لیکن خبر ہو سب کو کہ جب سیف الدین سیف نے یہ نغمہ فلم
‘تہذیب ‘ کے لئے لکھا تھا تو سینسر بورڈ کے کہنے پر ' مصر ' کا لفظ نکال کر
'حسن ' سے تبدیل کر دیا تھا کہ مصرکی حکومت برا نہ مانے -
مصر کا بازار کیا تھا جس کا اسقدر چرچا ہے - قران پاک میں لکھا ہے کچھ
افراد حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر کے بازار لے گئے اور بیچ دیا -
لیکن میں آج مصرکے جن بازاروں کا تذکرہ کر رہا ہوں یہ وہ بازار ہیں جن کا
اوپر کے دو بازاروں سے کسی قسم کا علاقہ نہیں - عام بازار جن میں آج کل کے
مصری گھومتے پھرتے ہیں - خرید و فروخت کرتے ہیں - قہوہ پیتے ہیں - شیشے
یعنی حقے سے لطف اٹھاتے ہیں - سینما دیکھتے ہیں - میں بھی 1975 میں ان
بازاروں مین پھرا کرتا تھا اور یہی کرتا تھا --
سینماؤں کی بات چلی تو یاد آیا کہ بھارت کی فلم سنگم اپنے زمانے میں مصر کے
ہر فرد کے دل میں گھر کر گئی تھی اور کئی مصریوں کے ذہن میں تھا کہ اس سے
بہتر فلم کہیں نہیں بن سکتی - مصر میں قیام کے دوران وہاں کے لوگوں کو اس
فلم کا بے حد شیدائی پایا -ا یک مرتبہ ایک پاکستانی اور مصری کا بھارت کے
بارے میں سخت قسم کا مباحثہ ہو گیا - مصری بھارت کا حامی تھا - اس کے منہ
سے کف جاری ہوگیا اور اس نے غصے سے کہا کیا تم پاکستانی سنگم سے زیادہ بہتر
فلم بنا سکتے ہو - مصر کے اخبارات میں کسی بھی فلم کا اشتہار چھپتا تو لکھا
ہوتا--- -- "قوی من سنگم“ یعنی سنگم سے زیادہ اچھی فلم --یہ لوگوں کو نئی
فلم کی طرف ترغیب دینے کا انداز تھا - یاد رہے کہ وہ گاف کو جیم کہا کرتے
تھے - یعنی سنگم ان کے ہاں پہنچ کر سنجم ہو گیا تھا اور اخبارات میں بھی
ایسا ہی لکھا کرتے تھے - ہانگ کانگ مصر جا کر “ہانج کانج “ کی صورت اختیار
کر گیا تھا - بھارت کے ایک اخبار نے بھیلکھا تھا کہ اس فلم نے مصر اور
اسرائیل جا کرخوب بزنس کیا -
مصر میں اس زمانے کی دوسری مقبول فلم تھی ' ہاتھی میرے ساتھی ' جس کا
مصریوں نے ترجمہ کیا تھا “الفیل صدیقی “ - سنگم فلم کی طرح ہر مصری کو اس
کا گرویدہ پایا خاص طور ہر بچے تو اس کی کہانی ایک دوسرے کو سناتے تھے - یہ
عید کے موقع پر دوبارہ لگی تو ہم بھی چلے گئے - سینما کے باہر عجب منظر
دیکھا - ہر طرف بچے ہی بچے تھے - سینما حال میں داخل ہوئے تو اس سے زیادہ
حیرت انگیز نظارہ تھا - اتنے بچے سینما دیکھنے آئے تھے کہ سینما کی نشستیں
کم پڑ گئی تھیں - چنانچہ دیکھا کہ بچے سب سے اگلی نشست کے سامنے کھلی جگہ
میں بیٹھے ہوئے ہیں - پردہ نزدیک ہونے کے سبب سب کی گردنیں اوپر اٹھی ہوئی
ہیں - یہ بچوں کی فلم ہے اور کافی اچھی فلم ہے - ایک مرتبہ مصر کے کسی باغ
میں ہم گئے تو ایک صاحب اپنے بچوں کے ہمراہ نظر آئے - میں شلوار قمیض میں
تھا - انہوں نے اندازہ لگا لیا کہ میں کسی غیر ملک کا باشندہ ہوں - آگے
بڑھے اور بات چیت شروع کی -جب پتہ چلا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں تو انہوں
نے اپنے بچے کو آواز دی - وہ آیا تو اس سے میرا تعارف کروایا کہ یہ ہند کے
علاقے پاکستان سے آئے ہیں - میں نے انگریزی میں کہا کہا کہ ہند کا پاکستان
سے کوئی تعلق نہیں -انہوں نے کہا ہاں ہاں میں جانتا ہوں بچوں کو یہ سمجھ
نہیں آئے گا اس لئے کہہ رہا ہوں - یہ بچے ہند سے کافی متاثر تھے -وجہ اس کی
انڈیا کی فلم “الفیل صدیقی “تھی
- اس بچے نے دفعتا“ مجھ سے سوال کیا “ یا عم --کیا آپ نے اس ہاتھی کی قبر
دیکھی ہے ؟ “ میں نے بچے کا دل رکھنےلے لئے کہہ دیا کہ ہاں - وہ بہت خوش
ہوا -
اس فلم میں راجیش کھنہ نے مرکزی کردار اداکیا تھا - مصری ‘ کھنہ ‘ کو ‘خانا
‘ لکھتے ہیں - لفظ خان وہاں خوب جانا پہچا نا ہے - - ایک مشہور بازار کا
نام بھی خان الخلیلی ہے - کئی مصری سمجھتے ہیں کہ خان کا مطلب ‘شیر ‘ ہے -
آج بھی مصریوں نے اپنی پسندیدہ بھارتی فلمیں مع عربی ترجمے کے یو ٹیوب پر
اپ لوڈ کی ہوئی ہیں - مصری اب بھی انہیں شوق سے دیکھتے ہیں اور بچپن کی
یادوں میں کھو جاتے ہیں -
ایک مصری نے یو ٹیوب پر ایک بھارتی گانے کے بارے میں لکھا “ معنی پتا ہوں
نہ ہوں - الفاظ سمجھ میں آئیں
نہ آئیں -خیر ہے -- لیکن گانا لا جواب ہے -“
ایک اور عمر رسیدہ مصری خاتوں یوں رقمطراز ہیں
“ فلم جميل جداً من احسن الايام وانا صغيرہ “
( جب میں چھوٹی تھی - کیا خوبصورت دن تھے- اس زمانے میں یہ فلم بہت اچھی
لگتی تھی )
بھارتی فلموں کی مقبولیت دیکھ کر میں سوچا کرتا تھا کہ انہیں کیا پتہ کہ
پاکستان میں بھی کتنی شاندار فلمیں بن رہی ہیں اور ان کے گانے کیسے رس
گھولنے والے ہیں نہ جانے دونوں ملکوں کی کیا پالیسیاں تھیں کہ پاکستانی
فلمیں وہاں نظر نہیں آتی تھیں - -- اپنی فلمیں یاد آتی تھیں جو ان کا
مقابلہ کر سکتی تھیں - ہیر رانجھا - ارمان - امراؤ جان ادا - اور نہ جانے
کتنی اور فلمیں ہیں جو بھارتی فلموں سے کسی طرح کم نہیں - اسی طرح پاکستان
میں بچوں کے لئے جو فلمیں بنی ہیں مثلا“ جن چاچا (پنجابی ) - ہمراہی وغیرہ
وہ اگر بھیجی جاتیں تو اپنا مقام ضرور بنا لیتیں - میں سمجھتا ہوں کہ فلمیں
وغیرہ مختلف ممالک کے افراد کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بہت بڑا کردار
ادا کرتی ہیں -
--------------------------------
یادش بخیر --کیا یہ یاد ہے ناز پان مصالحے کا اشتہار --
میری مٹھی میں بند ---- بولو ہے کیا
ناز پان مصالحہ ------ ناز پان مصالحہ
1975 میں جب میں مصر گیا تھا تو جانے یہ اشتہار وجود میں آیا تھا یا نہیں
لیکن آج جب میں یادداشتیں رقم کر رہا ہوں تو بہت یاد آرہا ہے -
ہوا یہ کہ ہم پاکستانی ایک میٹرو ٹرین میں بیٹھے تھے - - بھیڑ زیادہ نہیں
تھی وجہ اتوار کا ہونا تھا - میرے ساتھ ایک شائستہ اور باوضع مصری صاحب
بیٹھے تھے - انک پاس ایک بریف کیس بھی تھا - ہم میں سے ایک نے سوال کیا کہ
بتاؤ بریف کیس میں کیا ہوگا - ہر ایک نے اپنی اپنی رائے دی - کسی نے کہا
دفتر کی فائلیں ہوں گی - کسی نے کہا کہ توشہ دان ہوگا لیکن جاوید اقبال
قریشی نے کہا “سب غلط --اس میں فقط اور
فقظ اخبار ہوگا - اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوگا
ابھی ہمارے مکالمے جاری ہی تھے کہ ان صاحب نے بریف کیس کھولا --اور ہم
حیران ہوگئے کہ جاوید کا کہنا صحیح تھا اس میں اخبار ہی تھا -
تو بات یہ دیکھی تھی کہ قاہرہ میں لوگوں کو اخبار پڑھنے کا بہت ہی شوق تھا
- اور ہر ایک اپنا اخبار خریدتا تھا - ان اخباروں میں یہی نوید ملتی تھی کہ
ہر طرف شادمانی ہی شادمانی پھیلی ہوئی ہے -امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں
ہے -محلے والوں میں کبھی جھگڑا نہیں ہوتا ‘ یا بچوں کی لڑائی بڑوں تک
پہنچنے کی کوئی خبر نہیں ہوتی تھی - بعد میں پتا چلا کہ اس وقت کی حکومت کی
پالیسی کے مطابق اخباروں میں یہ سب چھاپنا ممنوع تھا -
میں ایک رسالے “ صوت الشرق “ کا باقائدہ خریدار تھا - یہ بھارت کے سفارت
خانے کی جانب سے شائع ہوتا تھا -اس میں زیادہ تر بھارت کے مسلمانوں کا
احوال لکھا ہوتا تھا - ان کی شادی بیاہ کی رسموں کی باتیں ہوتی تھیں- ان کی
مساجد کا بیان ہوتا تھا - ابوالکلام آزاد کے مضامین کے بارے میں بحث ہوتی
تھی - - گاندھی کا تذکرہ ہوتا تھا - ایک مضموں کا عنوان ابھی تک یاد ہے “ً
محمد صلی اللہ علیہ والسلم --- گاندھی کی نظر میں "- جو پالیسی مصر نے اپنے
اخباروں کے لئے بنائی تھی یہی پالیسی اس بھارتی جریدے نے اپنے ملک
کےمسلمانوں کے بارے میں اختیار کی تھی کہ مسلمان شاد باد با مراد ہیں - یہ
حیرت کی بات ہے کہ یہ جریدہ اب بھی باقائدہ شائع ہورہا ہے - ابھی کچھ ہی
ماہ قبل اس کا پانچسواں شمارہ منظر عام پر آیا ہے - اس کے اس شمارے کا
افتتاح وہاں کے ایک وزیر نے کیا تھا - اب غالبا“ اس کا نام بدل کر “صوت
الہند “ رکھ دیا گیا ہے -
جو بات میں اخبارات کی خریداری کے بارے میں مصریوں کے روئیے پر لکھی ہے
انہی مصریوں کا روئیہ ماچس کی خریداری پر اس کے برعکس تھا - سگریٹ پینے
والے حضرات بہت ہی کم ماچس خریدتے تھے - میں اس زمانے میں سوچتا تھا کہ
قاہرہ کی اتنی بڑی آبادی میں وہ کونسا شخص ہو گا جو سب سے پہلے ماچس خرید
تا ہو گا -اس کا انٹرویو چھپنا چاہئے - ورنہ سب چلتے پھر تے ایک دوسرے کی
سگریٹوں سے اپنے سگریٹ سلگاتے تھے - ماچس رکھنے کا تردد کسی نے نہیں پالا
تھا - اور ہاں ماچس بھی عجیب قسم کی ہوتی تھی - پانچ چھ انچ کے گتے کو موڑ
کر اس کے اندر نو دس گتے کی تیلیاں ڈال دی جاتی تھیں ‘ جیسا کہ ہمارے یہاں
ماضی بعید میں اشتہاری کمپنیاں مختلف مصنوعات کی تشہیر کے لئے بنایا کرتی
تھیں -
ایک مرتبہ دریائے نیل میں کشتی کی سیر کرنے کے بعد واپس آرہے تھے - سگریٹ
سلگا یا ہوا تھا - دھوئیں کےمرغولے ہوا میں اڑاتے ہوئے پل کے قریب پہنچے تو
ایک مصری آگے بڑھا اور وہاں کے رواج کے مطابق اپنا سگریٹ سلگانے کے لئے مدد
مانگی - اس کے ہاتھ میں پاکستان کا بنا ہوا ‘کے ٹو ‘ سگریٹ کا پیکٹ تھا -
ہم بہت حیران ہوئے - سب ساتھیوں کو آواز دی اور اس سے پوچھا کہ یہ کہاں سے
ملا --- اس نے ایک کیبن کی طرف اشارہ کیا - اس کا سگریٹ سلگایا اور اس کیبن
والے کے پاس پہنچے - سامنے ہی کئی پیکٹ نظر آئے
- - پوچھنے پر کیبن والے نے بتایا کہ یہ تو درآمد ہوتے ہیں - -
مصر کی باتیں بہت ہیں - وہ پھر کبھی - یار زندہ صحبت باقی -
|