اسلاف کی روایتوں کے امین۔۔مولاناسمیع الحق شہید رحمہ اللہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے،کئی اداروں کے روح رواں اور پہچان تھے ،جید عالم دین،سابق رکن سینیٹ،متعدد دینی،سیاسی اور جہادی تحریکوں کے بانی،جمیعت علماء اسلام (س)کے امیر،دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین،اسلاف اور اکابرین امت کی روایتوں کے امین،ماہنامہ الحق کے مدیر اعلیٰ ،مصنّف،محقق،مفکّر،مدبّر،صلح جو،محدّث و مفسّر قرآن کریم اوراستاذالمجاہدین والعلماء ہونے کے ساتھ ساتھ اندرون و بیرون ملک میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میں یکساں مقبول اور قابل بھروسہ شخصیت، شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق شہید سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت پا کر ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔

مولاناسمیع الحق شہید کی ولادت 18 دسمبر 1937ء کو اکوڑہ خٹک میں ہوئی،آپ کے والدمولاناعبدالحق رحمہ اللہ فاضل ومدرس دارلعلوم دیوبند تھے ،آپ جید عالم دین اور دارلعلوم حقانیہ کے مہتمم اور قیام پاکستان کے بعد رکن قومی اسمبلی بھی رہے ،مولانا عبدالحق رحمہ اللہ نے دارلعلوم حقانیہ کا قیام اکوڑہ خٹک کے مقام پر1947 میں کیا تھا ،مولاناسمیع الحق نے مکمل دینی تعلیم اپنے والد کی زیرسرپرستی یہیں حاصل کی تھی،اللہ کریم نے آپ کو بے حد صلاحیت ،مقبولیت اور قابلیت عطا فرمائی تھی، تعلیم مکمل کرنے کے بعد دارلعلوم میں ہی شعبہ تدریس سے منسلک ہوگے،آپ 1965 سے تادم شہادت دارلعلوم حقانیہ کے ترجمان ماہنامہ" الحق" کے مدیر مسؤل رہے ،آپ کے قلم سے ہزاروں علمی،تحقیقی اور تاریخی تحاریر منصہ شہود پر آئیں،بلاشبہ ماہنامہ ''الحق ''نے ملکی و بین الاقوامی سطح پر خوب پذیرائی حاصل کی اور آپ کی زیرادارت اس ماہنامہ نے کئی نامور لکھاریوں کو قلمی دنیا میں متعارف کروایا۔آپ بلند پایہ مصنف،محقق اور ادبی ذوق رکھتے تھے،آپ نے ''خطبات مشاہیر''(دس جلدیں) اور''مکاتیب مشاہیر''(دس جلدیں)کے نام سے کتب کا قیمتی علمی،ادبی اور تا ریخی ذخیرہ مرتب فرمایا جب کہ امام التفسیر مولانااحمدعلی لاہوری رحمہ اللہ کی تفسیر کے 26 پاروں پر حواشی اور تحقیقی کا م کرکے اہل علم کی علمی تسکین کا سامان کرنے کے ساتھ ساتھ سعادت دارین کو اپنے نام کروا لیا۔ آپ نے 1965 ؁ء میں مولانا عبد الحق صاحبؒ کی زیر سرپرستی ''مؤتمر المصنفین ''کی بنیاد رکھی،اس شعبہ کے تحت نئے لکھاریوں کو تیار کیا جاتا اور علمی وتحقیقی خدمات سرانجام دی جاتی رہیں،اس شعبہ کے زیر اہتمام مندرجہ ذیل تاریخی اور علمی ذخیرہ شائع کیاگیا۔ جن میں حقائق السنن شرح جامع السنن لترمذی،دعوات حق دو جلد،قومی اسمبلی میں اسلام کامعرکہ،عبادات وعبدیت،مسئلہ خلافت وشہادت،اسلام اورعصر حاضر،شریعت بل کا معرکہ،شیخ الحدیث مولانا عبد الحق ؒ نمبر،شرح شمائل ترمذی اسلام کا نظام اکل وشرب،انوارِ حق دو جلد یں،خطبات مشاہیر اور مکتوبات مشاہیرسرفہرست ہیں۔

شیخ الحدیث مولانا عبدالحق کی وفات کے بعد دارلعلوم کی مجلس شوریٰ نے مولانا سمیع الحق شہید کو بالاتفاق دارلعلوم کا مہتمم منتخب کیا،آپ کی زیر ادارت دارلعلوم حقانیہ قرآن وسنت،علوم اسلامیہ و علوم احادیث کے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ رشد وہدایت،تحقیق واشاعت،سیاست اسلامیہ اور جہاد فی سبیل اللہ کاغیر معمولی مرکز اور منبع بن گیا تھا،تشنگان علم ملک بھر کے علاوہ افغانستان اور مشرق وسطیٰ کے ریاستوں سے یہاں کا رخ کرتے رہے،آپ نے اساطین علم،ماہر اور غیر معمولی استعداد کی حامل شخصیات کی تدریسی خدمات حاصل کیں جن کی وجہ سے دارلعلوم کی شہرت پوری اسلامی دنیا میں پھیل گئی ، بقول مہتمم دارلعلوم دیوبند حضرت قاری محمد طیب رحمہ اللہ '' دارالعلوم حقانیہ پاکستان کا دارالعلوم دیوبند اور دیوبند ثانی ہے‘‘،جب کہ جامعہ الازہر مصر کے وائس چانسلر شیخ عبد اللہ الزائد نے دارالعلوم آمد پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’جامعہ کی بے لوث اور ناقابل فراموش خدمات کو دیکھ کر کہوں گا کہ یہ جامعہ الازہر قدیم ہے''

مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ عالمی حالات اور ملکی منظرنامے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے تھے،آپ آئینی اور پارلیمانی جدوجہد پر مکمل یقین رکھتے تھے،آپ نے 1970ء میں سیاسی و پارلیمانی جدوجہد کا آغاز اپنے والد مولانا عبدالحق رحمہ اللہ کے زیرتربیت شروع کیا جب کہ 1981 تا1998 رکن وفاقی مجلس شوریٰ اور رکن سینیٹ آف پاکستان رہے،اس تمام سیاسی زندگی میں اصولوں کی سیاست پر کاربند رہے،حکمرانوں کی غلط اور غیراسلامی پالیسیوں کی کھلے بندوں تعمیری تنقید کرنا آپ کا شعاررہا۔آپ اسلامی جمہوری اتحاد،افغانستان دفاع کونسل، متحدہ شریعت محاذ،دفاع پاکستان کونسل،ملی یکجہتی کونسل،متحدہ مجلس عمل سمیت کئی دینی وسیاسی اتحادوں کے بانی تھے،جب کہ دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین اور جمیعت علماء اسلام کے امیر کی حیثیت سے آخری دم تک خدمات سرانجام دیتے رہے۔
دارلعلوم حقانیہ سے شرف تلمیذ حاصل کرنے والے طلبہ میں بہت بڑی تعداد افغانستان کے نوجوانوں کی تھی،یہی وجہ ہے کہ جب سوویت یونین کے خلاف افغان سینہ سپر ہوئے تو ان میں بڑی تعداد انہی علماء وفضلاء کی تھی،جب طالبان برسراقتدار آئے تو آپ نے ان کی کھل حمایت کی اور اسے سرزمین افغانستان کے امن ،استحکام اور ترقی کے لیے نیک شگون قرار دیا تھا۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سقوط طالبان کے بعد کی صورت حال میں مولانا سمیع الحق شہید کا کردار ہمیشہ اہم رہا،طالبان سے مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے آپ سے زیادہ موزوں شخصیت کوئی نہ تھی،آپ افغانستان سے بیرونی طاقتوں کے انخلاء کو قیام امن کے لیے اہم گردانتے تھے،آپ اپنے ان تحفظات کا اظہار ہر فورم پر کرتے رہے،یکم اکتوبر 2018 کو افغان حکومت کے ایک وفد نے اکوڑہ خٹک میں ملاقات کرکے آپ سے افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کی کوششوں میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی، اس موقع پرآپ نے انہی خیالات اور تحفظات کا اظہار کیا تھا ۔آپ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کو استحکام وطن کی بنیادی اکائی سمجھتے تھے ،آپ نے وطن عزیز کے استحکام کے لیے ملک کی نامور دینی ،سیاسی اور عسکری پس منظر رکھنے والی شخصیات جنرل (ر)حمیدگل مرحوم ،مولانامحمداحمدلدھیانوی ،مولانافضل الرحمن خلیل ،سردارعتیق ،حافظ محمدسعید ،منور حسن اور دیگر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے "دفاع پاکستان کونسل" کا قیام عمل میں لا کر محب وطن دینی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور پاکستان کی نظریاتی وجغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کے لیے آئینی جدوجہد کو دوام بخشا ،یہی وجہ تھی کہ مولانا سمیع الحق شہید عالمی استعمار کی آنکھوں کا کانٹا بنے رہے ،آپ کو اپنے موقف سے پسپا کرنے کے لیے آپ کی کردار کشی سے لے کردارلعلوم حقانیہ کے خلاف منفی پروپیگنڈہ تک ہر حربہ آزمایا جاتا رہاجو تاحال جاری ہے۔

شیخ الحدیث مولاناسمیع الحق کو 2نومبر 2018 جمعہ کے دن عصر کے بعد راولپنڈی میں ان کے گھر کے اندرگھس کر سفاک قاتل نے چاقووں کے متعدد وار کرکے زخمی کیاجن کی تاب نہ لاتے ہوئے آپ نے 82 سال کی عمرمیں جام شہادت نوش کیا،یقیناًآپ نے سعادت کی زندگی اور شہادت کی اعلیٰ موت پائی،بلاشبہ آپ کی زندگی دینی محنت کرنے والے ہرایک فرد کے لیے مشعل راہ ہے ، آپ آخری دم تک علوم اسلامیہ کی اشاعت ،تحفظ ناموس رسالت اور دینی وفکری جدوجہد میں سرگرم عمل رہے ۔آپ کی شہادت سے جہاں دینی تحریکوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا وہیں استحکام پاکستان کے لیے فکری جدوجہد کرنے والے افراد اور فورم عظیم سرپرست سے بھی محروم ہوگئے ،آپ کی مظلومانہ شہادت اور تاریخی جنازے کے منظرکو دیکھ کر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا تاریخی جملہ یاد آتا ہے کہ "ہمارے جنازے ہماری حقانیت کا فیصلہ کریں گے"۔اللہ کریم آپ کی تمام دینی،علمی،سیاسی،سماجی اور تحریکی جدوجہد کو شرف قبولیت عطافرمائے اور اپنی شان کے مطابق اجر عظیم عطا فرمائے۔آمین
 

Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 275576 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More