اس وقت پوری دنیا بالخصوص امریکہ، بھارت، افغانستان اور
ایران کی تمام تر توجہ جنوبی ایشیا کے وسط پر مرکوز ہے پہلے تو اس کی
بنیادی وجہ دہشت گردی تھی تاہم اب اس میں سی پیک کا اضافہ ہوا چاہتا ہے.
چین-پاکستان اقتصادی کوریڈور (سی سی ای سی) بیلٹ اور روڈ ایسوسی ایٹ (بی آر
آئی) کا ایک بڑا منصوبہ ہے جس کی بنیاد چین کے صدر جی جننگ نے تجویز کی ہے.
میگا منصوبے چین اور پاکستان کے درمیان تعاون کے لئے فریم ورک کے طور پر
سامنے اے ہیں. دونوں ممالک کے رہنماؤں نے سی پیک کی تعمیر کے لئے بہت اہم
کردار ادا کیا ہے اور ساتھ ملکر اس منصوبے کو فعال سرگرم ترقی فراہم کی ہے.
چینی پرائم منسٹر کیکیانگ نے مئی 2013 کے دورے کے دوران سی پپک کی تجویز دی
تھی جسے پاکستان کی طرف سے سراہا گیا اور پھر پاکستانی پرائم منسٹر نواز
شریف کے چین کے دورے کے دوران MOU پر دستخط کئے گے تھے .
یہاں پر میں کچھ ایسے دلچسپ حقائق کا ذکر کروں گا جو آپ کو یہ سمجھنے میں
کافی مدد فراہم کریں گے کہ دنیا کو اس وقت سی پیک سے کیا دل لگی آ پڑی ہے.
سی پیک کا سب سے اہم حصہ گوادر مانا جاتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ گوادر
پاکستان کا حصہ نہیں تھا بلکہ زمین کا یہ حصہ سلطنت عمان کی ملکیت تھا اور
پاکستان کو تین ملین ڈالرز کے لئے فروخت کیا گیا تھا اس کو قسمت کی ستم
ظریفی کہیں یا مشیت ایزدی کے عمان اب اس منطق کو ازبر کیے ہوئے ہے اب
پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت.
سی پیک کی دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا راستہ چین کے سنکیانگ سے ہوتا
ہوا گلگت بلتستان میں پھر خیبرپختونخواہ کے مانسہرہ ایبٹ آباد سے گزرتا ہوا
سیدھا بلوچستان میں داخل ہوتا ہے جہاں سے براستہ سڑک گوادر کی گہرے سمندر
کی حامل بندرگاہ میں داخل ہوتا ہے اور یہ بندرگاہ بڑے جہازوں کو اپنے پہلو
میں جگہ دینے کو باہیں پھیلائے ہوئے ہے اور اس ملاپ سے چین بہت بڑی بچت
سمیٹنے کو ہے.
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ دبئی کی بندرگاہ دنیا کے بڑے ٹریڈنگ مرکزوں میں
سے ایک ہے متحدہ عرب امارات نے بھی سی پیک کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار
کیا ہے بات اتنی سی ہے کہ موجودہ طاقتوں کو ایک اور معاشی طاقت کسی طور
نہیں بھاتی.
بلوچستان کی ترقی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے
جوہر حکومت کی جانب سے توجہ کا محتاج رہا ہے اور دہشتگردانہ کاروائیوں کا
شکار رہا ہے ان کارروائیوں میں بھارت کا نام اور کردار پاکستان بدستور واضح
کرتا آیا ہے جبکہ بھارت کا موقف یہ ہے کہ پاکستان نے کچھ حصے پر غیر قانونی
قبضہ کر رکھا ہے اور سی پیک بلوچستان سے ہو کر گزرتا ہے اور اس کارن
بلوچستان کی ترقی بھی یقینی ہے اس علاقے سے سیپیک کا گزرنا بھارت کو معاشی
خطرات سے دوچار کرتا ہے.
سی پیک کی دلچسپیوں میں ایک دلچسپی یہ بھی ہے کہ اگر بھارت چین کے ساتھ جنگ
کرتا ہے تو سی پیک کو استعمال کرتے ہوئے چین کو اپنی فورسز کو منتقل کرنا
آسان ہوگا اگلی تعجب کی بات یہ ہے کہ سیپیک کے اس میگا پروجیکٹ میں چین کا
صرف چھ فیصد زمینی حصہ استعمال ہو گا اور مزے کی بات صرف 6فیصد زمینی حصہ
استعمال کرکے 94 فیصد چینی دنیا کو ٹکر دیتی معیشت دیکھیں گے.
جہاں تک بات سپرپاور بننے کی ہے تو اس کے لئے مسلح تنازع، جنگ و جدل یا
سازشوں کے جال بچھانے کی نہیں بلکہ قرضے اتارنے اور ملک کو بہتر معاشی طاقت
بنانے کی ضرورت ہوتی ہے اور چین سی پیک کے ذریعے اس سنگ میل کو عبور کرنے
کی جست لگا چکا ہے جو یقینا مہذب دنیا کے بدمعاش اور ڈاکو امریکہ کو ایک
آنکھ نہیں بھاتی.
اپنی مصنوعات دنیا کی مغربی، عرب خلیج اور یورپی منڈیوں تک پہنچانے کے لئے
چین کو طویل عرصے سے سمندری راستہ اختیار کرنا پڑا ہے سی پیک کی بدولت نہ
صرف چینی اشیاء کی یورپ اور امریکہ کے مرکزوں تک رسائی باسہولت ممکن ہوئی
ہے بلکہ مصنوعات کا احاطہ تقریبا بارہ ہزار کلومیٹر تک کم بھی ہوا ہے.
اس سلسلے کی سب سے اہم اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ بین الاقوامی معاشی مرکز
کم قیمت اور سستی مزدوری کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں منتقل ہو رہے ہیں اور
یہ امر سرمایہ کاروں کے لئے ایک حوصلہ افزا عنصر بھی ہے جس سے ایک نئی صنعت
وجود لے گی اس گیم کا سب سے اہم حصہ خود چین ہو گا دنیا کے سب سے مہنگے غیر
معمولی موبائل سے لے کر دنیا کے سب سے سستے کھلونے کے حامل میڈ ان چائنا کے
ساتھ
|