احمد، ابوالقاسم، ابوالطیب، نبی التوبہ، نبی الرحمتہ، نبی
المرحمتہ، نبی ال ملحمتہ، الرحمہ المہداة، حبیب الرحمن، المختار، المصطفیٰ،
المجتبیٰ، الصادق، المصدوق، الامین، صاحب مقاممحمود، صاحب الوسیل والدرج
الرفیع، صاحب التاج والمعراج، امام المتقین، سید المرسلین، النبی الامّی،
رسول اللہ، خاتم النبیین، الرسول الاعظم، السراج المنیر، الروؤف الرحیم،
العرو الوثقیٰ!
میرے ماں باپ آپ پرقربان!
اپنی زبان کوکروڑوں مرتبہ مشک وکافورسے بھی دھوکربیان کرناچاہوں،روئے زمین
میں پھیلے ہوئے جنگلات کے تمام اشجارکے قلم اورتمام ارض کائنات کے سمندروں
کے پانی کوروشنائی میں بھی تبدیل کرکے آپ کے کسی ایک مناسک کی تعریف بھی
تحریرکرناممکن نہیں لیکن اس ناچیزکی درخواست ،میری یہ جسارت،میری یہ
رسائی،میرے قلم کی یہ آہ نیم شبی،میری آہ سحری کی یہ بازگشت دامن قرطاس
پربکھرکرسمٹ کرگریبان قرطاس کاقلاوہ بن کراس بارگاہ بے کس پناہ میں حاضر
ہونے کی اجازت چاہ رہی ہے اوریہ جسارت ،یہ جرأت ،یہ ہمت ،یہ رسائی اوریہ
اجازت آپ ہی کی مہربانی اورآپ ہی کے لطف کاصدقہ ہے۔
آپ کے سائل سینکڑوں ہوں توبھی میں پہچاناجاؤں،ہزاروں ہوں توشائدرسائی
ہو،لاکھوں ہوں توشائد شنوائی ہو،کروڑوں ہوں توشائدکارواں عشق ومحبت میں ایک
گوشہ مل جائے مگراس آستاں کے سامنے بے حدوحساب ،بے شماروبے تعداد وبے کراں
آپ کے درپرکھڑے سوالی ہیں ان میں ایک یہ غلام بھی ہے ۔میں اپنے بیان
کی،اپنے اسلوب کی،اپنے اندازکی حیثیت کوبھی خوب جانتاہوں لیکن پھربھی سوت
کے یہ چندقلمی تار آپ کے دربارِ عالیہ میں لیکرحاضرہورہاہوں۔
اے رحمت العالمین!
اتنے بڑے دربارکی روایات جہاں بوقتِ فجرسے مغرب تک۷۰ہزارملائکہ حاضرہوتے
ہوں اورمغرب سے لیکر فجرتک ۷۰ہزارملائکہ کی دوسری جماعت حاضری کاشرف حاصل
کرتی ہو اورپھرقیامت تک ان کی باری نہ آئے،یہ بے مایہ ،بے بضاعت،آداب
ومنقبت نگاری سے ناواقف ،بھلااتنے بڑے دربار سے کیسے آشناہوسکتاہے۔صرف اس
لئے حاضرہورہاہوں کہ شاہوں کے دربارمیں بغیرنذرانے کے حاضرہوناگستاخی سمجھی
جاتی ہے لہندایہ ناچیز اپنے دل کے ٹکڑوں کوعقیدت ومحبت کی کشتی میں
درودشریف کاغازہ لگاکر آپ کے دربارمیں درخواست پیش کرنے کی اجازت کاطلب
گارہے
اے پیغمبرمجتبیٰ!
میں فقیرہوں،مجھے مانگنابھی نہیں آتا،صدالگانے کے سلیقہ سے بھی ناواقف
ہوں،میری صدا،میرے چندآنسوہیں جونیم شب بہہ کرآپ کی بارگاہ میں قبولیت کے
منتظرہیں اورآج پریشان الفاظ کی شکل میں قلم کی نوک پرآنے کیلئے مچل رہے
ہیں۔اگران آنسوؤں کے کچھ مطالب ہوسکتے ہیں توانہیں قبول فرمائیں۔ان آنسوؤں
کے پردے میں جوسوزہے وہ آپ سے پوشیدہ نہیں،جودردہے آپ سے چھپا
نہیں،جوگدازہے وہ آپ سے پنہاں نہیں،ان سب کوالفاظ بناکرآپ کی خدمت میں
تحریرکرنابھی چاہوں توبھی ممکن نہیں،بس!یہ آپ کی محبت کے داغ ہیں جوکبھی
مدہم بھی نہیں ہوسکتے،یہ آپ کی محبت وشفقت اور یادوں کے زخم ہیں جوبھرنہیں
سکتے،یہ داغ ،یہ زخم بھی آپ ہی کی نگاہِ کرم کاایک عطیہ ہیں۔
اے طہٰ!
بزرگوں سے سناتھا،کتابوں میں پڑھاہے کہ آپ کی بارگاہ میں قصیدہ خواں،مدحت
سرا،آہ وفغاں کرنے والے ذکراذکارکرنے والے آپ کے مناقب بیان کرنے والے
اورلکھنے والے بلاروک ٹوک پہنچ جاتے ہیں۔میں قصیدہ خواں بن نہیں سکاکہ خوش
آوازنہیں ہوں،مقررنہیں بن سکاکہ آپ کی مدح سرائی میں کوئی کمی نہ رہ
جائے،مدحت سرانہ ہوسکاکہ ذوقِ شاعری نہیں ہے،آہ وفغاں نہ کر سکا کہ سینہ
بریاں نہ پایاہے،فرہادوفغاں لیکرنہ پہنچ سکاکہ ذکرواذکارآپ کے شایانِ شان
نہ کرپایاہوں، ہاں اسی لئے میرے مہربان ورفقاءبرملاالزام دینے سے گریزنہیں
کرتے کہ محبت کاصحیح حق ادا کرنے کے سلیقے کاراستہ ڈھونڈنے میں پوری سعی
استعمال نہیں کرپایالیکن آپ کوتومعلوم ہے ،آپ پرسب عیاں ہے کہ میں
تواپناحالِ دل ماسوائے اپنے ربِّ کریم کے علاوہ کسی اورکے سامنے افشاء کرنے
کونہائت بے ادبی سمجھتاہوں۔اب آپ ہی ان قلوب کارخ تبدیل کردیں جن کومجھ سے
ایسی شکائت ہے اورمجھے بھی ایسی توفیق حاصل ہوجائے کہ میں آپ کے لائے ہوئے
پیغام میں اس طرح ڈھل جاؤں کہ میراساراوجودعجزوانکساری کاایساغلام بن جائے
کہ میراہرعمل آپ کی خوشنودی کاحامل بن جائے تاکہ روزِ محشر میری شناخت آپ
کے غلاموں میں ہو۔میرے تو وہم و گمان بھی نہ تھاکہ مجھ گناہ گارکوایسی
حاضری کاموقع میسرہوگاکہ جہاں سانس بھی اونچالینامحال ہو!
اے یٰسیں!
آپۖ کی حیاتِ طیبہ کے احوال و فضائل ،آپۖ کی مبارک ہستی کا سراپا، قد و
قامت اور مبارک شکل و صورت جس کے فیضانِ نظر سے تہذیب و تمدن سے ناآشنا خطہ
ایک مختصر سے عرصے میں رشکِ ماہ و انجم بن گیا، آپۖ کی تعلیمات اورسیرت
وکردارکی روشنی نے جاہلیت اورتوہم پرستی کے تمام تیرہ و تارپردے چاک کردیئے
اورآپۖ کے حیات آفریں پیغام نے چہار دانگِ عالم کی کایا پلٹ دی۔ حقیقت یہ
ہے کہ ذاتِ خداوندی نے اس عبدِ کامل اور فخرِ نوعِ اِنسانی کی ذاتِ اقدس کو
جملہ اوصافِ سیرت سے مالا مال کر دینے سے پہلے آپۖ کی شخصیت کوظاہری حسن
کاوہ لازوال جوہرعطا کردیا تھا کہ آپۖ کا حسنِ صورت بھی حسنِ سیرت ہی کا
ایک باب بن گیا تھا۔آپۖ کے حسنِ سراپاکاایک لفظی مرقع اصحاب کرام
اورتابعینِ عظام کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ رب
العزت نے آپۖ کووہ حسن وجمال عطاکیاتھاکہ جو شخص بھی آپۖ کو پہلی مرتبہ
دورسے دیکھتا تومبہوت ہوجاتااورقریب سے دیکھتاتومسحورہوجاتا۔لاریب!آپ
کومیرے رب نے ایسے سانچے میں ڈھالا کہ حسن بھی آپ پرنازاں تھا!
اے نبی مشہود!
آپۖ اللہ تعالی کے سب سے محبوب اورمقرب نبی ہیں،اِس لئے باری تعالی نے
انبیائے سابقین کے جملہ شمائل وخصائص اورمحامد ومحاسن آپ ۖ کی ذاتِ اقدس
میں اِس طرح جمع فرمادیئے کہ آپ ۖ افضلیت واکملیت کامعیارِآخرقرارپائے۔ اِس
لحاظ سے حسن وجمال کامعیارِآخربھی آپۖ ہی کی ذات ہے۔ آپۖ کی اِس شانِ
جامعیت وکاملیت کے بارے میں اِرشادِ باری تعالی ہے : أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ
هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ قُل لَّاأَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ
أَجْرًا ۖ إِنْ هُوَإِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْعَالَمِينَ (یہی ) وہ لوگ
(پیغمبرانِ خدا)ہیں جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت فرمائی ہے، پس (اے رسولِ
آخرالزماں)!آپ ان کے(فضیلت والے سب) طریقوں (کو اپنی سیرت میں جمع کر کے
ان)کی پیروی کریں(تاکہ آپ کی ذات میں ان تمام انبیا و رسل کے فضائل و
کمالات یکجا ہو جائیں)۔ الانعام90:6
اے حریص علیکم!
حضرت حسان بن ثابت جنہیں آپۖ بڑی محبت کے ساتھ اشعارسنانے کاحکم دیتے تھے
،وہ آپۖ کے کمالِ حسن کو بڑے ہی دِلپذیر انداز میں یوں بیان کرتے ہیں:
وَاَ حْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَط عَیْنِیْ
وَ اَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تلِْدِ اَلْنِسائُ
خُلِقَتْ مُبَرّ اُمِنْ کُلِّ عَیْبِِ
کَاْنَکَ قَدْ خَلِقْتَ کَمَاْ تَشَا ئُ
(آپۖ سے حسین ترمیری آنکھ نے کبھی دیکھاہی نہیں اورنہ کبھی کسی ماں نے آپ ۖ
سے جمیل تر کو جنم ہی دیا ہے۔ آپۖ کی تخلیق بے عیب (ہرنقص سے پاک)ہے،(یوں
دِکھائی دیتا ہے)جیسے آپ ۖکے رب نے آپ کی خواہش کے مطابق آپ ۖ کی صورت
بنائی ہے)۔حسان بن ثابت، دیوان:21
ملا علی قاری ایک دوسرے مقام پر قصیدہ بردہ شریف کی شرح میں لکھتے ہیں:
نہ ذا ذکر علی میت حقیقی صارحیا حاضرا، و ذا ذکر علی کافر و غافل جعل ممنا
و ہول ذاکرا لکن اللہ تعالی ستر جمال ہذا الدر المکنون و کمال ہذا الجوہر
المصون لحکم بالغ و نکت سابق و لعلہا لیکون الایمان غیبیا و المور تکلیفیا
لا لشہود عینیا و العیان بدیہیا ولئلا یصیرمزلق لقدام العوام و مزل لتضر
الجمال بمعرف الملک العلام۔۔۔
اگرخدائے رحیم و کریم حضور ۖ کے اسمِ مبارک کی حقیقی برکات کوآج بھی
ظاہرکردے تو اس کی برکت سے مردہ زندہ ہوجائے،کافرکے کفرکی تاریکیاں
دورہوجائیں اورغافل دل ذکرِالہٰی میں مصروف ہوجائے لیکن ربِ کائنات نے اپنی
حکمتِ کاملہ سے حضور ۖ کے اِس انمول جوہرکے جمال پرپردہ ڈال دیاہے،شاید ربِ
کائنات کی یہ حکمت ہے کہ معاملات کے برعکس اِیمان بالغیب پردہ کی صورت میں
ہی ممکن ہے اورمشاہد حقیقت اس کے منافی ہے۔ حضورۖکے حسن وجمال کو مکمل طور
پر اِس لئے بھی ظاہر نہیں کیا گیا کہ کہیں ناسمجھ لوگ غلوکاشکارہوکرمعرفتِ
اِلہٰی سے ہی غافل نہ ہوجائیں۔
اے خاتم النبیّن!
میں نے بھی ایک بہانہ تلاش کیاہے،ایک حیلہ ڈھونڈاہے کہ آپ کی بارگاہِ اقدس
میں آج قلمی حاضری ہوجائے۔آپ میرے حالات سے واقف ہیں کہ آج آپ کے درپرحاضری
کیلئے دن رات دعاؤں کاسہارالیکراپنی عاجزی اوربے بسی کااس امید
پراظہارکررہاہوں کہ دلِ بے تاب سے نکلیں ہوئی فریادیں اب ایسے انقلاب کی
اجازت کی طلبگارہیں جہاں زندگی کے ہرشعبے میں آپۖ کی سیرت مبارکہ کی جھلک
نمایاں ہو۔بعض اوقات تویوں محسوس ہوتاہے کہ برہاکے یہ شب وروز کہیں جان ہی
نہ نکال دیں ،سانس لینامشکل ہوجاتاہے اوردل کی دھڑکن بھی بے ترتیب ہوجاتی
ہے۔ تحریری طورپراپنی گزارشات آپ کی خدمت اقدس میں پیش کرنے کی جسارت
کروں،یہ کب سوچا تھا؟لیکن آپۖ کی آل کی ایک بیٹی نے حکم دیا(جس نے میری
زندگی کارخ تبدیل کردیاہے)تومیں نے ڈرتے ہوئے اسے دربارمیں حاضری سمجھتے
ہوئے سرخم کردیا۔مجھے یہ بھی یقین ہے کہ نامکمل اورٹوٹے پھوٹے ہوئے الفاظ
میری دلی فریادکااحاطہ کرنے سے قاصرہیں لیکن آپ توایسے آقاہیں کہ آپ کے
دستِ مبارک میں پتھروں کوزباں مل جاتی ہے،چرندپرند،اشجارہی نہیں بلکہ ارض
وسماکی ساری مخلوق آپ کی نسبت پرصدافتخارکادعویٰ کرتی ہے تومیراقلم بھی آپۖ
کی صفات کے بحرِ قلزم سے ایک قطرے کی خیرات سے سیراب ہونے کی اجازت چاہتاہے
۔آپۖ کوتواللہ نے قاسم کی صفت سے متصوف فرمایا ہے اورمیرے لئے تویہی انعام
میری زندگی کاسب سے بڑاحاصل ہے کہ ربّ ِ کریم نے مجھے آپ کااُمّتی بنایا۔
اے مزمل!آپ کوخالق ارض وسمارب العلٰی نے رسولِ کائنات، فخرِ موجودات
اورنسلِ انسانی کیلئے نمونہ کاملہ اوراسوئہ حسنہ بنایاہے اورآپ ۖکے طریقہ
کوفطری طریقہ قراردیاگیاہے ۔آپ ۖ کے معمولات زندگی ہی قیامت تک
کیلئےشعارومعیارمقررکردیئے گئے ہیں،یہی وجہ ہے کہ آپۖ کی سیرت کاہرگوشہ
تابناک اور ہرپہلوروشن ہے۔ یومِ ولادت سے لے کرروزِرحلت تک کے ہرہرلمحہ
کوباری تعالیٰ نے لوگوں سے محفوظ کرادیا ہے،آپ ۖ کی ہرادا کوآپ ۖ کے
متوالوں نے محفوظ رکھا ہے اورسند کے ساتھ تحقیقی طورپرہم تک
پہنچایاہے،لہذاآپۖ کی سیرت مبارکہ جامعیت واکملیت ہر قسم کے شک و شبہ سے
محفوظ ہے۔ دنیائے انسانیت کسی بھی عظیم المرتب ہستی کے حالات زندگی،معمولات
زندگی،اندازواطوار،مزاج ورجحان،حرکات وسکنات،نشست وبرخاست اورعادات وخیالات
اتنے کامل ومدلل طریقہ پرنہیں ہیں جس طرح کہ ایک ایک جزئیہ سیر ت آپۖ کا
تحریری شکل میں دنیا کے سامنے ہے یہاں تک کہ آج بھی آپۖ سے متعلق زندگی کے
ہرلمحے سے متعلق اشیا کی تفاصیل بھی سند کے ساتھ سیرت وتاریخ میں ہرخاص
وعام کومل جاتی ہیں۔
اے متین ومصدّق!
اس لیے کہ اس دنیائے فانی میں ایک پسندیدہ کامل زندگی گذارنے کیلئےاللہ رب
العزت نے اسلام کو نظامِ حیات اورآپۖ کونمونہ حیات بنایا ہے وہی طریقہ
اسلامی طریقہ ہوگاجوآپۖ سے قولاً، فعلاً منقول ہے، آپ ۖ کا طریقہ سنت
کہلاتا ہے اور آپۖ نے فرمایا ہے'' من رغب عن سنتی فلیس منی ''جس نے میرے
طریقے سے اعراض کیاوہ مجھ سے نہیں ہے۔
اے محسن انسانیت ۖ! عبادات واطاعات سے متعلق آپۖ کی سیرت طیبہ اورعادات
شریفہ پربرابرلکھا اوربیان کیاجاتارہتاہے۔ دنیامیں ہرلمحہ ہرآن آپۖ کا
ذکرِخیر کہیں نہ کہیں ضرور ہوتارہتاہے۔ آپ کی سیرت سنائی اوربتائی جاتی رہے
گی پھر بھی آپ ۖ کاعنوان پرانانہیں ہوگا یہی معجزہ ہے آپ ۖکی مبارک سیرت
کااوریہی تفسیرہے ورفعنالک ذکرک کی۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی دنیا وآخرت میں کامیابی وسرفرازی
کا عنوان اتباع سنت ہے ،یہی اتباع ہردورہرزمانہ میں سربلندی اورخوش نصیبی
کی کنجی ہے۔ اگرکسی کوعہدِ رسالت نہ مل سکا توپھران کیلئےعہدِ صحابہ ہی
معیارِعمل ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پاکیزہ جماعت آپۖ
ہی کی تربیت کاعملی پیکرہے اسی لئے ہرطرح سے پرکھنے جانچنے کے بعدان کونسلِ
انسانی کے ہرطبقہ کے واسطے ایمان وعمل کامعیاربنایاگیاہے کیونکہ خودآپۖ نے
ان کی تربیت فرمائی ہے اوراللہ رب العالمین نے ان کے عمل وکردار،اخلاق و
اطوار،ایمان و اسلام اور توحید وعقیدہ، صلاح وتقویٰ کوباربارپرکھاپھراپنی
رضاوپسندیدگی سے ان کوسرفرازفرمایا، پھر کہیں فرمایا اولئک الذین امتحن
اللہ قلوبہم للتقوی کہ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کے تقوی کواللہ نے جانچا ہے،
کہیں فرمایا آمنوا کما آمن الناس کہ اے لوگو ایسے ایمان لاؤجیساکہ محمد ۖ
کے صحابہ ایمان لائے ہیں تو کہیں فرمایا اولئک ہم الراشدون یہی لوگ ہدایت
یافتہ ہیں۔یہ سب اس لیے کہ یہ سب آپۖ کے تربیت یافتہ اورآپۖ کی سیرت کا عکس
جمیل تھے۔ ان کی عبادات میں ہی نہیں بلکہ چال ڈھال میں بھی آپ کی سیرت کا
نور جھلکتا تھا، یہی سبب ہے کہ خودآپۖ نے فرمایا اصحابی کالنجوم بایہم
اقتدیتم اہتدیتم (ترمذی)میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جن سے بھی اقتدا
ومحبت کا تعلق جمالوگے ہدایت پاجاؤ گے،چونکہ صحرا،جنگل میں سفر کرنے
کیلئےسمت معلوم کرنے کیلئے ستاروں کی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے اسی لئے آپۖ
نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو ستاروں سے تشبیہ دی کہ وہ نفوس
قدسیہ شرک وکفر کے صحرا میں مینارئہ ایمان ہیں۔
چندمستندکتابوں میں آپۖ کے چند خاص گوشوں کو موضوع بنایاگیاہے جو آپ کے
تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیان کردہ ہیں مختصر طور پر ہر اس
پہلو کو ذکر کرنے کی جسارت کر رہاہوں۔
بعض روایات کے مطابق12ربیع الاوّل عام الفیل کو آپۖ نے شکمِ مادر سے تولد
فرمایا۔ شمائلِ ترمذی حلیہ مبارکہ بیان کرنے کا سب سے مستند وجامع ذریعہ ہے
جس کوامام ترمذی رحم اللہ علیہ نے ذکرفرمایاہے،آپ ۖکا میانہ قد، سرخی
مائل،سفید گورارنگ، سرِاقدس پرسیاہ ہلکے گھنگھریالے ریشم کی طرح ملائم
انتہائی خوبصورت بال جوکبھی شانہ مبارک تک دراز ہوتے توکبھی گردن تک
اورکبھی کانوں کی لو تک رہتے تھے۔ رخِ انوراتناحسین کہ ماہِ کامل کے مانند
چمکتاتھا،سینہ مبارک چوڑا،چکلا کشادہ، جسم اطہرنہ دبلا نہ موٹاانتہائی سڈول
چکنا کہیں داغ دھبہ نہیں،دونوں شانوں کے بیچ پشت پرمہرِ نبوت کبوتر کے انڈے
کے برابر سرخی مائل ابھری کہ دیکھنے میں بے حد بھلی لگتی تھی، پیشانی کشادہ
بلند اورچمکدار،ابروئے مبارک کمان دار غیر پیوستہ،دہن شریف کشادہ، ہونٹ
یاقوتی مسکراتے تودندانِ مبارک موتی کے مانند چمکتے،دانتوں کے درمیان ہلکی
ہلکی درازیں تھیں تکلم فرماتے تو پندونصائح کے خزانے کوسمیٹنے میں دامن تنگ
نظرآتا، سینہ پربالوں کی ہلکی لکیر ناف تک تھی باقی پیکر بالوں سے پاک
تھاصحابہ کااتفاق ہے کہ آپۖ جیسا خوبصورت نہیں دیکھا گیا۔ حضرت حسان بن
ثابت رضی اللہ تعالی کوتوآپۖ ہی نے شاعرِرسول ۖ کالقب عطافرمایاہے۔وہ اپنے
نعتیہ قصیدے میں نقشہ کھینچتے ہیں:
وحسن منک لم ترقط عینی وجمل منک لم تلد النسا
خلقت مبر من کل عیب کنک قد خلقت کما تشا
آپ ۖ سے حسین مردمیری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھااورآپ سے زیادہ خوبصورت
مردکسی عورت نے نہیں جنا، آپۖ ہر قسم کے ظاہری وباطنی عیوب سے پاک پیدا
ہوئے گویا آپ اپنی حسب مرضی پیداہوئے ہیں، نہ کبھی آپ چیخ کر بات کرتے تھے
نہ قہقہہ لگاتے تھے نہ شور کرتے تھے نہ چلا کر بولتے تھے ہر لفظ واضح بولتے
جب مجمع سے مخاطب ہوتے توتین بارجملہ کوبالکل صاف صاف دہراتے
تھے۔اندازِکلام باوقار،الفاظ میں حلاوت کہ بس سنتے رہنے کودل مشتاق،لبوں
پرہمہ دم ہلکاساتبسم جس سے لب مبارک اوررخِ انورکاحسن بڑھ جاتاتھا،راہ چلتے
تو رفتارایسی ہوتی تھی گویاکسی بلندجگہ سے اتررہے ہوں،نہ دائیں بائیں
مڑمڑکردیکھتے تھے نہ گردن کوآسمان کی طرف اٹھاکرچلتے تھے،تواضع کی
باوقارمردانہ خوددارانہ رفتارہوتی،قدمِ مبارک کوپوری طرح رکھ کر چلتے تھے
کہ نعلین شریفین کی آوا نہیں آتی تھی ہاتھ اورقدم ریشم کی طرح ملائم گداز
تھے، ذاتی معاملہ میں کبھی غصہ نہیں ہوتے تھے،اپناکام خودکرنے میں تکلف نہ
فرماتے تھے کہ کوئی مصافحہ کرتاتواس کاہاتھ نہیں چھوڑتے تھے جب تک وہ خود
الگ نہ کرلے،آپۖ جس سے گفتگو فرماتے پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوتے،کوئی
آپۖ سے بات کرتاتوپوری توجہ سے سماعت فرماتے تھے،پھر بھی ایسارعب تھا کہ
صحابہ کوگفتگو کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ ہرفرد یہی تصور کرتا تھا کہ مجھ کو ہی
سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔
تاجِ رسالت اورخلعت نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد آپۖ نے ایک ایسے سماج
ومعاشرہ کو ایمان و توحید کی دعوت دی جو گلے گلے تک شرک وکفرکی دلدل میں
گرفتارتھا،ضلالت وجہالت کی شکار تھی انسانیت، شرافت مفقودتھی،درندگی
اورحیوانیت کاراج تھا،ہرطاقتورفرعون بناہواتھا۔ قتل وغارت گری کی وبا
ہرسوعام تھی نہ عزت محفوظ،نہ عصمت محفوظ،نہ عورتوں کاکوئی مقام،نہ غریبوں
کیلئےکوئی پناہ، شراب پانی کی طرح بہائی جاتی تھی۔بے حیائی اپنے عروج
پرتھی،روئے زمین پر وحدانیت حق کا کوئی تصورنہ تھا،خودغرضی،مطلب پرستی
کادوردورہ تھا،چوری چکاری،بدکاری اپنے عروج پرتھی اورظلم وستم ناانصافی
اپنے شباب پرتھی،خدائے واحد کی پرستش کی جگہ معبودانِ باطل کے سامنے
پیشانیاں جھکتی تھیں، نفرت وعداوت کی زہریلی فضا انسان کوانسان سے دورکرچکی
تھی،انسانیت آخری سانس لے رہی تھی معاشرہ سے شرک کاتعفن اٹھ رہاتھا۔کفر کی
نجاست سے قلوب بدبودارہوچکے تھے۔اس دور کا انسان قرآن کریم کے مطابق جہنم
کے کنارے کھڑاتھا،ہلاکت سے دوچار ہونے کے قریب کہ رحمت حق کورحم آیا
اورکوہِ صفا سے صدیوں بعد انسانیت کی بقا کااعلان ہوا کہ یآایہاالناس
قولوالاالہ الااللہ تفلحوا، اے لوگو!لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
پرایمان لاؤ،فلاح و صلاح سے ہمکناررہوگے۔ یہ آواز نہیں تھی بلکہ ایوان باطل
میں بجلی کا کڑکا تھا۔
وہ بجلی کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
آپۖ کی یہی آوازِ حق ایک عظیم الشان انقلاب کی ابتدا تھی جس نے دنیائے
انسانیت کی تاریخ بدل دی یہ اعلان توحیدکی حیات نوکاپیغام تھا جس نےآپۖ کی
یہی آوازِ حق ایک عظیم الشان انقلاب کی ابتدا تھی جس نے دنیائے انسانیت کی
تاریخ بدل دی یہ اعلان توحیدکی حیات نوکا پیغام تھا جس نے مردہ دل عربوں
میں زندگی کی نئی روح پھونک دی اورپھردنیا نے وہ منظر دیکھا جس کا تصور بھی
نہ تھا کہ قاتل عادل بن گئے،بت پرست بن شکن بن گئے،ظلم وغضب کرنے والے حق
پرست اوررحم دل بن گئے،سیکڑوں معبودانِ باطل کے سامنے جھکنے والی پیشانیاں
خدائے واحد کے سامنے سرنگوں ہوگئیں،عورتوں کوجانور سے بدتر جاننے والے قطع
رحمی اورکمزوروں پر ستم ڈھانے والے عورتوں کے محافظ، صلہ رحمی کے خوگر
اورکمزوروں کاسہارا بن گئے، نفرت وعدوات کا آتش فشاں سرد ہوگیا ،محبت و
اخوت کی فصلِ بہاراں آگئی، راہزن راہبراورظالم عدل وانصاف کے پیامبر بن
گئے۔
جو نہ تھے خود راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
اے امرمصباح!پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک امی لقب اعلی نسب رسول کے فداکاروں
نے ایمان وتوحید کی تاریخ مرتب کرڈالی،عدل وانصاف کے لازوال نقوش چھوڑے،
وحدت مساوات کی لافانی داستان رقم کردی، فتوحات کی انوکھی تاریخ لکھ دی
،جہانبانی وحکمرانی کے مثالی اصول مرتب کیے، عفت وپاکدامنی
کاریکارڈچھوڑگئے،وفاداری،فداکاری کے انمٹ نقوش تحریرکردیئے،عظمت ورفعت کے
ان بلندیوں پرپہنچے جہاں سے اونچامقام صرف انبیاومرسلین کو نصیب ہوسکتا
ہے،ایسا انقلاب دنیا نے کب دیکھا تھا اور کہاں سنا تھا۔
صبرواستقامت:آپۖ نے دعوت حق اوراعلانِ توحید کی راہ میں اپنے ہی لوگوں کے
ایسے ایسے مصائب وآلام دیکھے کہ کوئی اورہوتاتو ہمت ہارجاتامگر آپۖ
صبرواستقامت کے کوہِ گراں تھے، دشمنانِ اسلام نے قدم قدم پرآپ
کوستایا،جھٹلایا،بہتان لگایا،مجنون ودیوانہ کہا، ساحرو کاہن کا لقب
دیا،راستوں میں کانٹے بچھائے،جسم اطہر پرغلاظت ڈالی،لالچ دیا، دھمکیاں دیں،
اقتصادی ناکہ بندی اورسماجی مقاطعہ کیا،آپ کے شیدائیوں پرظلم وستم
اورجبرواستبداد کے پہاڑتوڑے،نئے نئے لرزہ خیزعذاب کاجہنم کھول دیا کہ کسی
طرح حق کا قافلہ رک جائے، حق کی آواز دب جائے،مگر دورِ انقلاب شروع ہوگیا
تھا، توحید کا نعرہ بلند ہوچکا تھا، اس کو غالب آنا تھا۔
یریدون لیطفوانوراللہ بافواہہم واللہ متم نورہ ولوکرہ الکافرون(القرآن)کفار
چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور (ایمان واسلام)کواپنی پھونکوں سے بجھادیں اور
اللہ پورا کرنے والا ہے اپنے نور کو اگرچہ کفار اس کا ناپسند کریں۔ خودآپ ۖ
کا ارشادِ گرامی ہے:ابتلاء وآزمائش میں جتنامجھ کو ڈالاگیا کسی اور کو نہیں
ڈالاگیا۔ اسی طرح آپ کے صحابہ پرجتنے مظالم ڈھائے گئے کسی اورامت میں نہیں
ڈھائے گئے۔
ہجرتِ مبارکہ: جب مکہ کی سرزمین آپۖ اورآپۖ کے صحابہ کرام پر بالکل تنگ
کردی گئی تب بحکم الٰہی آپۖ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور صحابہ کرام نے
اللہ کیلئےاپنے گھربار،آل واولاد، زمین وجائداد سب کو چھوڑچھاڑکرحبشہ
ومدینہ کارخ کیا۔آپ ۖکے حکم پرپہلی ہجرت صحابہ کے ایک گروہ نے حبشہ کی طرف
کی تھی، پھر جب آپۖ مدینہ تشریف لے گئے تو مدینہ اسلام کا مرکز بن گیا،
ہجرت رسول کے بارے میں مفکر اسلام علی میاں ندوی کا یہ جامع اقتباس بہت ہی
معنویت رکھتا ہے کہ ہجرت کس جذبہ کانام ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے
کتنی زبردست قربانی دی تھی۔
"رسول اللہۖ کی اس ہجرت سے سب سے پہلی بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ دعوت
اورعقیدہ کی خاطر ہر عزیز اورہرمانوس ومرغوب شئے اورہراس چیزکو جس سے محبت
کرنے،جس کوترجیح دینے اور جس سے بہرصورت وابستہ رہنے کا جذبہ انسان کی فطرت
سلیم میں داخل ہے،بے دریغ قربان کیا جاسکتاہے لیکن ان دونوں اوّل
الذکرچیزوں(دعوت وعقیدہ) کوان میں سے کسی چیز کیلئےترک نہیں کیاجاسکتا (نبی
رحمت)اورہجرت رسول ۖ کایہی پیغام آج بھی مسلمانوں کے سامنے ہے کہ ایمان و
عقیدہ اوردعوت وتبلیغ کسی بھی صورت میں ترک کرنا گوارہ نہ کریں یہی دونوں
تمام دنیوی و اخروی عزت وکامیابی کاسرچشمہ ہے''۔ |