سرائیکی صوبہ اور اس کے مسائل

 ہمارے موجودہ وزیر اعظم جناب محترم عمران خاں صا حب نے اپنی الیکشن کمپین میں جہاں دوسرے بلند و بالا دعوے اور وعدے کیے تھے وہاں پر انہوں نے سرائیکی عوام سے نوے دن کے اندر جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ پر پیش رفت کی بھی نوید سنائی تھی جس کو عوامی حلقوں میں کچھ حد تک پذیرائی بھی ملی۔ اب جناب محترم عمران خاں صا حب نے حسب وعدہ اس پر پیش رفت بھی شروع کر دی ہے اور اس پر اک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جنہوں نے ابھی تو شائد باقاعدہ ورک شروع نہیں کیا ہو سکتا ہے اگلے چند ایام میں اس پر کچھ نہ کچھ پیش رفت ہو جائے ۔یہاں پر یہ بات بہت قابل ذکر اور قابل غور ہے جس طرح جناب محترم عمران خاں صا حب اپنی انتخابی مہم میں اپنے دوسرے وعدے اور دعوے بغیر ہوم ورک کے کر دیے تھے اور عوام کو سبز باغ دکھائے کہ یہ سب کام تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہیں اور صرف نوے دنوں میں پاکستان میں میں ایسی خوشحالی لاؤں گا کہ پاکستانی تو کیا دنیا بھر کے لوگ پاکستان میں آکر کام کرنے کو ترجیج دیں گیاور عوام پچھلی تمام نا اہل حکومتوں کے ادوار کو بھول جائیں گے بحرحال یہ ایک الگ بحث اور مضمون ہے کہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوئے ۔جنوبی پنجاب کی بات کرتے ہیں کہ جب جناب محترم عمران خاں صا حب نے اس پر باقائدہ کام شروع کیا تو دوسرے منصوبوں کی طرح پھر ان کو پتا چلا کہ یہ کوئی اتنا آسان مسئلہ نہیں ہے اس پر بہت سے تنظیمی اور انتظامی امور پر کام کرنے کی ضرورت ہے ہماری دعاہے کہ اﷲ تعالی جناب محترم عمران خاں صا حب کو اس منصوبے کہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے اور وہ اپنے سرائیکی عوام سے کیے ہوئے وعدے پر ثابت قدم رہیں۔کیوں کہ ابھی تک ان کے پاس یو ٹرن کی آپشن موجود ہے۔

اگر ہم جغرا فیائی لحاظ سے اس جنوبی پنجاب جسے شائد سرائیکی صوبہ کا نام دیا جا رہا ہے جس پر کچھ لوگوں کو اختلاف بھی ہے بحرحال نام کچھ بھی ہو اس کا فیصلہ بھی ہو جائے گا ۔اس کا نقشہ دیکھا جائے تو اس میں جو اضلاع دیکھا ئے گئے ہیں ان میں سرگودہ،خوشاب،میانوالی،بھکر،ڈیرہ غازی خاں،ڈیرہ اسماعیل خان،لیہ، جھنگ،ٹوبہ ٹیک سنگھ،ساہیوال،پاکپتن،خانیوال،وہاڑی ،لودھراں،ملتان،مظفر گڑھ،راجن پور،رحیم یار خاں،بہاولپوراور بہاولنگر کے اضلاع شامل ہیں۔ان اضلاع کااگر ہم اقتصادی اور انتظامی امورکا بغور مطالعہ کریں اور جائزہ لیں تو ان میں سے تین یاچار اضلاع کے علاوہ کوئی ضلع ایسا نہیں ہے جو ان موجودہ حالات میں اپنے ضلعی انتظامی امور کو اپنے موجودہ وسائل میں رہتے ہوئے پورا کرنے کی اہلیت رکھتا ہو اکثر اضلا ع کو اپنی ضرویات کو پورا کرنے کے لئے اپنی صوبائی حکومت کی مدد لینی پڑتی ہے۔ اپنے محدود ذرائع سے ان کی اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہو پاتیں ۔اگر مندرجہ بالا اضلاع کا ذرائع آمدنی کا جائزہ لیا جائے تواس میں شامل ضلع ساہیوال میں کچھ حد تک انڈسٹریز موجود ہیں جس میں خاص طور سویٹس وبیکرز اور پو لٹری کی انڈسٹریز قابل ذکر ہیں ۔ضلع پاکپتن ایک زرعی ضلع ہے اس علاقے کے لوگ زیادہ تر کھیتی باڑی کرتے ہیں زمینداری کے لحاظ سے یہ اک زرخیز علاقہ ہے۔شوگر مل کے علاوہ کچھ کاٹن انڈسٹریز بھی اس علاقہ میں موجود ہیں ۔اس ضلع میں چند ایک زمیندار قابض ہونے کی وجہ سے اس ضلع نے جس طرح ترقی کرنی تھی نہیں کر پایا ۔اور خاطر خواہ ٹیکس کولیکشن نہیں ہے بمشکل اپنی ضرویات پوری کرتا ہے۔ضلع بہاولنگر کو اگر پنجاب کا پسماندہ ترین ضلع کہا جائے تو بے جاہ نہ ہوگا ۔کیونکہ اس ضلع کا بھی زیادہ تر دارو مدار زراعت پر ہی ہے ضلع کے زرخیز علاقہ پر جاگیردار اور بڑے زمیندار قابض ہیں ۔اور بدقسمتی سے اس زرخیز ضلع کوپانی کی شدید کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے اس ضلع کی تحصیل فورٹ عباس ایک بنجر علاقہ کا منظر پیش کرتی ہے۔ ضلع کوملنے والے پانی پر بڑے بڑے زمیندار قابض ہیں اور چھوٹے زمیندارکی حق تلفی اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ اکثر لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزانے پے مجبور ہیں ایک شوگر مل کے علاوہ چند ایک چھوٹی موٹی کاٹن انڈسٹریز اس علاقہ میں موجود ہیں ۔پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ یہ ضلع بھی بہت مشکل سے اپنی ضریات پوری کر پاتا ہے اکثر کہیں نہ کہیں سے امداد لینی پڑتی ہے۔ ضلع وہاڑی ،خانیوال،ٹوبہ ٹیک سنگھ،بہاولپور اور رحیم یار خاں بھی بنیادی طور پر زرعی اضلاع ہی ہیں ان اضلاع کے لوگوں کا گزر اوقا ت کا دارومدار زراعت پر ہی ہے کھتی باڑی اور باغ بانی یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش ہے ہاں البتہ کاشتکاری کے لحاظ سے یہ پاکستان کے زرخیز تریں علاقے ہیں گندم ،کپاس اورگنہ اس علاقہ کی مشہور فصلیں ہیں ۔ آم ،کھجور،مالٹا اور امرود کے باغات بھی اس علاقہ میں پائے جاتے ہیں ۔ضلع ملتان اور مظفر گڑھ میں کپڑے کی ملیں ہیں اس کے علاوہ بھی کچھ انڈسٹریز موجود ہیں ملتان کا آم دنیا میں بہت مشہور ہے جس کو ایکسپورٹ کر کے زرمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے مجموعی طور پر اس علاقہ کا زیادہ انحصار زراعت پر ہی اکثر لوگوں کا ذریعہ معاش کاشتکاری ہی ہے۔اس علاقہ کی انڈسٹری اتنی مضبوط نہیں کہ اتنے بڑے صوبے کا بوجھ برداشت کر سکے۔بھکر،میانوالی،ڈیرہ اسماعیل خاں اور ڈیرہ غازی خاں کے اضلاع بھی بنجر ہی پڑے ہیں جہاں نہ تو کوئی انڈسٹری ہے اور نہ ہی قابل ذکر کھیتی باڑی ہے۔اس علاقہ کے زیادہ تر لوگ بھیڑ بکریاں پال کر اپنا گزراوقات کرتے ہیں یا پھر پاکستان کے دوسرے دور دراز علاقوں میں جا کر محنت مزدوری کرتے ہیں ۔ضلع سرگودہ اور جھنگ کا شمار بھی زرعی علاقوں میں ہی ہوتا ہے یہاں کے بھی زیدہ تر لوگ زمیندار ھی ہیں ۔بہت زرخیز علاقے ہیں سرگودہ کا ضلع باغبانی کے لئے بہت مشہور ہے اس علاقہ کا کینو ،مالٹا دنیا بھر میں مشہور اور اس کو ایکسپورٹ کر کے زر مبادلہ حاصل کیا جاتا ہے۔خوشا ب کا زیادہ تر علاقہ پہاڑی علاقہ پر مشتمل ہے۔ماسوائے کھیوڑہ کی نمک والی کان کے اس کی کوئی قابل ذکر چیز نہیں ۔

ان علاقوں کا اگر گہرائی سے بغور مطالعہ کیا جائے ما سوائے ملتان،مظفر اور ساہیوال کے باقی تمام اضلاع کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہی ہے زراعت پر اس وقت معاملہ اورآبیعانہ کے علاوہ کوئی ٹیکس نہیں ۔یہ بھی زمیندار بہت مشکل سے ادا کرتے ہیں اور ہماری زراعت مزید ٹیکس کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔کسانوں سے مو صول ہونے والا معاملہ اور آبیعانہ بھی بہت معمولی ہے اس کو حکومت کا بہت بڑا آمدن کا ذریعہ تصور نہیں کیا جاتا اس سے ہونے والی آمدن اسکے اپنے محکمہ زراعت کے اخراجات بھی پورے نہیں کر پاتی۔اس علاقہ کے چھوٹے کسانوں کے مسائل پر کسی حکومت نے کوئی خا طر خواہ توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے اس علاقہ کا چھوٹا کاشتکار اس دور کی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے اور انکے معاشی مسائل دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔

ایسے حالات میں اگر اس علاقہ کو بغیر کسی مضبوط پلاننگ کے صوبہ بنا دیا جاتا ہے تو یہ علاقہ اس قابل نہیں ہو گا کہ یہ اپنے صوبائی اخراجات پورے کر سکے۔ان کو اس صوبہ کے تنظیمی معاملات کو چلانے کے لئے دوسرے صوبوں کی طرف دیکھنا پڑے گا یا پھر مرکزی حکومت کے ترلے منتیں کرنی پڑیں گی۔ اس علاقہ کے بڑے بڑے زمیندار اور جاگیر داراقتدار پر قابض ہو جائیں گے ۔عین ممکن ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی طرز پر اس علاقہ میں بھی چند زمیندار اور جاگیر داراقتدار پر ہو کر اس علاقہ کے چھوٹے زمیندار،مزارئین اور حاریوں کو محکوم بنا لیں۔صوبہ کی فنانشلی،انتظامی اور معاشی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے عام آدمی پر لوکل ٹیکسز کا بوجھ ڈال دیا جائے گا ۔اس علاقہ میں پھر تیس سال پرانہ نظام وضع کر دیا جائے مثلا ٹول ٹیکس ،ضلع ٹیکس اور محصول چونگی وغیرہ۔اس پورے خطے میں انسان کی بنیادی ضروریات سہولتیں بہت نا کافی ہیں جیسا کہ اس پورے علاقہ میں صرف دو بڑے ہسپتال ہیں ایک بہاولپور میں اور ایک ملتان میں ۔ان ہسپتال میں بھی اتنی گنجائش نہیں ہے کہ یہ اتنے بڑے علاقہ کی ضرورت پوری کرسکیں۔یہی وجہ ہے اس علاقہ کے لوگوں کو اپنے علاج معالجے کے لئے دوسرے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔تعلیم کے حوالے ملتان اور بہا ولپور یونیورسٹی کے علاوہ کئی قابل ذکر تعلیمی ادارہ نہیں ہے۔روزگار اس علاقہ میں نہ ہونے کے برابر ہے اور لوگوں کو معاش کی تلاش دوسرے دور دراز علاقوں میں جانا بڑتا ہے۔غرض یہ کہ اس علاقہ میں عام آدمی کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔اگر کسی مناسب منصوبہ بندی کے بغیر اس کو صوبہ بنا دیا گیا تو اس بات کا شدید خدشہ رہے گا کہ صوبہ بننے کے بعد اس علاقہ کے لوگوں معیار زندگی پہلے سے بھی مزید گر جائے گا کیونکہ صوبہ بننے کے بعد برسراقتدار آنے والی حکومت دس سال تک کوئی ترقیاتی اور عوامی فلاحی منصوبہ شروع کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوگی۔بلکہ اس بات کا بھی ڈر ہے کہ پہلے سے موجود منصوبہ کو بھی جاری یا ان کی مرمت بھی مشکل ہو جائے گی۔عوام کو مزید سہولتیں دینے کی بجائے جو تھوڑی بہت مل رہی ہیں ان کو جاری رکھنابھی مشکل ہو سکتا ہے جب کہ اس وقت اس علاقہ کے لوگوں کو صحت، تعلیم اور پینے کیلئے صاف پانی کی اشد ضرورت ہے ۔جاگیردارانہ نظام کا غلبہ ہو سکتا ہے عین ممکن ہے عام آدمی کو پہلے جیسی آزادی نہ رہے تھانہ کچہریوں اور دوسرے سرکاری عوامی اداروں پر بڑے بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کا راج ہو گا ۔ان سب مسائل سے نکلنے کے لئے مزید پندرہ سے بیس سال درکار ہو سکتے ہیں۔

Bakhat Gilani
About the Author: Bakhat Gilani Read More Articles by Bakhat Gilani: 6 Articles with 4108 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.