نام نہاد عاشقانِ رسول ﷺ اور ان کی ’’مہربانیاں‘‘!

سپریم کورٹ کی جانب سے توہینِ رسالتﷺ کے الزام میں دوعدالتوں سے سزایافتہ مجرمہ آسیہ مسیح کی بریت کے فیصلے کے بعد سے ملک میں ایک بے یقینی کی سی کیفیت ہے۔اس فیصلے کو تمام دینی حلقوں میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔تمام دینی جماعتوں نے اپنا احتجاج کا جمہوری حق استعمال کیا۔
ان میں ایک جماعت ایسی بھی تھی جس نے ماضی کی طرح اپنی دھرنوں کی رِیت برقرار رکھی۔پہلے چند شہروں کو جام کرنے کے حوالے سے مشہور اس جماعت نے اس بار پورے ملک کو جام کیے رکھا۔چوں کہ ایشوایسا تھا جس کے معاملے میں کوئی مسلمان اپنی جان ،مال سمیت کسی چیز کو ناموس رسالت ﷺ پر ترجیح نہیں دے سکتا،کہ ہم گنہ گاروں کو اسی شفیع المذنبین ﷺ کی شفاعت ہی کا تو آسرا ہے،اس کے علاوہ سوائے جرم وعصیاں کے پلے ہے ہی کیا……سو ان کے دھرنوں میں حاضری بھی ماضی سے زیادہ رہی،ملک بھی جام رہااورکاروبار بھی بند رہا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپنی ناپسندیدہ جذباتی وجنونی شہرت سے ہٹ کر تحریک لبیک پاکستان کی قیادت تمام قوم کی امنگوں کا پاس رکھتی،خود کو پوری قوم کا نمائندہ سمجھتے ہوئے احساس ِ ذمے داری کاثبوت دیتی،کہ ان کاکوئی بھی زبانی یا عملی اقدام صرف ان کی نہیں ،پوری قوم کی ترجمانی سمجھا جارہا تھا،لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔

اس جماعت کے بَونے قائدین نے اس عوامی تائید وحمایت کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔اپنے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہوئے پاک فوج کو آرمی چیف کے خلاف بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی،فیصلہ کرنے والے ججز کو واجب القتل قرار دیا،منتخب وزیراعظم کے وقار کی توہین کی۔یہ چھوٹے اور معمولی جرائم نہیں تھے۔خاص طور پر پاک فوج میں بغاوت کی کوشش اور معزز ججز کی توہین،اس کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمانوں کا امیج انتہائی متاثر ہوا۔ان کی جو تصویر دنیا بھر کے میڈیا سے دِکھائی گئی،وہ کسی طور بھی خوش کن نہیں تھی۔اس بات کو مقتدر ادارے ،حکومت اور میڈیا سمیت تمام اسٹیک ہولڈرزبخوبی سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا انفرادی عمل تھا،قوم کی ترجمانی ہرگز نہ تھی،بلکہ جس مسلک سے یہ جماعت وابستہ ہے یہ اس مسلک کے معتدل اکثریتی طبقے کی بھی آواز نہیں تھی۔یہ مطالبہ متفقہ’’ پیغام پاکستان ‘‘کی روح کے بھی منافی تھا۔اس کے باوجود اس اقدام پرریاست نے اس سنجیدگی کامظاہرہ نہیں کیا،جس کی ایک بالغ نظر قیادت سے امید کی جاسکتی ہے۔

ریاست کو اس موقع پر فوری طور پر اپنی رٹ کو نافذکرتے ہوئے یہ فتویٰ دینے والے فتنہ پرور پیر افضل قادری اور اس کے ہم نواؤں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانا چاہیے تھا،تاکہ یہ مطالبہ پوری قوم یا مسلمانان پاکستان کے امیج کی منفی تعبیر کا باعث نہ بنتا،لیکن ڈھیل دی جاتی رہی،اور کیمرے انتہاپسندانہ فتوے اور نعرے دکھاتے رہے،جس سے مسلمانوں اور عاشقانِ رسولﷺ کے حوالے سے یہ منفی سوچ ابھری کہ شاید وہ فوج اور آئین کے مخالف ہیں ۔ممکن ہے شاطر دشمن شاید یہی مقصد حاصل کرنا چاہتاہو۔جب یہ مقصد حاصل ہوگیا،تو راتوں رات معاہدہ بھی ہوگیا اور دھرنے بھی ختم کردیے گئے۔اگرچہ اب ریاست کی جانب سے ان لوگوں کے خلاف بغاوت کے مقدمے درج کیے جانے کی خبریں زیرِ گردش ہیں ۔یہ قدم پہلے دن ہی اٹھایاجاتا،تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ہمارے معزز وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں اس طبقے کے خلاف اپنا ردعمل تو دیا،لیکن فردِواحد کے خلاف کارروائی نہ کی۔جس کی وجہ سے اس ردعمل کو پوری قوم کے خلاف سمجھاگیا۔یہ دوسرا نقصان تھا،جو حکومت کے بروقت اپنی رٹ کو نافذ نہ کرنے سے ہوا۔بہرحال!دیر آید درست آید،اﷲ کرے کہ حکومت اور ریاست اپنی ذمے داریاں پوری کرتے ہوئے تمام مسلمانوں پر شدت پسندی کا مبہم الزام لگانے کے بجائے شدت پسندوں کے خلاف،جو کسی سے مخفی نہیں ،آہنی شکنجہ تنگ کردے۔

کیا کوئی ان نام نہاد عاشقان مصطفیﷺ سے یہ سوال کرسکتا ہے کہ:آپ تو چیف جسٹس کے استعفے کا مطالبہ لے کر اٹھے تھے،اس سے کیوں دست بردار ہوگئے؟آپ تو ججز کے خلاف قتل کے فتوے دے رہے تھے اور ان پرعمل کی صورت میں جنت کے ٹکٹ بانٹ رہے تھے،کیا اب جنت میں جانے کی شرائط تبدیل ہوگئیں ؟اگر ہاں!تو یہ شرائط کس نے بنائی تھیں اور کس نے تبدیل کیں ؟رحمت للعالمین ﷺکی شریعت اور اﷲ تعالیٰ کی بنائی ہوئی جنت میں جانے کی تو یہ شرائط نہ قرآن میں آئی ہیں اور نہ ہی حدیث میں ،وحی ونبوت کا سلسلہ بھی منقطع ہوچکاہے،پھر آپ پر یہ وحی کہاں سے ہوتی ہے،جس میں ردّوبدل بھی ہوتا رہتاہے؟یہ پاور آف اٹارنی اور یہ اتھارٹی کس نے پیر افضل قادری اور بابا خادم حسین رضوی کو تفویض کی ہے؟جس معاہدے کی بنیاد پر دھرنے ختم کیے گئے،اس میں کون سی مضبوط بات ہے،جس سے آسیہ کی بریت رک جائے گی؟اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ تو دھرنوں کے بغیر بھی کیا جاسکتا تھا،ملک کو تین دن کے لیے جام کرنا کس کے اشارے پر تھا؟یہ مطالبہ معتدل علمائے کرام نے بھی تو کیا تھا،اوراس پر عمل درآمد کی بھی امید تھی۔اسی طرح نظر ثانی کی اپیل بھی مدعی کی طرف سے دائر کرنے کی خبریں اخبارات میں آچکی تھیں،آپ نے کون سی انقلابی پیش رفت کی؟قانون کی ادنیٰ سی سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی اس بات کو جانتا ہے کہ فوجداری مقدمات میں نظرثانی کی اپیل ریاست اور اسٹیٹ کی طرف سے دائر کی جانی چاہیے۔کیاآپ ریاست اور اسٹیٹ سے یہ بات منوانے میں کامیاب ہوئے؟بلکہ آپ نے یہ مطالبہ رکھا ہی کب؟کیاہی بہتر ہوتاکہ جو توانائیاں دھرنوں میں صرف کردی گئیں ،انھیں اس کیس کی نظر ثانی کی اپیل کے حوالے سے قانونی ماہرین سے مشاورت میں صرف کیا جاتا۔یہ آپ کی ہی اشتعال انگیزی ہے کہ آج جبران ناصر جیسے لبرل لوگ پورے دین دار طبقے کو فوج اور آئین کا غدار قرار دے رہے ہیں ۔یہ آپ ہی کی جذباتیت کا نتیجہ ہے کہ سنت ِرسول ﷺسے اپنے چہروں کو سجانے والے باشرع پولیس اہلکاروں کو وی آئی پیزکے سیکورٹی اسکواڈسے ہٹایا جارہاہے۔یہ آپ ہی کی گرم گفتاری تھی جس کی وجہ سے وزیراعظم نے پورے دینی طبقے کو تنقید کانشانہ بنایا۔کیا یہی تھے وہ فلک بوس قلعے،جن کو فتح کرنے کے لیے آپ میدان میں نکلے تھے؟

مفتی منیب الرحمن ،چیئرمین رؤیت ہلال کمیٹی ،سمیت اس مسلک کے معتدل علماکو چاہیے کہ ان لوگوں کے حوالے سے اپنے مسلک کی پوزیشن واضح کریں ،انھیں سمجھائیں یا ان سے اعلان ِلاتعلقی کردیں،تاکہ ان کی بات کو مسلک کی بات نہ سمجھا جائے۔ساتھ ہی ہماری تمام مسالک ومکاتب ِفکر کی سنجیدہ دینی قیادت سے بھی گزارش ہے کہ اپنی اسٹریٹ پاور کو ان کے ہاتھوں میں کھیلنے سے بچانے کی فکر کریں ۔آپ اسی طرح تغافلِ عارفانہ سے کام لیتے رہے تو مغرب کے اس پروپیگنڈے کو مزید تقویت ملنے میں دیر نہیں لگے گی کہ مسلمان شدت پسند،جذباتی اور جنونی ہوتاہے۔خدارا!قوم پر رحم کھائیے۔اپنی صفوں کو اس قماش کے ابن الوقت عناصرسے جلد پاک کیجیے،ورنہ عشق رسالتﷺکابھاشن دے کر یہ ملک وقوم کو مزید بحرانوں میں دھکیل دیں گے۔

M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 308076 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More