نئے تعینات ہونے والے آر پی او گوجرنوالہ طارق علی قریشی
نے پولیس دربار سے انتہائی مشفقانہ خطاب کرتے ہوئے مختلف مقدمات میں ملوث
128ملازمین کی سزاؤں کو معاف کر دیا ہے ، یہی نہیں اپنے ’’شاہی خطاب‘‘ میں
انہوں نے اپنی تعیناتی کے دوران پولیس کانسٹیبل سے لے کر ایس پی تک کسی کو
سزا نہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے پولیس کو عملاََ لائسنس ٹو کل دے دیا ہے،
ہمارا ملک چونکہ ہمیشہ ہی سے پولیس سٹیٹ بنا رہا ہے اس میں پولیس بادشاہ
ہوتی ہے اور اسی لئے دربار لگاتی ہے ، دربار میں فیصلے بھی عین شاہی ہوئے
ہیں ، ان حالیہ مضحکہ خیز فیصلوں کے بعدقانون کی حکمرانی کا خواب دیکھنا
بھی ناممکن بن گیا ہے ، تھانہ کلچر میں تبدیلی ، پولیس کے رویئے میں بہتری
کے لئے بجائے اسکے کہ پولیس کو زیادہ سے زیادہ ذمہ دار اور قانون کے سامنے
جوابدہ بنایا جائے اسے قانون سے آزاد کر دیا گیا ہے ، اس بھیانک اقدام کے
بعد گوجرانوالہ میں پولیس وہ گل کھلائے گی جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا ،
آر پی او جیسے ایک اعلی افسر جو سزا اور سزا کا اختیا ر رکھتا ہے اسکی جانب
سے پولیس کو کھلی چھوٹ دینے کامطلب یہ ہے کہ پولیس آج سے جتنی مرضی لوٹ مار
کرے، جعلی مقابلوں میں بندے پار کرے ، پیسے کھا کر چادر چار دیواری کا تقدس
پامال کر کے رکھ دے یا مکانوں اور زمینوں کے قبضے چھین کے دے ، اسے سزاکا
کوئی خوف نہیں ہو نا چاہئے ،آر پی او کا یہ قدم انکی پولیس میں مقبولیت
حاصل کرنے کی ایک نادان مگر بھونڈی کوشش ہو سکتی ہے ، ویسے بھی پولیس ایک
سوچ بن چکی ہے ، جو عوام کو محکموم اور دبا کر رکھنا چاہتی ہے اسکا قیام ہی
اس مقصد کے لئے عمل میں لایا گیا تھا ، اچھی شہرت کے حامل ، انقلابی سوچ
رکھنے والے سابق سینئر پولیس افسر ذوالفقار علی چیمہ نے پولیس کو چند سال
کے لئے سزا سے مبرا قرار دینے کے قانون سازی کے خیال ہی کو بھیانک قرار دیا
تھا ، گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو سزا
اور ٹرانسفر کے خوف سے آزادکر دینا مناسب اقدام نہیں ہو گا کیونکہ اگر اس
دوران کو ئی آفیسر قانون توڑے اور عوام پر ظلم شروع کر دے تو پھر اسے کس
طرح ہٹایا جاسکے گا ،نئے آر پی او نے سینئر صحافیوں احتشام احمد شامی ،
ڈاکٹر عمر نصیر اور رانا محسن خالد سے غیر رسمی گفتگو میں پولیس ویلفیئر کے
مختلف منصوبوں پر بھی تبادلہ ء خیال کیا جن پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ،
تاہم قانون کی حکمرانی اور عملدآری سب کے لئے ہے ، پولیس کو آپ کیسے قانون
سے استثنیٰ دے سکتے ہیں ، 128ملازمین کے کیسز کو میرٹ پر صاف شفاف طریقے سے
سنا جاتا اور قانون کے مطابق سزائیں دی جاتیں تو آئندہ کوئی ملازم قانون
توڑنے سے پہلے سو بار سوچتا ، عوام پولیس کے ہاتھوں پہلے ہی عدم تحفظ اور
خوف کا شکار ہیں ،کرائم کی اصل شرح سامنے نہ آنیکی وجہ تھانوں میں کیسز
رپورٹ نہ ہونا ہے ، چھوٹی موٹی ڈکیتی ، موبائل چھن یا گم ہوجانا تو لوگ
نصیب سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور تھانے کا رخ نہیں کرتے ،ورنہ تو ئیہان
جرائم کی شرح اتنی ہے کہ سن کر ہوش ٹھکانے آجائیں ، افسوس کہ گوجرانوالہ
میں اعلیٰ افسران قانون کی عملدآری اور حکمرانی کو یقینی بنانے سے ز یادہ
یہاں اپنی دانشوری چمکانے آتے ہیں ، لمبے لمبے لیکچر اور طویل پریس ریلیز
معمول بنایا ہوا ہے ، عوام کو ایک ٹکے کا ریلیف نہیں اور پولیس افسران
سرکھانے والی بے تکی تقریروں کے شوقین ہیں ،یہ وہی پولیس ہے جو ہزاروں بے
گناہوں کو ہر روز جیلوں میں بھجواتی ہے ، کمزوروں کو مضبوط کیسوں میں ملوث
کرتی اور اشتہاریوں کی سب سے بڑی محافظ ہے ، موجودہ آر پی او نے آکر جو غیر
معمولی اعلان کیا ہے ، اسکے بعد عوام کے لئے عین مناسب ہے کہ وہ پولیس کے
ہاتھوں اپنی چمڑی اتروانے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو جائیں اور خود بخود
تھانوں کے باہر جاکر مرغے بن جائیں ،یوں بھی آنے والے دنوں میں ان تھانوں
میں بے گناہوں کی آہوں ، سسکیوں اور چیخوں کی آوازیں گونجنے و الی ہیں، بہت
سے لوگوں کو ناکوں پر ننگے ہونا ہے ، منہ سونگھانے ہیں اورتذلیل کے عمل سے
گزرنا ہے ،نئے پاکستان کی قانون کی پکڑ سے آزادپولیس ان سب کو مبارک ہو
جنہوں نے اسے غیر سیاسی اور مثالی بنانے کے جھوٹے دعوے کئے تھے ۔یہ دعوے اب
زناٹے دارتھپڑ بن کر انہی کے منہ کی طرف لوٹ رہے ہیں ۔۔۔۔لیجئے قبول کیجئے
جناب ۔
|