اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے سابق وزیراعظم نوازشریف
کی سزا معطلی کے فیصلے کو لے کر چیف جسٹس آف پاکستان نے بے جا جزباتیت
دکھائی ہے۔یہ سزا نیب کورٹ سے ملی تھی۔اس سزا کے خلاف اسلام آبا دہائی کورٹ
میں نوازشریف کے وکیل نے اپیل دائر کی گئی۔فیصلہ آنے تک ضمانت پر رہائی کی
بھی استدعاکی گئی۔ہائی کورٹ کی طرف سے کچھ سماعتوں کے بعد سابق وزیر اعظم
کو ضمانت پر رہائی مل گئی۔نیب نے پھر اس رہائی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل
کردی۔اب اس کیس پر باقاعدہ سماعت شروع ہوچکی۔ اسی سماعت کے موقع پر چیف
جسٹس کی طرف سے یہ سخت ریمارکس سامنے آئے ۔اگرچہ یہ پہلی سماعت تھی۔مگر چیف
جسٹس نے کہہ دیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم کرنے کے سوا کوئی
چارہ ہی نہیں۔اس فیصلے نے فقہ قانون کو تباہ کردیا ۔غلطی کی یہ کیس نیچے
بھیجنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ملزم کو ذرائع ثابت کرنا تھے۔لندن فلیٹ درختوں پر
اگے یا من وسلوی کی طرح آسمان سے اترے۔جب نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے
کہا کہ یہ قانون نہیں تو چیف جسٹس برہم ہ وگئے۔بولے کہ قانون وہ وہوگا جو
ہم کہیں گے۔چیف جسٹس کا رویہ بڑا جارحانہ ہے۔ان کا یہ کہنا کہ اس فیصلے کو
معطل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ان کی ذہنی کیفیت کا غماز ہے۔ابھی جب کہ
شنوائی کا آغاز ہواہے۔اس طرح کے ریمارکس دینا عجب ہے۔ذرا تصور کیجیے اگر اس
طرح کے ریمارکس کسی دوسرے ادارے یا فرد کی طرف آتے تو اسے توہین عدالت
سمجھا جاتا۔اسے جاری کیس میں مداخلت سے تعبیر کیا جاتااس ضمن میں فواد
چوہدر ی کے ریماکس پر نیب کورٹ برہمی کا اظہار کرچکی ۔انہوں نے نیب کورٹ
میں سابق وزیر نوازشریف کے خلاف چلنے والے کیسز سے متعلق بیان دیا تھا کہ
سو فیصد نوازشریف کو سزاہوگی۔نیب کورٹ نے اس بیان پر برہمی کااظہار کیا
تھا۔نوازشریف کے وکیل کو کہا تھا کہ فواد چوہدری کے خلاف توہین عدالت کا
مقدمہ کریں۔اب چیف جسٹس صاحب بذات کسی کیس کی پہلی سماعت پر ہی اس قسم کا
اشارہ دیں جو آنے والے فیصلے کی جھلک ہوتو اسے کس طرح مناسب قراردیا جاسکتا
ہے۔ان کی یہ بات کہ یہ کیس نیچے بھیجنا ہی نہیں چاہیے تھابھی حیران کن
ہے۔کیا یہ عدالتی مہارت پر سوالیہ نشان نہیں ہے؟ کیا وہ اپنے اس فیصلے پر
مطمئن نہین ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر وہ دوسروں سے کیوں کر امید کرسکتے ہیں
کہ وہ ان فیصلوں سے مطمئن ہونگے؟ اگر کیس نچلی سطح پر چلاہی گیاہے تو کیا
قانون کو فالونہ کیا جائے؟اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کورٹ کا فیصلہ ہی تو
معطل کیا ہے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ تو نہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کا یہ کہنا
کہ اس فیصلے کو معطل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں نامناسب ہے۔آ پ اس کیس کی
شنوائی تو پوری کرلیں۔فیصلہ اپنی مرضی کے مطابق سنانا آپ کی صوابدید ہے۔آپ
نے نوازشریف کے وکیل کو کہا کہ قانون وہ ہوگاجو ہم کہیں گے۔یہ کہنا بھی
اچھا نہیں لگ رہا۔عدالتیں قانون کی تشریح کرسکتی ہیں۔یہ بھی درست ہے کہ اگر
کسی معاملے میں قانون راہنمائی نہ کرے تو کچھ عدالتی فیصلے رہنمائی کردیتے
ہیں۔اگر قانون سازادارے چاہیں تو اس معاملے پر بعد میں کوئی مناسب قانون
بنا سکتے ہیں۔چیف جسٹس کا یہ کہنا جائز نہیں کہ جو وہ کہیں گے وہ قانون
ہوگا۔سچ تو یہ ہے کہ قانون وہی ہوگا جو پارلیمان سے منظورہوگا۔عدالتیں
معاملات کے قانون کے مطابق ہونے یا ناہونے کا فیصلہ دینے کے لیے ہوتی
ہیں۔قانون بنانا ان کا کام ہرگز ہرگزنہیں ہوتا۔
چیف جسٹس کے ریماکس ہمارے ہاں عدالتوں کی عدم سنجیدگی کا پتہ دے رہے
ہیں۔ادارے ریاست کے مفادات کے امین ہوتے ہیں۔عوام کے لیے آسانیاں اور بہتری
لانے کے لیے۔ادارے اپنی ذمہ داریاں تبھی پوری کرسکتے ہیں جب وہ اپنی اپنی
حد میں رہیں۔عدلیہ کے لیے خاص کر اس احتیاط کی تاکید ہے۔عام روایت یہی ہے
کہ عدلیہ کے اعلی عہدے دارا ن کو پبلک میٹنگز سے دور رہنے کا کہا جاتاہے۔اس
لیے کہ ان کا رعب اور تکریم برقرار رہے۔عام بندے کی طرح اچھل کود کرتے رہنا
کبھی بھی پسند نہیں کیا گیا۔انہیں فیصلے بھی پوری طرح غیر جزباتی ہوکر کرنا
ہوتے ہیں۔ آنکھو ں پرپٹی باندھے آپ کو عدلیہ کی جو تمثیل نظر آتی ہے اس کا
مطلب بھی ججز کو ارد گردکے ماحول سے لاتعلق رہنے کی تاکید ہے۔اسے فریقین کی
شکل حلیے اور پوزیشن سے ہٹ کر صرف اور صرف مدعے کے جائز ناجائز ہونے پر
توجہ مرکوز رکھنا ہوتی ہے۔چیف جسٹس کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے
فقہ قانون تباہ ہوتانطر آتاہے۔اب وہ کیا کریں گے؟کیا اسلام آبا دہائی کو رٹ
کے فیصلہ سنانے والوں کے خلاف ریفرنس بھجوائیں گے؟ اس طرح تو عدلیہ کی ساکھ
مذید خراب ہوگی۔کیا بہتر نہ ہوتاکہ آپ بغیر کچھ ریمارکس دیے۔نیب کی جانب سے
پیش گئی اس اپیل پر مناسب شنوائیون کے بعد فیصلہ سنادیتے۔اداروں کی ساکھ ان
کے ریماکس سے کہیں زیادہ ان کی کارکردگی پر منحصر کرتی ہے۔ادارے جانے یہ با
ت کیوں بھول جاتے ہیں؟
|