سپریم کورٹ سے ملعونہ آسیہ کی بریت کے فیصلے سے دینی
جماعتیں سڑکوں پر آگئیں۔ اور ملک کے ہر کونے میں احتجاج‘ جلاؤ‘ گھیراؤ کا
سلسلہ تین دن تک جاری رہا۔ سوشل میڈیا پر بھی ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔
تعلیمی ادارے ٹرانسپورٹ تک بند کر دی گئیں۔ کاروباری مراکز بھی کھل نہ سکے۔
شاہراؤں پر حکومت نے مظاہرین کو روکنے کے لئے جگہ جگہ کنٹینر لگا کر راستے
بند کر دئیے گئے تھے یعنی پورے ملک میں عجب افراتفری کی فضا قائم تھی۔ عام
شہری گھروں میں محبوس ہو کر رہ گئے تھے اس دوران راستے بلاک ہونے سے دودھ‘
سبزی و پھل کی شہری علاقوں میں ترسیل ممکن نہ ہو سکی۔ میڈیکل سٹورز نہ
کھلنے کی وجہ سے مریضوں کو بروقت دوائی کی دستیابی میں مشکل پیش آئی۔تین دن
تک سے تعلیمی ادارے بند ہونے سے طلبا کی پڑھائی کا حرج ہواجبکہ موبائل سروس
کی بندش سے ہمارا رابطہ دنیا و ملک کے دیگر حصوں سے منقطع رہا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عزت مآب جسٹس ثاقب نثار سے استدعا ہے کہ وطن عزیز
میں پہلے ہی بے چینی کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ ایسے میں آسیہ کے کیس کے فیصلہ
تھوڑی دیر کے لئے ملتوی کر دیا جاتا تو پاکستان کا اتنا مالی نقصان نہ ہوتا۔
آپ جانتے ہیں کہ ملک کے کسی بھی حصے میں ذرا سی بھی کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو
اس کا براہ راست ملکی معیشت پر پڑتا ہے۔ یہاں تو سمجھ لیں پورا ہفتہ سٹاک
ایکسچینج میں مندی کا رجحان رہا۔
ہمارے ملک کی معیشت جو پہلے ہی ڈانواں ڈول ہے ایسے میں مذکورہ کیس کے سپریم
کورٹ کے فیصلے سے شدید بحران پیدا ہو گیا۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ
سعودی عرب اور وہاں سے ملنے والی امدادی پیکج سے کاروباری حالات میں بہتری
آئی تھی۔ مگر احتجاجی مظاہروں‘ توڑ پھوڑ کے واقعات معاشی صورتحال کو مزید
گھمبیر بنا دیا۔
اعداد و شمار کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں 38 ہزار 589 کیسز ہائی
کورٹس میں دو لاکھ 947 کیسز التوا کا شکار ہیں۔ صرف لاہور ہائی کورٹ میں
ڈیڑھ لاکھ مقدمات زیر سماعت ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ میں زیر سماعت درخواستوں
کی تعداد 26 ہزار ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کی جائزہ رپورٹ کے مطابق ماتحت عدالتوں میں زیر التوا
مقدمات کی تعداد دو لاکھ سے زائد ہے۔ 2018ء کے پہلے چارہ میں ماتحت عدالتوں
میں ایک لاکھ 59 ہزار نئے کیس رجسٹرڈ ہوئے تھے اور دو لاکھ سے زائد کیسز پر
فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ سینکڑوں‘ ہزاروں کیس زیر التوا کیسوں کی تعداد
لاکھوں میں بنتی ہے۔ پاکستان میں عدالتی کارروائیوں میں سست روی کے باعث
سینکڑوں سائلین عدالتوں سے انصاف کی امید میں اس جہان فانی سے کوچ کر چکے
ہیں۔ ہزاروں مظلوم‘ لاچار و بے کس عدالت کی سیڑھیوں میں ہی اپنی جانیں گنوا
بیٹھے۔ متعدد ایسے بھی ہیں جن کی ساری جوانی عدالتوں کے چکر لگانے میں گزر
گئیں۔ انصاف کی متلاشی سینکڑوں خواتین انگریزوں کے بنائے گئے عدالتی نظام
کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ کئی عدالتوں کی راہداریوں میں ایڑیاں ایڑیاں رگڑ کر
مر گئے لیکن انہیں انصاف پھر بھی نہ مل سکا۔ وکیلوں کی فیسیں‘ سماعت میں
تاخیر‘ طویل عدالتی تاریخوں کی بدولت لوگوں کے دلوں میں سے انصاف ملنے کی
امید ہی دم توڑ چکی ہے۔
چیف جسٹس کا سپریم کورٹ ثاقب نثار کا نام تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا
جائے گا اگر وہ ان زیر التوا مقدمات کی ہنگامی بنیادوں کی سماعت کا بندوبست
کرتے اور سینکڑوں‘ ہزاروں سائلین کی ڈھیروں دعائیں لیتے جن کے نصیب میں
عدالتوں کے چکر لکھ دئیے گئے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ اگر ایک مرتبہ آپ کے
پیر میں عدالت کا چکر پڑ گیا تو ساری عمر یہیں آنے جانے میں بیت جاتی ہے۔
دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اولادیں یہ ذمہ داری سنبھال لیتی ہیں اور پھر ان
کا چکر شروع ہو جاتا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار عوامی مسائل کے حل کے لئے متحرک ہیں۔ انہوں نے ملک سے
پانی کی قلت کو دور کرنے ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو خشک سالی سے بچانے
کیلئے ڈیم کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا ہے جو چیف جسٹس کا ایک انقلابی اقدام ہے۔
پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے کہ وہ اس میں ضرور سرخرو ہوں گے۔ ملک سے کرپشن
و لوٹ مار کے خاتمے کے لئے احتساب کی دبنگ کارروائیاں انہی کی جرات مندی کی
بدولت ممکن ہو پائیں۔ تاہم ماتحت عدالتوں میں فائلوں کو جلد سے جلد نمٹانے‘
کیسز کو فوری اوپن کرانے اور عدالتی نظام کی بہتری کیلئے خاطر خواہ
کارکردگی نہیں دکھا سکے۔
چیف جسٹس صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹے مقدمے کی سماعت مکمل ہونے
میں تین سے پانچ سال لگ جاتے ہیں۔ اس عرصہ میں سائل کو کس قدر دشواریوں کا
سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی ان تکالیف کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ غریب لوگ
اپنی زمینیں‘ عمر بھر کی جمع پونجی عدالت میں پیشیاں بھگتنے پر صرف کر دیتے
ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے اس وقت ملک بھر کی جیلوں میں کئی بے قصور سزا
کاٹ رہے ہیں اور کئی معمولی جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں رہا نہیں ہو
سکتے۔ جبکہ جس کے پیسے ہیں یا ریفرنس ہے اسے تو چند پیشیوں میں ہی رہائی مل
جاتی ہے اور اس کا وکیل اپنے کلائنٹ کا من پسند فیصلہ عدالت سے لینے میں
کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جن کے پاس وکیل کی فیس دینے
کے پیسے نہیں وہ کس سے انصاف طلب کریں؟ وہ جن کے پیارے بے قصور کسی امیروں
‘ جاگیرداروں یا پھر کسی ذاتی عناد میں سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ انہیں انصاف
کون دلائے گا؟
|