شاہی نباتاتی باغ پیرادینیا
Royal Botanical Garden Peradeniya
اگلے شہر "نووارہ علیا" کی طرف سفر کے دوران شاہی باغ ، ٹی فیکٹری اور
رامبودا آبشار کا دورہ آج ہمارے پروگرام میں شامل تھا۔ سری لنکا کی سیر
Royal Botanical Garden Peradeniyaکو دیکھے بغیر ادھوری ہے۔ سچ تو یہ ہےکہ
اپنےٹور پیکج میں اس باغ کو میں نے نہایت بے دلی سے موجود رہنے دیا کہ یہ
بھی عام سا پارک ہو گا جہاں قدرے نفاست کے ساتھ پودے اور پھول وغیرہ لگے
ہوں گے اور اسی بے دلی کے ساتھ میں باغ میں داخل ہو ئی۔ یہاں بھی سارک
ممالک کے شہریوں کے لئے خاص رعایت تھی مگر یہاں کے ٹکٹ پیکج میں شامل
تھے۔ڈرائیورنے ٹکٹ لا کر دئیے اور ہم اندر داخل ہوئے بغیر کسی مبالغہ آرائی
کے مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ باغ میں حیرتوں کی ایک نئی دنیا منتظر
تھی۔147 ایکڑ پر پھیلے ہوئے اس باغ کی خوبصورتی و صفائی دیدہ زیب تھی۔ہر
طرف رنگ برنگے پھولوں، قطار در قطار درختوں اور ہریالی کا ایک دلکش نظارہ
تھا۔ یہ واقعی ایک شاہی باغ تھا۔باغ میں تقریباً 4000 سے زائد اقسام کے
پودے اور درخت موجود ہیں۔ان درختوں پر یقیناً بے شمار پرندوں کا بھی بسیرا
ہو گا چونکہ یہ دن کا وقت تھا اس لئے وہ اپنے آشیانوں میں چھپے بیٹھے تھے۔
باغ کی تاریخ تیرھویں صدی عیسوی سے شروع ہوتی ہے جب کینڈی کا بادشاہ"ویکرمہ
باہو سوئم “Wickramabahu III اپنا تخت دریائےمہا ویلی کے قریب پیرادینیا لے
آیا اور دریا کے کنارے سیر کا مزید لطف اٹھانے کے لئے اس باغ کی بنیاد
رکھی۔اس کے بعد آنے والے کئی بادشاہوں نے اس کی خوبصورتی بڑھانے میں اپنا
حصہ ڈالا تاہم اس کی موجودہ شکل کا تمام سہرا سر الیگزینڈر مون Sir
Alexander Moon کو جاتا ہے جس نے 1821ء میں باقاعدہ طور پر اس کو بنایا ان
کے بعد کئی انگریز منتظمین نے اس کے حسن کو بڑھانے میں خاص محنت کی۔ اب یہ
باغ سری لنکا کے زرعی محکمہ کے زیر انتظام ہے اور کیا خوب انتظام ہے!!
ایسے باغ نہ صرف علم و تحقیق بلکہ زرمبادلہ کمانے کا بھی ایک بڑا ذریعہ
ہیں۔ ایک اندازے کےمطابق ہر سال سوا ملین کے قریب سیاح اس باغ کو دیکھنے
آتے ہیں دنیا کی اہم اور تاریخی شخصیات بھی اس باغ کو دیکھنے آتی رہتی ہیں
اور باغ کا ایک حصہ ان کے لگائے ہوئے پودوں سے بھی مزین ہے پاکستان کے ایک
وزیر اعظم کے نا م کا یادگاری پودا بھی ان میں دکھائی دیا ۔۔
باغ میں ایک "اسٹوڈٹس کارنر" بھی موجود تھا جہاں طالب علموں کے نام کے ساتھ
ان کے لگائےہوئےپودےباغ کی رونق بڑھا رہے تھے۔ایک اور اہم بات یہ تھی کہ
دنیا بھر سےہدیہ کئے گئے پودوں کے لئے بھی ایک حصہ مخصوص کیا گیا ہے جہاں
اُن ملکوں نایاب پودے اپنے اپنے ملکوں کے ناموں کے ساتھ باغ کے حسن کو دو
آتشہ کر رہے تھے ۔
انٹری ٹکٹ لیتے ہوئے ہمیں باغ کا نقشہ بھی دیا گیا اس کی مدد سے ہم باغ میں
گھومتے رہے اسی دوران سری لنکا کے روایتی عروسی ڈریسز میں ملبوس ایک نیا
نویلاشادی شدہ جوڑا نظر آیا جو فوٹو شوٹ کے تمام ساز و سامان سمیت اپنی
شادی کی تصویروں کو یادگار بنانے کے لئے وہاں موجود تھا۔ یقیناً فوٹو شوٹ
کے لئے اس سے حسین جگہ اور کوئی نہ ہو سکتی تھی ۔دونوں کے لباس میں جنوب
ایشیائی ثقافت کی گہری چھاپ نمایاں تھی۔دلہن گولڈن کشیدہ کاری والےسرخ رنگ
کےساری نما عروسی ڈریس اور سونے کے بھاری زیورات میں ملبوس اپنی زندگی کے
اہم ترین دن کےلئے سجی ہوئی تھی۔اور دولہا صاحب نےسنہری کڑھائی سےمزین سرخ
رنگ کی شیروانی اور گولڈن پاجاما پہنا ہوا تھا، ہاتھ میں بھاری انگوٹھیاں
اور گلے میں پاجامے سے ہم رنگ دوپٹہ پہنے اپنے اپنے سے ہی لگ رہے تھے
کیونکہ پاکستان میں بھی یہ گیٹ اپ اکثر نظر آتا ہے۔ ۔میں نے ان سےان کی
تصویر کھنچنےکی اجازت چاہی جو انھوں نے بخوشی قبول کر لی۔
باغ میں سیاحوں، طالب علموں کے علاوہ بڑی تعداد میں پریمی جوڑے بھی نظر آ
رہےتھے،جو ہر بوٹے کے نیچے دنیا و مافیہا سے بے خبر بیٹھے نظر آتے ہیں اور
دور سے پہچانے جا سکتے ہیں اس کے لئے آپ کو کسی خاص ذہانت کی ضرورت نہیں تو
گویا یہ اس باغ کا ایک اضافی فائدہ تھا۔۔
مہا ویلی دریا کے اردگر بھی سر سبز پودے اور پھول اپنی بہار دے رہے تھے۔دو
گھنٹے گھومنے کے بعد بھی ہماری طبیعت سیر نہ ہوئی ابھی ہم نے آدھا یا اس سے
کچھ زائد ہی باغ دیکھا ہو گا کہ مجھےتھکن محسوس ہونا شروع ہو گئی کیونکہ
باغ کے متعلق اپنے غلط اندازے کی وجہ سے اس دن میں نے جوگرز کی بجائے عام
شوزپہنے ہوئے تھے جس کی وجہ سے پاؤں میں درد ہونا شروع ہو گیا۔
باغ سے نکلتے ہوئے دل میں یہی خیال آیا کہ جنت بھی تو"جنۃ"یعنی باغ ہے۔۔۔وہ
بھی سرسبز درختوں، پانی اور خوبصورت پرندوں اور ہر قسم کی نعمتوں سے
بھرپورایک باغ ہی ہو گا !! جب بندوں کا سجایا ہوا یہ باغ اتناحسین ہے تو اس
مصور کائنات کی بنائےہوئےباغ کے حسن کاکیا ہی عالم ہو گا!!!! اور پھر دل سے
یہ دعا بھی نکلی کہ اے اللہ ہمیں اس ہمیشہ قائم رہنے والے باغ کی طرف
کامیاب سفر اور اس میں داخلے کے انٹری ٹکٹ لینے کی بھی توفیق عطا
فرمانا۔۔آمین
باغ سے نکل کرسفر پھر شروع ہوا۔راستے میں جگہ جگہ سڑک کے اطراف عورتیں تازہ
مقامی پھل فروخت کر رہی تھیں جودیکھنے میں نہایت بھلے لگ رہے تھے۔ اگرچہ ان
میں سے کچھ پھل میں نے ریاض میں کھائے ہوئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام
کی دعا کے طفیل ساری دنیا کے پھل سعودی عرب میں میسر ہوتے ہیں لیکن تازہ
پھل کا تو ذائقہ ہی اور ہوتا ہے۔پھل خریدنے کے لئےگاڑی رکوائی ۔ Rambutan
سرخ رنگ کا لیچی سے ملتا جلتا ایک بہت میٹھا پھل ہے ۔جوکہ وٹامن سی اور
آئرن سے بھرپور، نہایت صحت بخش پھل ہے اور اپنے ہائی فائبر اجزاء کی وجہ سے
جسم میں غیر ضروری چکنائی کو کم کرنے میں مددکرتا ہے۔ Mangostin گہرے قرمزی
رنگ کا پھل میں نے پہلی دفعہ کھایا اس کی بیرونی سطح قدرے سخت اور کچھ موٹی
ہوتی ہے،اندرمالٹے اورکینو کی طرح پھانکیں ہوتی ہیں مگر سفید رنگ
کی۔ڈرائیور نے اس کو ہاتھ سےکھولنے کا طریقہ بھی بتایا کہ اس کو دونوں
ہاتھوں کی ہتھلیوں سے دبا کر کھولنا پڑتا ہے۔ مینگوسٹین صرف ذائقے کے لحاظ
سے ہی اچھا نہیں ہےبلکہ یہ غذائیت سے بھی بھرپور ہوتا ہے قوت مدافعت کو
بڑھاتا ہے، دافع کینسر ہونے کے ساتھ ساتھ وزن بھی کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
star fruitکے ذائقے سے بڑھکر اس کی شکل اچھی لگی مگر افادیت میں یہ بھی کسی
طور کم نہیں۔ یہ نظام ہضم کو فعال کرتا ہے ، بینائی کو تیز کرتا ہے اور
پروٹین کے حصول کا اہم ذریعہ ہے۔۔بے شک رب العالمین کی نعمتوں کا کوئی شمار
نہیں کہ اس نے ہمارے لئے لذتِ کام و دہن کے ساتھ ساتھ ہمارے جسمانی نظام کی
قوت و مدافعت بڑھانےکا بھی پورا انتظام کائنات میں مہیا کر دیا۔۔"پس تم
اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟؟"
جاری ہے |