فسادی قسط نمبر٩

لڑکی کو سمجھایاجاتا ہے کہ وہ گھر کی رانی ہےاور لڑکا باہر کام کرنے کے لیے بنا ہے۔ حقیقت نہیں بتائی جاتی کہ اس کا کوئی گھر نہیں ۔جو عورتیں بغاوت پر آتی ہیں تو ان پر بدچلنی کا داغ لگا دیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے ان کے کردار کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عورتیں بھی اس عورت کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہوتیں کیونکہ اس سے ان کو ملنے والے مفادات خطرے میں آ جاتے ہیں ۔سعدیہ نے افسردگی سے کہا۔ پتہ نہیں نصرت تم ٹھیک کہہ رہی ہو یا نہیں مگر مجھے تو لگتا ہے کہ عورت کا کام بچے پیدا کر کے ان کی اچھی تربیت کرنا ہے۔ نصرت نے ہنس کر کہا، جو انسان سوچ نہیں سکتا وہ تربیت کیا خاک کرئے گا۔

غلام کو ساری عمر غلام بنا کے رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ اسے اس سوچ سے دور رکھا جائے کہ وہ غلام ہے ۔

نصرت تمسخر خیز مسکراہٹ چہرے پر لے آئی اور اپنی مٹھی کو بند کر کے بولی۔ آپ کو نکاح کرنے کے لیے دس دن کا انتظار نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ میرا مشورہ ہے آپ کو ۔ نیک کام میں دیر کیسی ۔ گناہ کرتے رہنے سے اچھا ہے کہ انسان اللہ کی دی گئی چھوٹ کا فائدہ اُٹھائے ۔ آفاق بھووں کو اچکاتے ہوئے ۔ گاڑی میں بیٹھ گیا۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے نفی میں سر ہلا رہا تھا۔
نصرت بوجھل دل کے ساتھ اپنی امی کے دروازے پر کھڑی تھی۔ اس کے بھائی کے الفاظ اس کے کانوں پر ہتھوڑے کی طرح ضربیں لگا رہے تھے۔ ایسی لڑکیاں دوسرے دن کھا کر واپس آ جاتی ہیں ۔ ضبط کرنے کے باوجود اس کی انکھیں چھلک رہی تھیں ،وہ دستک کیسے دے ، ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ دروازہ کھل گیا۔
اس کی بھابھی اور بھائی کہیں جانے لگے تھے۔ وقاص بھائی اس نے اپنی طاقت کو مکمل سمیٹنے کے بعد فقظ دھیرے سے وقاص بھائی بولا تھا۔ اس کی انکھوں کی لالی اور چہرے کے تاثرات دیکھ کر وقاص کو فوراًاندازہ ہو گیا کہ کچھ ہوا ہے ۔ اس نے نصرت سے کہا ۔ واہ بھئی ، دیکھا ،تم نے دروازہ بجایا بھی نہیں اور ہمیں تمہارے آنے کی خبر ہو گئی یہ کر کر وہ اندر منہ کر کے ذور سے بولے ۔ امی امی نصرت آئی ہے۔ بھا بھی نے بھی نصرت کو گلے لگاتے ہوئے اندر چلو اندر چلو کہا۔ وقاص بھائی نے سامان دیکھا تو انہیں اندازہ ہو گیا ۔ معاملہ کوئی سنگین ہے۔ جب سے نصرت کی شادی ہوئی تھی،وہ ایک بار بھی ناراض ہو کر میکے نہیں آئی تھی۔ وقاص نے سوچتے ہوئے سامان اندر لیا اور دروازہ بند کر دیا۔
نصرت سب کی باتیں سن رہی تھی مگر اسے سجھائی کچھ نہیں دے رہا تھا۔ متلی کی وجہ سے وہ واش روم چلی گئی۔ پیش آنے والے واقعات کو سوچ رہی تھی کہ اس کی امی کی آواز سنائی دی نصرت ٹھیک تو ہو نا۔ نصرت نے باہر آکر سب باتوں کو تفصیل سے امی کو بتایا تو وہ اسے سمجھانے لگی ۔ دیکھو بیٹا آفاق غلط نہیں کہتا۔ ٹھنڈے دماغ سے سوچو۔ اگر یہ بچہ پیدا ہو گیا تو معلوم نہیں اس کے ساتھ کیا کیا مسائل ہوں ۔ بچہ اپنی ذات کے لیے بھی پریشانی کا باعث ہی بنے گا۔ ممکن ہے کہ کل جب بڑا ہو تم سے یہ کہے کہ کاش مجھے پیدا ہی نہ کیا گیا ہوتا۔ ہمارا معاشرہ ٹھیک ٹھاک لوگوں کے لیے آزمائشوں سے بھرا ہوا ہے۔ میری مانو۔ ضد نہ کرو۔ آفاق کی بات مان لو۔ آفاق بھی تو یہ فیصلہ خوشی سے نہیں کر رہا۔
نصرت نے اپنی امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ جب کل یہ بچہ کہے گا کہ میں اسے پیدا ہی نہ کرتی تو میں کہوں گی۔ زندگی دنیا اور لینا میرا کام نہیں تھا۔ میرا تو فرض تھا کہ جو مجھے عطا کیا گیا اس کو خوش دلی سے قبول کروں ۔ اس کی بہتری کے لیے ہر ممکن کوشش کروں ۔ ہماری اولاد اللہ کی طرف سے امانت کے طور پر ہمیں سونپی جاتی ہے تا کہ ہم ان کی اچھی تربیت کریں ، انہیں جینا سکھائیں ۔ آپ نے خود کہا کہ ہمارا معاشرہ آزمائشوں سے بھرا ہوا ہے تو میں اپنے بچے کو آزمائشوں سے لڑنا سکھاوں گی۔
نصرت کی ماں نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔ پتہ نہیں ہر فسادی خیال تمہارے ہی ذہین میں کیوں آتا ہے ۔ سعدیہ بھی تو ہے۔ تم جانتی ہو۔ کیسا سخت شوہر ہے اس کا ۔ تینوں بچوں کو اپنے سسرال کو اور شوہر کو چپ چاپ جھیلتی ہے۔ اُف تک نہیں کرتی۔ تم سمجھتی کیوں نہیں ، تمہارے ابو جی پہلے ہی بیمار ہیں ۔ہم کب تک زندہ رہیں گئے۔ عورت شوہر کے بغیر اس معاشرے میں نہیں رہ سکتی ۔ کیا کرو گی۔ بچہ ہو جانے کے بعد ملازمت کرو گی یا بچہ سنبھالو گی۔ ارحم کے بارے میں سوچو۔ نصرت نے ایک لمبی سانس لی ۔ اس کے آنسو چہرے کی زینت بن چکے تھے ۔ امی کو لگا کہ لوہا گرم ہے ابھی صرف ایک ہتھوڑا مارنے سے ٹوٹ جائے گا۔ انہوں نے اپنی آخری بات کہی ۔ آج ہی میرے ساتھ چلو اور ختم کرو یہ قصہ ۔ آفاق غلط نہیں ہے۔ اچھی بیوی فرمابردار ہوتی ہے شوہر کی۔ اللہ نے تمہاری سن لی ۔ کیسی کیسی تکلیفیں دیکھی ہیں تم نے اس کے بغیر۔ اب وہ واپس آ گیا ہے تو تم اس سے الگ ہونے کا سوچ رہی ہو۔ اچھا خاصا گھر ہے تمہارا ۔ پہلے ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں ، پھر میں فون کر کے بھلا لیتی ہوں آفاق کو ۔ امی نے پیار سے نصرت کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ نصرت خاموش تھی۔ امی کو لگا وہ مان گئی ۔ وہ کمرے سے جا چکی تھی۔ نصرت کی پریشانی کا تمام گھر والوں کو پتہ چل چکا تھا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ نصرت کی بھلائی اسی میں ہے کہ آفاق کی بات مان لے ۔ وہ ٹھیک بھی ہے۔ میاں بیوی کا ساتھ رہنا لازمی ہے۔ بچے تو ۔۔۔۔۔۔وقاص کی بات ادھوری رہ گئی ۔ نصرت کو سامنے دیکھ کر وہ خاموش ہو گیا۔
نصرت نے افسردگی سے وقاص بھائی کی طرف دیکھا۔ وقاص اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ امی بتا دیجئے گا۔ میں کام سے جا رہا ہوں ۔ جب جانا ہوا بس ایک فون کر دیجئے گا۔ اس نے سامنے کھڑی نصرت کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ زندگی میں پریشانیاں آتی رہتی ہیں ۔اپنے اسی لیے تو ہوتے ہیں کہ سنبھال لیں ۔ فکر نہ کرو۔ اس کے لہجے میں شفقت نمایا ں تھی۔ نصرت امی کے پاس بیٹھ گئی۔ وقاص بھائی جا چکے تھے۔ نصرت نے اپنے وجود کو سمیٹتے ہوئے کہا۔ امی میں فیصلہ کر چکی ہوں ۔ اپنے ہی بچے کے قتل میں شامل نہیں ہو سکتی ۔ اس بچے کو جنم دینا اور پالنا ہی شاہد میری آزمائش ہے۔ امی نے نصرت کی طرف غصے سے دیکھا۔ تم یہاں یہ سب نہیں کر سکتی ۔ سمجھی۔
نصرت نے امی کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔ کیا یہ گھر میرا نہیں ہے۔ امی نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ ہاں نہیں ہے ۔ نہیں ہے یہ گھر تمہارا۔ شادی کے بعد شوہر کا گھر ہی عورت کا گھر ہوتا ہے۔ نصرت کی انکھوں میں آنسو تھے ۔ جو اس نے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی اور وہ چھلک گئے۔ اس نے امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ جب شوہر نکال دے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امی نے نصرت کو غصے سے گھورا۔ ہر حال میں شوہر سے نبھانا ہی عورت کی زمہ داری ہے۔ لوگوں کے شوہر نشہ کرتے ہیں ۔ بیوی بچوں کو پیٹتے ہیں ۔ پھر بھی عورتیں نبھاہ کرتی ہیں ۔ شوہر مجازی خدا ہوتا ہے۔ ہمارے نبی ﷺ کا فرمان ہے۔ اگر شوہر کے تمام جسم پرزخم ہوں اور پیپ رس رہی ہو ، اس کی بیوی چاٹ چاٹ کر انہیں صاف کرئے تو بھی شوہر کا حق ادا نہیں ہوتا۔ نصرت نے کہا۔ امی ہمارے اللہ نے بھی تو کہا ہے کہ ایک انسان کو قتل کرنا ،تمام انسانوں کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔نبی ﷺ کی احادیث سے متعلق تو پھر لوگ سوال اُٹھاتے ہیں ، کہاں سے لی گئی۔کس نے لکھی ۔ لکھنے والا صادق ہے کہ نہیں مگر اللہ کے کلام پر تو کوئی سوال نہیں کرتا نا۔ صاف صاف کہا گیا ہے کہ اپنے بچوں کو قتل نہ کرو۔
امی کسی انسان کو کہاں حق پہنچتا ہے کہ انسان کا قتل کرئے ۔ اگر ابھی میرے جسم میں حرکت نہیں ہوتی اس کی تو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر وہ زندہ ہے۔ میں ایسا نہیں کروں گی۔ اگر آپ مجھے پناہ نہیں دیں گی تو میں کہیں بھی چلی جاوں گی۔اس کی امی نے روتے ہوئے کہا۔ اپنی زندگی برباد کر لو گی تم ۔ ہمارے مرنے کے بعد کیا ہوگا تمہارا ۔ سوچو تو۔
وقاص کی امی روتے ہوئے نصرت کے بارے میں بتا رہی تھی نصرت تو پاگل ہو گئی ہے۔ وقاص ، ابو جی جو گھر کے تمام تر فیصلے اب مل کر کرتے تھے پریشان حال نصرت سے متعلق سن رہے تھے۔ وقاص نے ساری باتیں سننے کے بعد کہا۔ امی اس وقت اس سے ہمدردی کرنا اس کے حق میں نہیں ہو گا۔ وہ ٹھیک کہہ رہی ہے یا غلط کچھ فرق نہیں پڑتا ۔ اہم بات تو یہ ہے کہ آفاق کیا کہہ رہا ہے۔ اگر ہم نے اس کا ساتھ دیا تو اس کی زندگی برباد ہو جائے گی۔ آفاق نے اسے طلاق دے دی تو سوچیں، کیا بنے گا اس کا۔ آپ تو جانتی ہیں نصرت کو شروع سے ہی اس کا دماغ غلط چلتا ہے۔ ہم اپنے معاشرے کے طور طریقے تو نہیں بدل سکتے نا۔ بہتر یہی ہو گا کہ ہم اس سے سختی کریں ۔ ہمدردی نہیں ۔ جب اسے کوئی راستہ نظر نہیں آئے گا تو آفاق کے پاس لوٹ جائے گی۔
آپ کیا کہتے ہیں ابو جی۔ ابو جی ،جن کا چہرہ سلوٹوں سےبھرا تھا۔ وقت بھی بہترین فن کارہے ۔ ایسے ایسے نقش و نگار بناتا ہے کہ تنے ہوئے سینے جھک جاتے ہیں ۔ لٹکے ہوئی جلد اپنی شکستگی کی گواہی دیتی ہے۔ ابو جی خاموشی سے بیٹھے تھے۔بڑھاپے نے ان کے پورے وجود کو جھکڑ ا ہوا تھا۔ اپنی سفید ریش کو ہاتھوں سے کھجا رہے تھے۔ کافی دیر خاموشی کے بعد بولے۔ تم نے کہا نہیں اسے بچے سے کہیں اہم ہوتا ہے شوہر۔ نصرت کی امی نے اداسی سے کہا۔ وہ سنتی ہے کسی کی۔ آپ ہی سمجھا لیں اسے۔ابو جی نے اپنی دھاڑی کو مٹھی میں لیتے ہوئے کہا ۔ ہاں اچھا ،کہو اسے یہاں آئے۔ وقاص اُٹھ کر جانے لگا تو ابو جی نے کہا۔ بیٹھے رہو۔ وقاص نے کہا ۔ ابو جی ۔ بات ایسی ہے کہ۔ ابو جی نے کہا۔ وہ جو کرنے جا رہی ہے اس کے بعد اسے ہر کسی کو کہنا سننا پڑے گا۔ وہ کچھ بھی جو اس نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ محسوس کرئے کہ وہ کیا کرنے کا سوچ رہی ہے اور اس کے ساتھ اس کے بعد کیا کیا ہوگا۔
نصرت کمرے میں آ چکی تھی۔ ابو جی نے نصرت کی طرف دیکھ کر کہا۔ بیٹھو بیٹا۔ وقاص بھائی نے اس کی سوجھی ہو سرخ انکھو ں کو دیکھا ۔ جو انگاروں کی طرح تھیں ۔ سرُخ اور روشن۔ ابو جی نے پوچھا۔ نصرت جو تمہاری امی کہہ رہی ہیں سچ ہے۔
نصرت نے امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ۔۔۔۔۔ امی کیا کہہ رہی ہیں ۔
ابو جی بولے : تمہاری امی کہہ رہی ہیں کہ تم اب اپنے فیصلے خود کرنا چاہتی ہو۔ تمہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دوسرے کیا کہہ رہے ہیں۔
نصرت نے امی کی طرف دیکھا اور اپنے پاوں کی طرف دیکھ کر کہا۔ اس سے تو بہت فرق پڑتا ہے کہ دوسرے کیا کہہ رہے ہیں مگر ابو جی مجھے یہ بھی تو دیکھنا ہے کہ ٹھیک کیا ہے اور غلط کیا۔
ابو جی بولے: یہ کون طے کرئے گا کہ غلط کیا ہے اور ٹھیک کیا۔ بعض اوقات ہم جسے غلط سمجھ رہے ہوتے ہیں ،وہ نہ صرف ہمارے لیے بلکہ ہم سے متعلقہ سب لوگوں کی بھلائی کا باعث ہوتا ہے۔
نصرت نے ابو جی کی طرف دیکھ کر کہا۔ آپ کا مطلب ہے کہ ایک انسان قتل کر کے کسی سے اس کا مال و متاح چھین لیتا ہے تا کہ اپنے بیوی بچوں کو سکھ دے تو وہ ٹھیک ہے۔ اس قتل سے اس کا اور اس کے خاندان کا بھلا ہو رہا ہے۔
وقاص بولا: نصرت تم بات کو کہاں سے کہاں لے جا رہی ہو۔ یہاں بات قتل کی نہیں ، حق کی ہے۔ ایک فرد کا حق ہے کہ وہ رب کی نعمت کو قبول کرئے یا نہ کرئے۔ اللہ نے مرد کو حاکم بنایا ہے ۔ بیوی ، بچے اس کی رعیت ہوتے ہیں ۔ وہ ان سے متعلق بہترین فیصلے ہی کرتا ہے۔ تم اپنے ارحم کے بارے میں کیوں نہیں سوچ رہی۔ تمہارے اور آفاق کے درمیان فساد کا اثر اس بچے پر ہو گا۔ اگر آفاق کو یہ بچہ نہیں چاہیے تو اس بات کو تم اپنی انا کا مسلہ کیوں بنا رہی ہو۔
نصرت نے گھور کر وقاص بھائی کی طرف دیکھا۔ اگر آپ ایسا سمجھ رہے ہیں تو ایسا ہی سہی۔ رب کی نعمت مجھ میں ہے اور فیصلہ بھی میں کروں گی۔ میں کبھی بھی غلط کا ساتھ نہیں دوں گی۔ خواہ اس کے لیے مجھے سڑک پر آنا پڑے۔ ابوجی بولے: ٹھیک ہے تو پھر جاو سڑک پر ۔ ابو جی نے فیصلہ کن نظروں سے نصرت کی طرف دیکھا۔
نصرت نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں جانتی تھی۔ ابو جی ۔ جس انسان نے اپنی جوان بہن کی موت پر اپنے مفادات کو ترجیح دی ۔ وہ مجھے بھی اپنے مفادات کی خاطر اپنی ہی اولاد کو مار ڈالنے کا مشورہ ہی دے گا۔ابو جی مجھے رب نے اس آزمائش کے لیے چنا ہے تو میں اسی سے مدد مانگو گی۔
اللہ جس قدر مردوں کا ہے اسی قدر عورتوں کا بھی ہے۔ وقاص نے غصے سے کہا۔ دیکھا نا ۔ تم یہ اس بچے کے لیے نہیں کر رہی ، تم یہ اس لیے کرنا چاہتی ہو کہ تمہیں شروع سے مقابلہ کا شوق ہے۔ نصرت سن لو تم اپنی زندگی برباد کرنے جا رہی ہو۔ کل یہ بچہ بھی تم سے یہی کہے گا۔ تم نے غلط کیا۔ نصرت نے کہا۔ وقاص بھائی ، مجھے اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ بچہ کیا کہے گا۔ میں تو وہ کروں گی ،جو میری روح کے اطمینان کا باعث بنے۔ مجھے مقابلہ کا کوئی شوق نہیں ہےمگر میں گائے بھی نہیں ہوں ۔ مجھے گائے نہیں بننا ۔ ماں کے پیٹ سے ہر بچہ آزاد پیدا ہوتا ہے ۔ میں بھی آزاد ہوں ۔ اپنے اچھے بُرے کو سمجھتی ہوں ۔ شوہر کی اہمیت کو جانتی ہوں ۔اسی لیے آفاق کی گمشدگی کے دنوں میں رو رو کر اس کے لیے دُعائیں مانگتی تھی۔ اس کے سلامت لوٹ آنے کے لیے منتیں مانگتی تھی۔ اس سے محبت کرتی ہوں لیکن محبت غلامی نہیں ہے۔ میں کسی کی غلام نہیں ہوں کہ آقا کی خوشی کے لیے بنا سوچے سمجھے غلط صیح کو نظر انداز کر دو۔ جب تک آفاق نے مجھ سے کوئی ناجائز خواہش نہیں کی ۔ میں اس کے ساتھ تھی مگر آج جب میں اسے سمجھانا چاہ رہی ہوں کہ ہمیں اپنے ہی بچے کا قتل نہیں کرنا چاہیے۔وہ سمجھنے کو تیار نہیں ۔ انسانیت کا درس دینے والا اپنی باری آئی تو انسان بھی نہیں رہا۔ نصرت کی انکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔ میں اور میرا بچہ ۔ آفاق اور آپ سب کے سب ایک مقرر دن تک زندہ ہیں تو کیوں فقط تھورے دنوں کے آرام کے لیے ایک ایسا گناہ کرئے جو ناقابل معافی ہے۔ ابو جی ، میں اگر یہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہوں تو میری روح مر جائے گی۔ اس سے تو بہتر ہے آپ لوگ مجھے مشورہ دیں کہ میں خود کشی کر لوں۔
ابو جی بولے: ٹھیک ہے نصرت تم اپنی لڑائی لڑو۔ ہم تمہارے ساتھ نہیں ہیں ۔ میں دیکھوں گا کہ تمہاری کوشش کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
وقاص بھائی نے نصرت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ نصرت پھر سوچ لو۔ تم جو فیصلہ لے رہی ہو ،یہ تمہاری آنے والی تمام زندگی کا نقشہ ہی بدل دے گا۔ تمہیں اسی معاشرے میں رہنا ہے۔ تم مانو نہ مانو آج بھی ہمارے معاشرے میں عورت غلام ہی ہے۔ جو اپنی زندگی کے فیصلے خود نہیں کرتی۔ اسے آج بھی بے وقوف ہی سمجھا جاتا ہے۔ کیوں نہ سمجھا جائے، صدیوں کی تاریخ بھی یہی ہے۔ نصرت نے تمسخر خیز مسکراہٹ سے کہا۔ تاریخ لکھنے والے کون ہیں ۔ عورت کو روٹی ، کپڑا اور مکان دے کر اس کی سوچوں کو گھر کی چار دیواری میں مفقود کرنے کے بعد آپ چاہتے ہیں کہ وہ تفکر کرئے ، دانش ور بنے۔ جو حالات عورت کو ملتے ہیں اس میں بے وقوف ہی زندہ رہتے ہیں ۔ غلام کو ساری عمر غلام بنا کے رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ اسے اس سوچ سے دور رکھا جائے کہ وہ غلام ہے ۔ یہی ہو رہا ہے اس پورے جہاں میں عورت کے ساتھ ۔
وقاص بھائی نے اشتعال میں کہتے ہوئے کہا۔ تو تمہارا مطلب ہے کہ آدمی چار دیواری میں رہے اور بچے پالے ، عورت تفکر کرئے اور معاشرے کو چلائے۔ نصرت نے وقاص بھائی کو گھور کر دیکھا اور دانت پیستے ہوئے کہا میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ عورت کو طے کرنے دو کہ وہ گھر میں چار دیواری میں رہنا چاہتی ہے یا پھر جہاز اُڑانا چاہتی ہے۔ وہ بھی اُتنی ہی انسان ہے جتنی کہ کوئی مرد ۔وقاص نے غصے سے اُٹھتے ہوئے کہا۔ تمہاری یہ مرد مخالف سوچ تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ ہر عورت کو کسی نہ کسی مرد ہی کا سہارا لینا ہوتا ہے۔ سمجھی۔
نصرت نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا میں مرد کے مخالف نہیں ، جہاں تک سہارے کی ضرورت ہے تو مرد ہو یا عورت دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آفاق نے جب سہارا دینے سے انکار کر دیا تو میں یہاں آئی ہوں ۔ آپ لوگ بھی اگر سہارا نہیں دیں گئے تو بھی میں کروں گی وہ ہی جو مجھے ٹھیک لگتا ہے ۔ سب سے بڑا سہارا تو اللہ کا ہی ہے۔وہ بہتر جانتا ہے کہ کسی مرد کی مخالفت میں یہ سب نہیں کر رہی بلکہ میں تو ایک انسان کو زندگی دینے کے در پر ہوں ۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ وہ کیسا ہو گا۔ یہ اختیار نہ کسی مرد کو ہے اور نہ ہی کسی عورت کو کہ کسی دوسرے سے جینے کا حق چھین لے ۔ خواہ جینے والے کا کوئی جینڈر ہو یا نہ ہو۔
وقاص کا اشتعال کسی حد تک کم ہو چکا تھا۔ اس نے ابو کی طرف دیکھا اور کمرہ چھوڑ کر چلا گیا۔ امی اورابو کے ساتھ اب نصرت اکیلی بیٹھی تھی۔ کافی دیر کی خاموشی کے بعد اس کے ابو نے کہا۔ نصرت مجھے نہیں پتہ کہ ٹھیک کیا ہے اور غلط کیا ۔ میں ایک معمولی انسان ہو ں ۔ لوگوں کی باتیں اور طعنے نہیں سن سکتا ۔ تم ٹھیک ہو یا غلط ۔ میں تمہارا ساتھ اس حماقت میں نہیں دے سکتا کہ تم سمجھ نہیں رہی ہو۔ تم اور تمہارا بچہ آفاق کے فیصلوں کا پابند ہے ۔ وہ غلط کرئے یا ٹھیک ۔ کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ایک گھر میں دو فیصلہ کرنے والے نہیں ہو سکتے۔ اس طرح تو گھر کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ نصرت نے ابو کی طرف دیکھا اور افسردگی سے کہا۔ ابو جی ۔۔آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ یہی سوچ تو بدلی ہے۔ اگر فیصلہ غلط ہو تو اسے چیلنج کرنا ہی عقل مندی ہے۔ صدیوں سے مجازی خدا کہہ کہہ کر ہمارے معاشرے نے عورت کے لیے مرد کو خدا ہی بنا دیا ہے کہ وہ اپنی بات رکھنے کے بعد کچھ کہنے سننے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔ آپ کو نہیں لگتا ابو جی مرد بھی عورت کی طرح انسان ہی ہے ۔ معمولی یا غیر معمولی یہ اس کے عمل طے کرتے ہیں۔ عورت اور مرد کی ضروریات ایک سی ہیں ۔ پیدائش کا عمل ایک سا۔ سیکھنے کا شوق ایک سا۔ اسے گھر تک مقید کیا جانا بھی سمجھ میں آتا ہے مگر سوچنے سمجھنے اور کچھ کر نے کی آزادی چھین کر غیر فعال بنا دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ اگر ایسا ہی کرنا ہوتا ہے تو اسے پھر تعلیم ہی نہ دلائی جائے۔ گائے کی طرح کے مقاصد لینے ہیں تو پھر گائے کی طرح دماغ کو سُلاد ینا ہو گاتاکہ وہ سوچنے سمجھے کی صفت سے عاری رہے ۔ ابو جی چپ چاپ بیٹھے تھے۔ بولنے والی بیوی یا بہن نہیں بیٹی تھی۔ ان کی نظر میں ان کی سب سے سمجھ دار بیٹی ۔ جس کا نام وہ دوسروں کے سامنے فخر سے لیتے تھے۔ کچھ دیر خاموشی سے نصرت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے کہا۔ تم صدیوں کی رسموں اور طور طریقوں کو کیسے بدلوگی۔ دنیا کے ساتھ ہی چلنا ہوتا ہے۔
نصرت کی انکھوں میں آنسو تھے ۔ مجھے بس آپ کی دُعا چاہیے ۔ شاہد اسی دن کے لیے مجھے تیار کیا جا رہا تھا۔ میں کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتی ۔ میں مردوں کے خلاف نہیں ہوں ، میں فقط عورت کے حق میں ہوں ۔ بچپن سے اپنے ارد گرد جو دیکھتے آ رہی ہوں اس سے مجھے اختلاف ہے۔ مجھے پتہ ہے میرے لیے یہ سب آسان نہیں ہو گا۔ میں ٹھیک ہوں ،یہ میں آپ کی انکھوں میں دیکھ سکتی ہوں ۔ آپ میرا ساتھ نہیں دے سکتے ،مجھے کوئی شکائت نہیں ۔ میں آپ کے کندھوں پر بوجھ نہیں ڈالوں گی۔ بس آپ مجھے رضا مندی دے دیجئے۔ میری تسلی کے لیے بولے گئے آپ کے جملے مجھے سکون دیں گئے۔ ابو جی نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ لوگ تمہیں جینے نہیں دیں گئے نصرت ۔ اس بچے کو پیدا کرنے سے بہتر ہے کہ تم خود کشی کر لو۔نصرت نے دانت پیستے ہوئے کہا ،جیسے پھوپھو نے کر لی تھی۔ اس کے ابو جی کی انکھیں برس پڑی ۔ انہوں نے روتے ہوئے کہا۔ شاہد مجھے اسی بات کی سزا مل رہی ہے۔ کاش کہ میں اس کے حق میں بول پڑتا ۔ کاش۔۔۔۔
نصرت نے روتے ہوئے کہا۔ آپ کی انکھوں سے پچھتاوہ بہہ رہا ہے ،ابو جی اور آپ چاہتے ہیں کہ میں بھی آپ کی طرح حالات سے ڈر کر غلط فیصلہ کر لوں اور پھر عمر بھر اس افسوس میں گزار دوں کہ کاش میں ڈٹ گئی ہوتی ۔ ابو جی ۔ جو بھی ہو گا۔ میں تیار ہوں ۔ میں اس افسوس کے ساتھ نہیں رہ سکتی کہ کاش میں جو چاہتی تھی وہ کرتی۔ آفاق نے مجھے دو راستہ دیئے ہیں ۔ ایک میں میں تنہا ہوں ۔ افسردہ ہوں ۔ تکالیف کے سمندر کی طرف تن تنہا رُخ کر رہی ہوں ۔ دوسری طرف گھر کا سکھ ہے ، ارحم ہے ۔ ظاہری سکون ہی سکون ہے۔ مگر اس روح کا کیا کروں جو کہتی ہے ۔ تھوڑی سی تکلیف کے لیے حق سے پیچھے نہ ہٹوں ۔ عمل باقی رہ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سکھ اور دُکھ چلے جاتے ہیں ۔ میں تیار ہوں ابو جی ۔ میں تیار ہوں ۔ جو بھی ہو گا۔ مجھے منظور ہے۔
ابو جی خاموش تھے ، نصرت نے دھیرے سے کہا۔ میں کل یہاں سے چلی جاوں گی۔ آپ نے اور وقاص بھائی نے جو فیصلہ کیا ہے وہ ٹھیک ہے۔ آپ لوگوں کو میری وجہ سے کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ وہ کمرے سے جا چکی تھی۔ اس کے ابو جی نے روتے ہوئے کہا۔ اللہ میری بیٹی ۔۔۔نصرت نے اپنے کانوں میں اُترتی ہوئی آواز کو محسوس کیا۔
نصرت نے دل ہی دل میں سوچا ،انسان کس قدر بے بس ہو جاتے ہیں ۔ وہ اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔ وقاص ابو جی کے پاس بیٹھا تھا ، اس نے انہیں سمجھانے کے انداز میں کہا۔ میں نصرت کا دشمن نہیں ہوں ۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہم نے اس کا ساتھ دیا تو اس کا گھر توڑنے کے زمہ دار ہم ہوں گئے۔ فی الحال اسے گھر سے جانے دیں ۔ اسے سمجھ آئے کہ باہر جینا کس قدر مشکل ہے۔ ممکن ہے کہ وہ آفاق کے پاس لوٹ جائے ۔ میں بس یہی چاہتا ہوں ۔ آفاق نے اسے چھوڑ دیا تو برباد ہو جائے گی وہ ۔ یہ بات آپ بھی اچھے سے جانتے ہیں ۔ ابو جی نے اثبات میں سر ہلایا۔
نصرت دوسرے دن اپنی سامان لے کر گھر سے نکلی تو امی ۔ ابو کی انکھیں بھیگی ہوئی اور زبان ساکت تھی۔ دونوں ہی بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ نصرت کو وہ مٹی کے مجسمے لگ رہے تھے ۔ فقط جن کی انکھوں میں جان تھی ۔بلکل ساکت اور بے جان۔
نصرت دھیرے دھیرے ان کو اللہ حافظ کر کے نکل گئی ۔ اس کے پاس شام کے کھانے تک کے پیسے نہیں تھے۔ افسردگی کے باعث اس نے صبح بھی فقط چائے ہی پی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا ، عروج کو جہاں چھوڑ کر آئی تھی وہیں چلی جائے۔ فی الحال وہی جگہ ہے جو اس کے لیے پناہ کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے پاس رکشہ کے پیسے بھی نہیں تھے ۔ اس نے چپ چاپ چلنا جاری رکھا۔وہ سوچ رہی تھی کہ اپنے ساتھ کام کرنے والی کسی ٹیچر سے مدد مانگے ۔ بھوک اور کمزوری کے باعث اس سے چلا نہیں جا رہا تھا۔ وہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر رونے لگی۔ ایک بوڑھے پٹھان رکشہ والے نے پاس آ کر کہا،کہاں جانا ہے بی بی۔ نصرت نے جھکے ہوئے سر کو اُٹھایا۔ بوڑھا آدمی ابھی بھی پاس ہی کھڑا تھا۔ نصرت نے افسردگی سے کہا۔ مجھے کہیں نہیں جانا ۔ آپ جائیں ۔ اس نے شفقت سے کہا۔ آپ رو کیوں رہی ہو۔ آپ میری بیٹی کی طرح ہو۔ بیٹا یہاں نہ بیٹھو۔ یہ جگہ محفوظ نہیں ۔ بولوتو کہیں چھوڑ دوں ۔ نصرت نے روتے ہوئے کہا۔ میرے پاس پیسے نہیں ۔ رکشہ ڈرائیورنے سامان اُٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ کوئی بات نہیں پیسے کی بچی ۔ بولو کہاں چھوڑوں ۔
نصرت نے اپنی چادر کو سمیٹا اور اُٹھ کھڑی ہوئی ، بھوک سے اس کا بُرا حال تھا۔ رکشے والے نے سامان رکشہ میں رکھا اور پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے کہا۔جانا کہاں ہے۔ نصرت نے باہر سڑک کی طرف دیکھا ۔ کچھ دیر سوچتے ہوئے کہا۔ یہاں قریب شاہ غازی کا مزار ہے ۔ بس وہیں چھوڑ دیجئے۔
بوڑھے آدمی نے حیرت سے کہا۔ وہاں ۔ وہاں کیوں ۔ میرا مطلب ہے۔ نصرت نے دھیرے سے کہا۔ مجھے بھوک لگی ہے۔ بوڑھا آدمی ہنس کر بولا : بھوک تو مجھے بھی بہت لگی ہے ۔ چلو چلتے ہیں ۔ نصرت خاموشی سے سڑک کو دیکھتی رہی۔ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی،زندگی ایک التباس سے ذیادہ کچھ نہیں جیسے گاڑی میں بیٹھے انسان کو لگتا ہے کہ سڑک چل رہی ہے،حالانکہ فقط گاڑی چل رہی ہوتی ہے ۔ عبداللہ شاہ غازی کا مزار آ چکا تھا۔ رکشہ رُکاتو وہ بوڑھا سامان نکالنے لگا۔ نصرت نے کہا۔ بابا آپ بے شک چلے جائیں ۔ آپ کی مہربانی۔ بوڑھے آدمی نے کہا۔ چلا جاوں گا۔ پہلے ہم کھانا تو کھا لیں ۔ یہ کہتا ہوا وہ نصرت کے آگے آگے چل پڑا۔ نصرت پیچھے پیچھے افسردگی سے چل رہی تھی۔ آنے والے حالات سے متعلق سوچ رہی تھی۔ وہ ڈیلیوری کے لیے پیسے کہاں سے لائے گی۔ رہنے کے لیے تو وہ اپنا گھر چلی جائے گی۔ بوڑھےآدمی نے اس کا سامان رکھا اور شفقت سے کہا۔ بی بی یہاں بیٹھو ۔ میں لنگر سے چاول لاتا ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ نصرت کو زندگی میں پہلی بار بھوک لگنے پر رونا آ رہا تھا۔ کچھ دیر میں بوڑھا آدمی دو شاپر لے کر آ گیا۔
اس نے اپنا شاپر کھول کر کھانا شروع کر دیا۔ نصرت کچھ دیر اس شفیق آدمی کو دیکھتی رہی پھر نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے شاپر کھولا اور چاول کھانے لگی۔ اس کے دل نے کہا،بس اتنی سی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان ضرورت کے لیے نہیں ہوس کے لیے گنہگار ہو جایا کرتے ہیں۔ بوڑھے رکشہ ڈرائیور نے ،اسے کھوئے ہوئے دیکھا تو بولا۔ بی بی تم میری بیٹی کی طرح ہو ۔ وہ بھی چار دن بعد گھر والے سے لڑتی ہے اور واپس آجاتی ہےپھر میں اسے سمجھا بجھا کر چھوڑ آتا ہوں ۔ پھر وہ چلی جاتی ہےلیکن چار دن بعد پھر واپس آ جاتی ہے۔ بچی گھر والے سے نہیں لڑتے۔ دیکھو نا ، خود بھی روتی ہو، اسے بھی پریشان کرتی ہو۔ گھر والا بھی دیکھو نا۔۔۔۔۔۔۔۔نصرت رونے لگی۔رکشے والابولا رو نہیں رو نہیں ۔ میں تو اس لیے کہہ رہا تھاکہ ۔۔۔۔۔۔۔جہاں کہو گی چھوڑ دوں گا۔ کوئی تو ہو گا ،باپ،بھائی ۔بہن۔ کوئی رشتہ دار۔ اس نے کہنے کے بعد ہاتھ صاف کئے۔
نصرت کو مس لبنی کا گھر پتہ ۔ مہینہ ختم ہونے میں ابھی سات دن باقی تھے ۔ اس نے سوچا تنخواہ ملنے تک مس لبنی سے ادھار مانگ لیاجائے۔ رکشہ ڈرائیور شاپر سے ہاتھ صاف کر کے بولا ۔ پانی تو وہاں ہی جا کر پینا پڑے گا۔ نصرت اُٹھی ۔اس کا پیٹ بھر چکا تھا۔ وہ اس بوڑھے کے پیچھے پیچھے چل پڑی ۔ وہ پانی پی کر مزار سے باہر نکل آئے۔
نصرت کو شادی سے پہلے اس مزار پر حاضری دینا یاد آیا ، جس پر وہ تنقید کر رہی تھی۔ عجیب ہیں ہم لوگ ، زندہ لوگوں کو کچھ نہیں دیتے اور مرے ہوئے انسان پر چادریں چڑھاتے ہیں ۔ پتہ ہے آپ کو یہ بھی ایک شرک ہی ہے۔ مسجدوں کو آباد کرنے کا حکم ہے مزاروں کو نہیں ۔ امی نے اسے گھور کر دیکھا تھا اور کہا تھا۔ میں نے دیگ مانی تھی ۔ وقاص کی نوکر ی لگے گی تو لنگر میں دوں گی۔ تم چپ کرو ۔ یہ شرک نہیں ہے ۔ غریبوں کے پیٹ میں ہی جاتا ہے اور کھا کر دُعا دیتے ہیں ۔ نصرت نے اپنے بھیگے ہوئے چہرے کو اپنی چادر سے صاف کیااور دل ہی دل میں کہا۔ اے اللہ تو اپنے نیک لوگوں کا ذکر بلند رکھنا ۔ بے شک تو ہی جانتا ہے کہ درست کون ہے۔ ہمیں درست پر قائم رہنے کی توفیق دے۔
نصرت نے مس لبنی کے گھر کا پتہ رکشہ ڈرائیور کو سمجھایا۔ اس ڈرائیور کو لگا ،نصرت اس کی باتوں سے سمجھ کر اپنے گھر واپس جا رہی ہے۔ اس نے خوشی سے نصرت کی طرف دیکھ کر کہا۔ اپنا گھر ہی سب کچھ ہوتا ہے بچی۔ گھر والا کچھ بھی کہے ، گھر سے قدم باہر نہیں نکالنا۔ نصرت نے اس کی باتوں میں پدرانہ شفقت محسوس کی۔ انسان ہی انسان کا سب سے بڑا غمکسار ہے اور سب سے بڑا دشمن بھی ۔ اس نے اس ڈرائیور کے گندے کپڑوں کو دیکھا۔ جس کا دل کس قدر صاف تھا۔
کچھ دیر میں وہ مس لبنی کے گھر پہنچ چکی تھی۔ اس نے رکشہ ڈرائیور سے رکنے کا کہا۔ خود اندر جانے لگی ۔پھر پیچھے مڑی اور رکشہ ڈرائیور سے عاجزی سے کہا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ میں تھوڑی دیر تک پیسے لا کر آپ کو دیتی ہوں ۔ آپ یہاں ہی رُکیں۔
رکشہ ڈرائیور نے کہا۔ نہیں نہیں پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ خوش رکھے ۔ نصرت نے کہا۔ بابا مجھے یہاں نہیں رہنا۔ مجھے کہیں اور جانا ہے۔ بس آپ یہاں رُکنا ۔ میں پیسے لے کر آتی ہوں ۔مس لبنی کے گھر کا دروازہ کھلا تھا۔ نصرت نے گھنٹی بجائی ۔ مس لبنی کا بیٹا باہر نکلا۔ نصرت کو دیکھ کر مس لبنی نے حیرت سے کہا۔ آپ یہاں ۔ کیسے؟ میرا مطلب ہے ۔ نصرت نے اپنی تمام کہانی نہ چاہتے ہوئے بھی لبنی کو مختصراً سنا دی۔ نصرت نے اس سے مدد مانگی ،اس نے بتایا کہ وہ اب اپنا گھر میں پنا ہ لے گی۔ لبنی نے تمام باتیں سننے کے بعد آفاق کو بُرا بھلا کہا۔ نصرت نے پھر اسے پیسے مانگے تو اس نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ سات دن رہتے ہیں ماہ ختم ہونے میں ۔ ایسے میں پیسے کم پڑجاتے ہیں ۔ میں ذیادہ توآپ کی مدد نہیں کر سکتی بس ہزار روپے ہی دے سکتی ہوں ۔ نصرت نے افسردگی سے کہا۔ کوئی بات نہیں ۔ جیسے ہی تنخواہ ملے گی ۔ میں واپس کر دوں گی۔ مس لبنی نے اسے پیسے لا کر دیے۔ نصرت جانے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ مس لبنی نے کہا۔ آپ گھر سے کچھ بھی نہیں لے کر نکلیں۔میرا مطلب ہے کپڑے وغیرہ۔
نصرت نے افسردگی سے کہا۔ ایک اٹیچی ہے تو باہر رکشہ میں ہے۔ وہ ڈرائیور میرا انتظار کر رہا ہے۔ مس لبنی نے کہا۔ آپ تو بلکل پاگل ہیں ۔ وہ رکشے والا لے گیا ہوگا آپ کا سامان اب تک ۔ نصرت نے بجھے ہوئے دل سے کہا۔ نہیں نہیں ۔۔۔مس لبنی تیزی سے دروازے کی طرف آئی جہاں ایک بوڑھا اپنے رکشے کو پرانے سے کپڑے سے صاف کر رہا تھا۔ نصرت بھی لبنی کے پیچھے پیچھے باہر آ گئی۔ مس لبنی نے کہا۔ شکرکرو چلا نہیں گیا۔ آئندہ دھیان دینا ۔ یہ لوگ قابل اعتبار نہیں ہوتے۔ نصرت کے چہرے پر تمسخرخیز ہنسی تھی ۔ ا س نے دل ہی دل میں کہا۔ کوئی بھی قابل اعتبار نہیں ہوتا۔ بس اللہ ہی کی ذات ہے۔
جس کے دل کو اپنا گھر کر لے۔ رکشہ والا فوراً سے آ گیا ۔ نصرت ،مس لبنی کو اللہ حافظ کہہ کر رکشہ میں بیٹھ چکی تھی۔ اس نے رکشے والے کو راستہ سمجھایا۔ بوڑھے آدمی نے جب اسے وہاں چھوڑا تو اس نے وہ ہزار کا نوٹ دیتے ہوئے کہا۔ بابا آپ کچھ پیسے کاٹ لیں ۔ میرے پاس بس یہی نوٹ ہے۔ بوڑھے آدمی نے سامان باہر رکھا اور اسے وہ ہزار کو نوٹ واپس کرتے ہوئے کہا۔ بچی خوش رہو۔ دوبارہ رکشے میں بیٹھا اور چل دیا۔ نصرت نے ہاتھ میں رکھے ہزار کے نوٹ کو دیکھا اور دل ہی دل میں کہا۔ یہ وہ لوگ ہیں کیا؟ جن پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے خود سے کہا۔ ہر جگہ ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔ کسی کے ظاہر سے باطن کا جاننا نا ممکن ہے۔
اسے وہ دن یاد آ رہا تھا، جب وہ عروج کو یہاں چھوڑ کر گئی تھی۔ عروج کے آنسو ، اس کی تکلیف اسے یاد آ رہے تھے۔ وہ وہاں کے کام کرنے والوں سے ملی ۔ اپنے آنے کی وجہ بتائی ۔ وہاں کو چلانے والے جلیل صاحب نے نصرت کو تسلی دی۔ نصرت نے بتایا کہ وہ ملازمت کرتی ہے ۔ وہ بہت ذیادہ بوجھ نہیں بنے گی۔پانچ دن گزر چکے تھے ۔ کسی نے اسے نہیں پوچھا تھا ۔
وہ ارحم کو دیکھنا چاہتی تھی ۔ کام کے بعد وہ گھر گئی۔ آفاق نے دروازہ کھولا۔ وہ چپ چاپ اندر داخل ہوئی ۔ آفاق نے اسے سر سے پاو ں تک دیکھا۔ نصرت کےدس دن سے پہلے لوٹ آنے کو وہ اپنی جیت سمجھ رہا تھا۔ آفاق نے دھیمے سے لہجے میں کہا۔ تم اپنا سامان نہیں لائی۔ چلو کوئی بات نہیں کل لے آنا۔ راحت نصرت کے بیڈ پر بیٹھی تھی۔ ارحم سویا ہوا تھا۔ نصرت ارحم کے پاس بیٹھ کر اس کے ہاتھ پاوں چومنے لگی ۔ اس کا چہرہ آنسووں سے بھیگ گیا۔ راحت نے نصرت سے کہا۔ اچھا کیا نصرت واپس آ گئی ۔ نصرت نے غصے سے راحت کی طرف دیکھ کر گھورا۔ اس نے نصرت کا موبائل ،نصرت کی طرف لہراتے ہوئے کہا۔ تمہاری امی کا فون آیا تھا۔ کل ۔ میں نے انہیں بتایا کہ تم یہاں نہیں ہو۔ تمہارے ابو بہت بیمار ہیں ۔ انہیں ہوسپٹل میں ایڈمنٹ کیا گیا ہے۔ نصرت نے موبائل راحت کے ہاتھ سے لے لیا۔ اس نے فوراً امی کو فون کیا۔
امی ، ابو جی کیسے ہیں ۔ اس کی امی نے روتے ہوئے کہا۔ کوئی امید نہیں ہے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ان کے دونوں گردے ختم ہو چکے ہیں ۔ عمر بھی ایسی ہے کہ سرجری نہیں کی جا سکتی ۔ تمہیں بہت یاد کر رہے ہیں ۔ نصرت آ کر مل جاو۔ نصرت نے روتے ہوئے کہا۔ میں آتی ہوں ۔ امی اسے ہوسپٹل کا راستہ سمجھا رہی تھیں۔ نصرت نے آفاق کی طرف دیکھا ۔ آفاق نے نرمی سے کہا۔ تم رپورٹ دیکھا و۔ کہاں ابوشن کروایا ہے۔ نصرت نے آفاق کو غصے سے کہا ۔ نہ ابوشن کروایا ہے نہ کروانا ہے مجھے ۔ میں تو یہاں ارحم کو دیکھنے آئی تھی۔ مجھے یہاں سے میری چیزیں لینی ہیں ۔ اس نے ایک اٹیچی اتارا اپنی چیزیں ڈالنے لگی۔ آفاق چپ چاپ حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ اس نے اپنا پرس لیا اس میں اپنا موبائل ڈالتے ہوئے کہا۔ ارحم پر حق جتانے سے پہلے آپ نے یہ بھی نہیں سوچا کے اکیلا پالا ہے میں نے اسے۔ آپ تو یہاں تھے ہی نہیں ۔ وہ اپنا اٹیچی مکمل بھر چکی تھی۔ آفاق نے غصے سے کہا ،تم یہاں اگر ارحم کو لینے آئی ہو تو بھول جاو۔ نصرت نے افسردگی سے کہا۔ میں فی الحال ارحم کو لینے نہیں آئی ۔ میرے پاس اسے رکھنے کے لیے کوئی جگہ نہیں لیکن ایک بات یاد رکھیں آفاق وہ میرا بیٹا ہے اور میرا ہی رہے گا۔ آج نہیں تو کل میں اسے یہاں سے لے جاوں گی۔ آفاق نے اسے گھور کر دیکھ کر کہا۔ میرے جیتے جی تو ایسا ہونے سے رہا۔ نصرت ۔
نصرت نے اٹیچی کو ویلز پر چلاتے ہوئے کمرے کے دروازے پر رکھا۔ واپس آ کر ارحم کو چومنے لگی ۔ اسے سینے سے لگایا تو وہ جاگ گیااور رونے لگا۔ آفاق نے ارحم کو اس سے چھین کر راحت کو دیتے ہوئے کہا۔ اسے دوسرے کمرے میں لے جاو۔
آفاق نے نصرت کی طرف دیکھ کر کہا۔ تم یہ سب کیوں کر رہی ہو نصرت ۔ میں پھر تمہیں موقع دیتا ہوں ۔ واپس آ جاو ۔ اپنی ضد چھوڑ دو ۔ ارحم ہے نا۔ ہماری اور اولاد ہو جائے گی۔ اگر اللہ نے چاہا تو۔ میں سب ٹھیک کر دوں گا۔ تم سمجھتی کیوں نہیں ۔ میں تمہارا یا اپنے بچے کا دشمن نہیں ہوں۔ میں تو بس وہی چاہتا ہوں جو ہمارے لیے اچھاہے۔ نصرت نے روتے ہوئے کہا،آفاق آپ مجھے یہ بچہ رکھنے دیں ۔ آپ چاہیں تو دوسری شادی کر لیں ۔ آپ کچھ بھی کہیں اور کریں میں آپ کا ساتھ دوں گی۔ بس مجھے قتل جیسا گناہ کرنے پر مجبور نہ کریں ۔ میں آپ کے کہنے پر اگر اس بچے کو مار ڈالوں تو اس کے بعد چین کی نیند سو نہیں پاوں گی۔ گناہ کا احساس مجھے مار ڈالے گا۔ اس سے تو اچھا ہے کہ آپ مجھے مار ڈالیں ۔
آفاق کی انکھوں میں آنسو تھے ۔ اس نے اپنا منہ دوسری طرف کرتے ہوئے کہا۔ ہر انسا ن اپنی اولاد کو اپنی ذات سے بھی ذیادہ بہتر اور اونچا دیکھنا چاہتا ہے۔ میں برداشت نہیں کر پاوں گا، ایسے بچے کو جھیلنا میرے بس کا نہیں نصرت چلی جاو۔ آج سے تمہارا اور میرا راستہ الگ ہوا۔ نصرت نے آفاق کو پیٹھ پھرے دیکھا ۔ کچھ دیر رُکی ،پھر اللہ حاٖفظ کہہ کر باہر نکل گئی۔وہ جانتی تھی کہ آفاق بھی رو رہا تھا۔
اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور رکشے والے کو ہوسپٹل جانے کا کہا۔ رکشہ میں بیٹھے ہوئے وہ گزرتے ہوئے درخت اور سڑک کو گھور رہی تھی۔ موبائل کی گھنٹی سے وہ چونک گئی۔ اس کی امی رو رہی تھی۔ ابو جی اب نہیں رہے۔ نصرت تمہارے ابو جی اب نہیں رہے،گھر آو۔ نصرت گھر آو۔ امی کی آواز نے اس کے وجود کو ہلا دیا تھا۔ابو جی اپنے حصے کی بے بسی اور طاقت سب سمیٹ کر جا چکے تھے۔بستر پر فقط جسم باقی تھا ، بے حس و حرکت۔ محلے کی چند عورتیں موجود تھیں ۔ لوگ چہرہ دیکھتے افسوس کرتے اور بیٹھ جاتے۔ سعدیہ اور امی نے اسے کمرے میں بستر کی طر ف بڑھتے دیکھا۔
سعدیہ اُٹھ کر نصرت سے لپٹ گئی۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔ نصرت ہم یتیم ہو گئے۔ نصرت کا چہرہ بھی آنسووں سے دُھل چکا تھا۔ تھوری دیر میں سب ہی اس کے گلے لگ کر روتے اور پھر الگ سے جا کر بیٹھ جاتے ۔ کوئی تو اس کے ابو جی کی موت پر تجزیہ کرتا تو کوئی اپنے حالات ایک دوسرے کو بتا کر اپنا غم غلط کر تا۔ نصرت نے دل ہی دل میں سوچا ، یہ ہے وہ منزل جو ہم سب بانٹتے ہیں ۔ موت ۔ وہ ابو جی کے ساکت چہرے کو دیکھ رہی تھی ،جو کبھی بولتا تھا مگر آج کس قدر خاموش تھا۔ بولنا ہمیں دوسروں سے جوڑتا ہے لیکن خاموشی خود سے۔ وہ خاموشی سے اپنے ابو جی کے بستر کے پاس آ کر ان کے چہرے کو دیکھ رہی تھی ۔ کس قدر شفیق تھا وہ چہرہ ۔ اپنی تمام تر غلطیوں اور کوتائیوں کے باوجود آج وہ انہیں دنیا کی معصوم ترین ہستی لگ رہے تھے ،لگتے بھی کیوں نہیں ۔ اپنی تمام زندگی انہوں نے جو بھی کیا ،اپنے بچوں کے لیے ہی تو کیا تھا۔ابو جی کو قبرستان لے جانے کے لیے آدمی جمع ہو چکے تھے۔ عورتیں پیچھے کو ہٹ چکی تھی۔ آہ زاری سمٹ کر باتوں میں بدل چکی تھی۔ کھانا تیار تھا۔ جو اتنے ذیادہ لوگ جمع تھے کھانا کھانے لگے۔
نصرت سعدیہ اور امی کے پاس بیٹھی تھی۔ امی نے روتے ہوئے کہا،نصرت تمہارے ابو جی تمہیں بہت یاد کر رہے تھے۔ وقاص تو کہتا ہے تمہارا غم انہیں لے گیا۔ بیٹا ابھی بھی وقت ہے ، آفاق کے پاوں پکڑ لو ۔ اس کی بات مان لو۔ شوہر سے زیادہ اہم کوئی نہیں ہوتا۔ بہترین عورت فرمابردار ہوتی ہے۔ نصرت نے دھیرے سے کہا۔ بہترین مرد کیا ہوتا ہے امی۔ امی نے غصے سے کہا۔ تو فسادی تھی ، فسادی ہے اور فسادی ہی رہے گی سمجھی۔ سعدیہ نے نصرت کیطرف التجا بھری نظروں سے دیکھا اور بولی ۔نصرت ہم اس معاشرے کے اصول نہیں توڑ سکتے ۔تمہیں کسی قیمت پر گھر نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔
گھر اور بچوں کو دیکھنا ہی عورت کا کام ہے۔ سوچنا نہیں ۔ کوئی آدمی یہ نہیں چاہتاکہ اس کی بیوی گھر کے فیصلے کرئے۔ جیسے دو خدا ہوں تو دنیا خراب ہو جائے،اللہ واحد کی مثال دیتے ہوئے کہا جاتا ہے نا۔ اسی طرح ایک خاندان کے لیے ایک ہی دماغ کی حکمرانی لازم ہے ۔ نصرت نے سعدیہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ کہاں معمولی انسان اور کہاں خدا۔ تم نے دیکھا نہیں کس قدر بے بسی سے ابو جی اپنے آخری مقام کی طرف گئے۔ مرد خدا نہیں ہے۔ یہ صدیوں سے بنی ہوئی سوچ ہے۔ تم جانتی ہو سعدیہ یہ سوچ غلامی کی نشانی ہے۔ اب غلامی کا دور تو رہا نہیں تو آدمی نے اپنے گھر میں ہی حکومت کی سوچی۔
سچ تو یہ ہے عورت مرد کی بہترین مشیر ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو وحی اترنے کے بعدحضور ﷺ حضرت خدیجہ کے پاس نہ آتے بلکہ اپنے چچا کے پاس جاتے۔ ہم غلط روایات کو پکڑ کر بیٹھے ہیں ۔ عورت کا کام کھانا پکانے تک محدود کر دینے سے اس کے دماغ کو سوچنے سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔یہ بات سچ ہے کہ معاشرہ مردوں کے ہاتھوں میں ہے۔ عورت ابھی شعور کی ابتدائی سیڑھی پر ہے۔ عورت کے لیے معاشرے کی اقدار اور روایات کو بدلنا مشکل ہے مگر آج نہیں تو کل عورت کو برابری کے حقوق دینے ہی ہوں گئے۔ وہ دماغ رکھتی ہے ۔گھر کی گائے نہیں ہے جیسے چارہ کھلاتے جاو، دودھ نکالتے جاو۔ سعدیہ نے امی کی طرف دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔ امی نے غصے سے کہا۔ تمہارے ابو جی کی یہ آخری خواہش تھی کہ تم آفاق کے پاس لوٹ جاو۔
نصرت نے تمسخر خیز مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے کہا۔ ابو جی۔ پھر اس نے ایک آہ بھری اور بولی۔ ان کی زندگی کا مقصد فقط اپنے خاندان کی اور اپنی خوشی ہی تھا۔ ان کی سوچ کا دائرہ تنگ تھا ، جو ہر عام انسان کا ہوتا ہے۔ وہ معاشرے کے اصولوں کے پابند تھے۔ انہوں نے اپنی جائیداد اپنے دونوں بیٹوں میں برابر تقسیم کر دی تھی۔ اپنی زندگی میں ہی سعدیہ اور مجھ سے منظور ی لے کر قانونی طور پر یہ کام کر دیا گیا تھا۔ ابو جی کا خیال تھا کہ بچیوں کو جو جہیز دیا جاتا ہے ،وہ ان کا حصہ ہی ہوتا ہے اور شوہر کے گھر ہی ان کے گھر ہوتے ہیں ۔ زمین اور جائیداد تو بیٹوں کا ہی حق ہے۔میں نے ابو جی کا دل نہ دکھانے کے لیے اعتراض نہیں کیاورنہ مجھے سخت اعتراض تھا۔
ایک مردکبھی محسوس نہیں کر سکتا اس بے قیمتی کا احساس جو ایک عورت محسوس کرتی ہے۔ جب اسے اپنے ہی گھر سے اس کا بھائی نکاح کے نام پر نکال دیتا ہے ۔ جیسے آمنہ کے ساتھ ہوا، جب اسے اپنے ہی گھر میں اس کا بھائی رکھنے کو تیار نہیں ہوتااور خاص کرتب جب اس کا شوہر اسے گھسیٹ کر گھر کے باہر نکال دیتا ہے ،یہ کہتا ہوا کہ دفع ہو جاو میرے گھر سے۔ اس نے آگے پیچھے نگاہ دہرائی اور افسردگی سے کہا۔ لڑکی کو سمجھایاجاتا ہے کہ وہ گھر کی رانی ہےاور لڑکا باہر کام کرنے کے لیے بنا ہے۔ حقیقت نہیں بتائی جاتی کہ اس کا کوئی گھر نہیں ۔جو عورتیں بغاوت پر آتی ہیں تو ان پر بدچلنی کا داغ لگا دیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے ان کے کردار کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عورتیں بھی اس عورت کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہوتیں کیونکہ اس سے ان کو ملنے والے مفادات خطرے میں آ جاتے ہیں ۔سعدیہ نے افسردگی سے کہا۔ پتہ نہیں نصرت تم ٹھیک کہہ رہی ہو یا نہیں مگر مجھے تو لگتا ہے کہ عورت کا کام بچے پیدا کر کے ان کی اچھی تربیت کرنا ہے۔ نصرت نے ہنس کر کہا، جو انسان سوچ نہیں سکتا وہ تربیت کیا خاک کرئے گا۔ ایسے میں تو مرد ہی ہر رو ز عورت کو بتائے گا نا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ سعدیہ نے افسردگی سے کہا۔ کہہ تو تم ٹھیک ہی رہی ہو۔ ادریس کے ابو جی بھی ایسا ہی کرتے ہیں ۔ بات بات پر مجھے ٹوکتے رہتے ہیں ۔ بچوں کو اگر میں ڈانٹ دوں یا مار دوں تو آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں ، مارنے کو آتے ہیں اور خود دل کھول کر بچوں کو مارتے ہیں ۔ میں تو بچوں کو بچانے کے لیے آگے بھی نہیں ہوتی کہ مجھے بھی مار پڑے گی۔ نصرت نے کراہت بھری سوچ میں سعدیہ کے شوہر کو سوچا اور ہونٹوں کو بھیجنتے ہوئے کہا۔ قصور آدمیوں کا نہیں ہے ، قصور عورتوں کا ہی ہے۔ ہم لوگ اپنے بچوں کو حضرت حسین کی شہادت کا قصہ سناتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر ہم میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ حق کے لیے ہم یا ہمارے بچے گردن کٹاتے پھریں ۔ مصلحت کے تحت جھک جانا ہی بہتر ہے۔ہم یہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے ٹھیک کیا ہے اور غلط کیا۔ یہی وجہ ہے کہ نسل در نسل غلامی کا سلسلہ چل رہا ہے۔ باپ ، بھائی ، شوہر اور بیٹے فیصلے کرتے ہیں اور وجہ صرف یہی ہے کہ عورت کو سکھا دیا گیا ہے کہ وہ فیصلوں کو قبول کرنے کے لیے مجبور ہے۔ وہ جائے گی کہاں ۔ گھر ابا جان کا ہے خوشامد کرئے، بھائی جان کا ہے ،بات مانے ، شوہر کا ہے ،دو چار تھپڑ کھا لے تو کیا فرق پڑتا ہے۔میک اپ کر کے چھپا لے،بیٹے کا ہے ،اس کے بچوں کو کھیلاتی رہے۔پھر خوشامد کرئے ۔ یعنی خوشامد والا کام شروع سے لے کر آخر تک کرتی رہے۔گدھے کو لگتا رہے کہ وہ گھوڑا ہے۔ اس نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
امی نے غصے سے کہا۔ نصرت جاو چلی جاوں یہاں سے۔ بناو ، اپنا گھر۔ ہم بھی دیکھیں گئے کتنا عرصہ تم اپنی باتوں پر قائم رہتی ہو۔ سعدیہ کی انکھوں میں آنسو تھے ۔ اس نے نصرت کی طرف اداسی سے دیکھااور بولی ۔ کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو مگر کچھ کیا نہیں جا سکتا۔ شاہد کچھ اچھے مرد ہی اس سلسلے میں کچھ کر سکتے ہیں ۔ نصرت کی انکھوں سے بھی آنسو گِر گئے ۔ اسے اپنی ہی کہی ہوئی بات یاد آئی ۔ دس بھیڑیں مل کر چرواہا نہیں بن سکتیں ۔ اس نے چادر سمیٹی پرس اُٹھایا ۔کمرے کے دروازے سے باہر نکل گئی۔ باہر کےدروازے کے پاس رکھا ہوا اٹیچی لیا اور دوبارہ اپنا کھر ٹرسٹ کی طرف رُخ کیا۔ وہ جانتی تھی سعدیہ درست کہہ رہی تھی۔ جو راستہ اس نے چنا تھا وہ مشکل نہیں ، مشکل ترین تھا۔ وہ اکیلی کیچڑ صاف تو نہیں کر سکتی تھی جو صدیوں سے پھیلا ہوا تھا مگر وہ کنول ضرور بن سکتی تھی۔ جس کی وجہ سے کوئی کچڑ صاف کرنے کی کوشش کرئے۔
مس لبنی کو اس کے پیسے دیتے ہوئے نصرت نے شکریہ ادا کیا۔ مس لبنی نے آفاق کو ستے ہوئے کہا۔ کیسے کیسےآدمی ہوتے ہیں ۔ اس سے پہلے کہ وہ مذید کچھ کہتی ۔ نصرت نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ایسے ہی آدمی ہوتے ہیں ۔ شاہد میں آدمی ہوتی تو میں بھی ایسی ہی ہوتی۔ مس لبنی نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے خاموشی اختیار کر لی۔
نصرت ارحم کی جدائی کو بہت ذیادہ محسوس کرتی مگر آفاق سے سامنا نہ ہو اس لیے وہ سترہ دن بعد جب ارحم سے ملنے گئی تو گھر پر تالا لگا تھا۔ اس نے آفاق کو فون کیا ،فون بند تھا۔ اس نے راحت کو فون کیا ۔ راحت نے فون اُٹھا لیا۔ نصرت نے ارحم کا پوچھا۔ راحت نے افسردگی سے کہا۔ وہ لوگ تو دُبئی چلے گئے۔نصرت کی انکھوں میں آنسو تھے ۔ میرا بیٹا۔
کب ،کب چلے گئے۔ آپ کہاں ہیں ۔ راحت نے اداسی سے کہا ، میں تو ماموں کے گھر ہوں ۔وہ لوگ تو تین دن پہلے دُبئی چلے گئے۔ عارف بھائی نے سارا انتظام کر دیا تھا۔ آفاق تو کہہ رہا تھاکہ وہ اب کبھی پاکستان نہیں آئے گا۔ کبھی بھی نہیں ۔
نصرت نے چیخ کر کہا ، ایسے کیسے میرے بیٹے کو لے کر جا سکتا ہے وہ۔ دوغلا ، منافق انسان۔ نصرت نے چیخ چیخ کر رونا شروع کر دیا۔ وہ گھر کے دروازے پر ہی سوالیوں کی طرح بیٹھ گئی۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔ قیامت کے دن اولاد ماں کے نام سے پکاری جائے گی۔ تب تم کیسے ارحم کو مجھ سے چھینو گئے آفاق ، کیسے چھین سکو گئے۔ وہاں تمہیں ضرور پتہ چلے گا۔ تم خدا نہیں ہو ۔ نہیں ہو تم خدا۔ کوئی نہیں تھا جو اس کے آنسو صاف کرتا۔ کوئی نہیں تھا ،جس کو وہ فون کر کے مد د کے لیے بلا لیتی۔
وہ شام تک روتی رہی ، رات کو وہ ڈائری لے کر بیٹھی تھی۔ اس کی انکھیں اب جواب دے چکی تھیں ۔ وہ مذید آنسو نہیں بہا رہی تھی۔
کیا بے بسی سی بے بسی ہے۔
آنسو ہیں اور تیری ذات سے شکائت ہے۔
درد ہے توڑتا ہے جو دل میرا۔
درد بھی تو دل کے لیے عنائت ہے۔
قلب کے لیے سامان تسلی کر۔
میرے لیے اب کیا ہدائت ہے۔
وہ ارحم کی تصویر دیکھ رہی تھی۔ اس کے ساتھ بہت سے گزرے لمحے اس کی انکھوں میں بسے تھے ۔ اس نے تصویر کو بے اختیار چوما۔ وہ اپنی بے بسی سے لڑتے ہوئے کب سو گئی ،اسے کچھ پتہ نہ چلا ،صبح پھر سے کام پر تھی۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا ۔ کام پر جانا اس کے لیے مشکل ہو رہا تھا۔ مس لبنی کی وجہ سے ہرکسی کو پتہ تھا کہ وہ کہاں رہ رہی ہے ۔ اس کے شوہر نے اسے چھوڑ دیا ہے۔
بیوی شوہر کو چھوڑے یا شوہر بیوی کو لوگوں کی نظروں میں تو چھوڑنے والا شوہر ہی ہوتا ہے۔ مس لبنی نے سعد سے کہا، جو ان کا کزن تھا اور نیا نیا یہاں کام کے لیے آیا تھا۔ مس لبنی کی بتائی ہوئی کہانی کے مطابق اسے نصرت بہت مضبوط ارادوں کی عورت لگی۔ اس کا جی چاہنے لگا کہ وہ نصرت سے بات کرئے مگر نصرت اکثر یا تو کتاب پڑھتی نظر آتی ،یا کوئی کام کرتی۔ ہمت کر کے سعد نصرت کے قریب کے صوفہ پر آ کر بیٹھ گیا۔ اسلام علیکم کہہ کر وہ نصرت کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔ جو اسے خود اعتمادی سے مزین نظر آ رہا تھا۔
میڈم اس نے جب دوسری دفعہ کہاتو نصرت نے کتاب میں انگلی رکھتے ہوئے متوجہ ہو کر اسے واعلیکم اسلام کہا۔ سعد نے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔ آپ کون سی کتاب پڑھ رہی ہیں ۔ نصرت نے اس کے چہرے کو گھور کر دیکھا۔ پھر کتاب کو دیکھ کر بولی یہ ورجینا ولف کی کتاب ہے۔ آ۔ روم ۔ آف ۔ وونز ۔ اون۔ فیمنسٹ رائٹر ہے۔
سعد نے تھوک نگلا ، سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔ کس بارے میں ہے ۔ نصرت نے سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھا اور بولی ۔ عورت کو مالی طور پر مستحکم ہونا چاہیے ، اس بارے میں ہے۔ سعد نے پھر فوراً سے ہی کہا۔ یہ تو انگریز عورت ہے نا۔ ہمارے ہاں تو نان نفقہ مرد کی ذمہ داری ہے۔ نصرت نے تمسخر خیز مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے کہا۔ ہمارے ہاں تو پھر غیر محرم سے بات کرنا بھی منع ہے ۔ آپ یہاں میرے پاس کیا کر رہے ہیں ۔ سعد نے اپنی نظروں کو ارد گرد گھمایا۔ نصرت نے گھور کر سعد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ دین کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا جب عورت سیکھ لے گی،تو مشکل ہو جائے گی سعد صاحب ۔یہ کہہ کر نصرت اُٹھ کر کھڑی ہو ئی۔ وہ اس قدر محنتی اور اپنے کام میں اچھی تھی کہ ہر کوئی اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ وہ اپنے طلبہ کے لیے ہر دل عزیز تھی۔
سعد ابھی بھی وہیں بیٹھا تھا۔ اسے نصرت کی حاضر جوابی ہر تعجب ہو رہا تھا۔ وہ اس قسم کے جواب کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ اس نے سوچا لبنی نے جس طرح بتایا تھا ، اس عورت کو تو بے چاری اور غموں کی ماری ہونا چاہیے تھا مگر اس حالت میں بھی یہ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ مس لبنی اس کے پاس والے صوفہ پر آ کر بیٹھی۔ انہوں نے سمجھاتے ہوئے کہا۔ دیکھو سعد ۔ تم میرے بھائی کی طرح ہو ۔اس لیے کہہ رہی ہوں ۔ ایسی عورتوں سے دور رہتے ہیں ،جن کے شوہر انہیں چھوڑ دیں ۔ انہیں تو بس سہارا چاہیے ہوتا ہے اور یہ تو رہتی بھی ٹرسٹ میں ہے ۔ سمجھے۔
سعد نے باہر کالج کے گارڈن میں بیٹھی ہوئی نصرت کی طرف دیکھااور دل ہی دل میں کہا۔ یہ تو خود سہارا بننے والوں میں سے ہے ۔ اسے سہارے کی کیا ضرورت۔ لبنی نے سعد کی انکھو ں کے سامنے چٹکی بجائی ۔ سعد ۔ لبنی کی آواز نے سعد کو چونکا دیا۔ تم سے بڑی عمر کی ہے یہ ۔ سعد ہنسنے لگا۔ باجی آپ یونہی پریشان ہو رہی ہیں ۔ میں تو بس ہمدردی کر رہا تھا۔

 

kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 281049 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More