتا ہےاور انھیں اعزازی
شیلڈ دی جاتی ہے۔ان اقدامات کی وجہ سے الحمداللہ اب ہم بچوں کا رشتہ کتابوں
سے جوڑنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔اب تو بہت سے دوسرے سکول بھی ہمارے اس
مقابلے میں شریک ہوگئے ہیں ۔"
شاکر صاحب اور حاضرین نے خوب تالیاں بجائیں ۔سیما مسرور انداز میں مسکرائی،
اسے یقین تھا اب بچے کتابوں کا ساتھ نہیں چھوڑینگے، بلکہ یہ قافلہ دن بدن
بڑھتا جائے گا۔
(ختم شد )☆☆ |