صحافی جمال خاشقجی کا قتل سعودی عرب کے حکمرانوں کی ذلت و
رسوائی کا سبب بنا ہواہے۔ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان جنہوں نے
گذشتہ سال سعودی شہزادوں اوراعلیٰ عہدیداروں کو حراست میں لے کر عالمی سطح
پر اپنے اقتدار کی ڈھاک بٹھانے کی کوشش کی تھی جس کے بعد لاکھوں ڈالرس کی
ادائیگی کے عوض سعودی شہزادے اور اعلیٰ عہدیدار بشمول دنیا کے عرب پتی
شہزادہ ولید بن طلال شاہی قید سے چھٹکارہ پائے۔ مکہ مکرمہ کے خطیب و امام
ڈاکٹر صالح بن محمد آل طالب کو مبینہ طور پر حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا
نشانہ بنانے پر گرفتار کرلیا گیا اور ان کا انگریزی و عربی ٹوئٹر اکاؤنٹ
بھی ڈی ایکٹویٹ کردیا گیا۔ محمد بن سلمان ویژن 2030کے تحت جس طرح سعودی عرب
کو مغربی و یوروپی تہذیب و ثقافت کے دلدل میں ڈالنا چاہتے ہیں اسکے خلاف
آوازیں اٹھنے لگیں اور پھر ایک ایسی ہی آواز اُس مقدس و معتبر اور عظیم
الشان منبر ’’حرم مکی‘‘ سے اٹھی۔ شاید وہ 17؍ ا گسٹ ،جمعہ ہی کا دن تھا
جہاں خطبہ کے دوران امام و خطیب ، جج مکہ مکرمہ فضیلت الشیخ ڈاکٹر صالح بن
محمد آل طالب نے مغربی تہذیب و اقدار سے اجتناب کرنے کی تلقین کرتے ہوئے
نیک اعمال بجالانے کی نصیحت فرمائی اور عوام کو آگاہ بھی کیا کہ ان پر کیسے
اخلاق وکردار کے لوگ غالب آئینگے۔ خطیب مکہ مکرمہ نے اپنے جمعہ کے خطبہ میں
کہا کہ ’’: مسلمانوں اپنے آپ کو بچاؤ اور چوکنا رکھو، منافق مردو عورتوں کے
سرداروں سے، مغربی تہذیب سے، اور ہم وہی بات کرتے ہیں جو ہمارے بڑے علماء
کہتے ہیں، بچاؤ اپنے آپ کو ان ننگی ناچ گانے والی محفلوں سے اور گھٹیا قسم
کی محفلوں سے ، آسائشوں کی جگہوں سے، اورننگے پن سے اپنے آپ کو بچاؤ ،ان
جگہوں سے جہاں مردو عورتوں کے اختلاط ہوتے ہیں، بچاؤ اپنے آپ کو ناچ گانے
والی جگہوں سے، حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ یہ صرف ایک تفریحی عمل ہے ، نہیں
بلکہ یہ مغربی طریقہ کار ہے جس پر بتدریج یہ حکومت چل رہی ہے۔اہل مغرب کے
پاس سوائے اختلاط کے اور ناچ گانے کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے۔اور اس میں اس
ملک کے لئے بڑی شرمندگی ہوگی اور رسوائی ہوگی، اور بہت ہی خطرے کی بات ہے
جو یہ حکومت اپنے نوجوانوں کو پیش کررہی ہیں۔ اے مالوں کو بیجا خرچ کرنے
والو، عیش پرستو!تم لوگوں کے مال کو ضائع کررہے ہو حقیر چیزوں میں۔ تم پر
حسرت ہے اور عنقریب تم پر با اخلاق لوگ اور وہ عملہ غالب آکر رہے گا جو
پاکیزہ اقدار ، اخلاقی قدریں جن کے پاس ہیں ، عنقریب وہ عملہ تم پر غالب
آکر رہے گا جو اخلاق کے پیکر ہیں اور قرآن کریم کے یاد کرنے والے حلقے تم
پر غالب آکر رہینگے ۔ جس سے اس وقت تم مقابلہ کررہے ہیں۔ اور وہ جگہیں جہاں
سے پانچ وقت دن رات میں اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر کی آوازیں گونجتی ہیں جن کی
صداؤں سے ہمارے دل خوش ہوجاتے ہیں ، ہمارے دلوں میں اطمینان ہوتا ہے اور جس
کے ذریعہ ہمیں خوشی محسوس ہوتی ہے ، عنقریب یہ سب تم پر غالب آکر رہینگے۔
‘‘یہی وہ خطبہ جمعہ ہے جس کے بعد امام حرم مکی صالح بن محمد آل طالب کو حق
بات کہنے اور دنیا کے مسلمانوں خصوصاً سعودی عرب کے نوجوانوں اور مسلمانوں
کو فواحشات سے بچنے اور اپنے مالوں کو بُرے کاموں میں خرچ کرنے سے اجتناب
کرنے کی تلقین فرمائی ۔سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے ویژن 2030کے تحت
حالیہ ترقیاتی منصبوں کو روبہ عمل لانے کیلئے جس طرح مملکت میں خواتین کو
ڈرائیونگ کی اجازت، سینما گھروں کے کھولنے کی اجازت اور تفریحی مقامات پر
مردو خواتین کے اختلاط کو معیوب یاگناہ نہ سمجھتے ہوئے اجازت دینا شامل ہے
جس کے خلاف سچائی بیان کرنے پر خطیب مکہ مکرمہ کو حراست میں لے لیا گیا اور
نہیں معلوم انہیں رہا بھی کیا گیا یا نہیں وہ حرم مکی میں صرف امامت و
خطابت کے فرائض سے روک دیئے گئے ہیں یا پھر انہیں ابھی تک حراست میں ہی
رکھا گیا ہے تو اسکے لئے آواز اٹھانا ہم مسلمانوں کا فریضہ ہوگا۔استنبول کے
سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کا قتل اور انکی نعش کو جس طرح
تکڑے کرکے کیمکلس میں تحلیل کردینے کی خبریں ہیں اس کا بھی ابھی تک صحیح
علم نہیں ہوسکا ہے کیونکہ سعودی عرب کی جانب سے اس سلسلہ میں ابھی تک کچھ
نہیں کہا گیا ۔ امام کعبہ تمام امتِ مسلمہ کے امام ہیں اور ہم مسلمان انکی
رہائی کیلئے آواز اٹھانے کو اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ ان کے ساتھ کس قسم کا
معاملہ کیا جارہا ہے یا کیا گیا اس سلسلہ میں کوئی رپورٹس نہیں ۔
والد کی میت حاصل کرنے بیٹوں کا انتظار اور جنت البقیع میں تدفین کی خواہش
جمال خاشقجی کے دونوں بیٹے صلح خاشقجی اور عبداﷲ خاشقجی نے اپنے والد صحافی
جمال خاشقجی کے جسد خاکی کی حوالگی کیلئے سعودی حکومت سے درخواست کی ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق واشنگٹن میں نشریاتی ادارے سی این این کو انٹرویو دیتے
ہوئے صلح اور عبداﷲ خاشقجی نے اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ وہ انتہائی
نڈر، بہادر اور سخی تھے۔ 33سالہ عبداﷲ خاشقجی نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ان
کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ زیادہ دردناک نہیں ہوگا اور انہیں پرسکون موت
نصیب ہوئی ہوگی۔ اپنے والد کی نعش اب تک نہ ملنے پر ان کا کہنا تھا کہ ہم
اب تک اس غم سے باہر نہیں آسکے ہیں ، ہم صرف اپنے والد کے آخری رسومات کی
ادائیگی کرکے انہیں مدینہ میں جنت البقیع میں دیگر اہلخانہ کے پاس سپرد خاک
کرنا چاہتے ہیں۔ انہو ں نے بتایا کہ اس حوالے سے ہم نے سعودی حکام سے بات
کی ہے اور امید ہے کہ یہ جلد ہوسکے گا۔ انکا کہنا تھا کہ چند افراد میرے
والد کی قتل پر سیاست کررہے ہیں، جس کی ہم حمایت نہیں کرتے، عوامی رائے ہے
تاہم میرا ڈر یہ ہے کہ اسے سیاست زدہ کردیا گیا ہے ، لوگ تجزیے کررہے ہیں
جو سچائی سے دور کرسکتی ہے۔ عبداﷲ کا کہنا تھا کہ انکے والد کے آرٹیکلز پڑھ
کر، اس کی گہرائی میں جاکر ان پر کوئی لیبل لگانا آسان ہے اوریہ صرف لیبلز
ہیں کوئی بھی حقیقت نہیں جانتا۔ جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات کے حوالے سے
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں صرف ان ذرائع سے معلومات ملتی ہیں جن سے آپ کو ملتی
ہیں اور اس سے بھی ہم پر بوجھ بڑھ رہا ہے، سب کو لگتا ہے کہ ہمارے پاس جواب
ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔بڑے فرزند 35سالہ صلح خاشقجی
کا کہنا تھا کہ وہ بہت جلد جدہ واپس جاکر دوبارہ اپنی بینک کی نوکری کا
آغاز کرینگے تاہم ان کہنا تھا کہ مجھے ڈر ہے کہ میرے اس اقدام پر سوشل
میڈیا کیسا برتاؤ کریگا، میں نے سعودی عرب چھوڑنے سے قبل سعودی ولیعہد سے
ہاتھ ملایا تھا جس کی غلط تشریح کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تحقیقات
مکمل ہونے اور حقائق سامنے آنے کا انتظار کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ
ولیعہد نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ذمہ داروں کو انصاف کے کٹھرے میں لائیں گے اور
مجھے ان کی بات پر بھروسہ ہے ورنہ سعودی عرب نے اندرونی سطح پر تحقیقات کا
آغاز ہی نہیں کیا ہوتا۔
محمد بن سلمان کے خطرناک فیصلے اور سعودی عرب سے دوری
سعودی عر ب کے ساتھ مختلف اداروں اور ممالک کی جانب سے تعلقات کشیدہ ہوتے
جارہے ہیں۔ استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کا
قتل اور بعد قتل انکی نعش کو کیمکلس کے ذریعہ ضائع کئے جانے کی خبریں عام
ہونے اور نعش کے باقیات کا پتہ نہ ملنے کے بعدقتل کے احکامات جاری کرنے کے
سلسلہ میں شک کا دائرہ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی جانب بڑھتا جارہا ہے
اورایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی عرب کو عالمی سطح پر دباؤ اور تنہائی کا
سامنا کرنا پڑسکتا ہے اس سے قبل بعض پڑوسی عرب ممالک سعودی عرب کا ساتھ
دیتے نظر آرہے تھے لیکن مستقبل قریب میں یہ عرب ممالک سعودی عرب کا ساتھ
دیتے ہیں یا پھر دوری اختیار کرتے ہیں اس سلسلہ میں ابھی کچھ کہا نہیں
جاسکتا۔ان دنوں ایک کئی سال تک دنیا کے امیر ترین شخص کا اعزاز رکھنے والے
بل گیٹس نے بھی سعودی عرب کو بڑا جھٹکا دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بل
گیٹس کی ’’بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیسن‘‘ نے سعودی چیئرٹی ’مسک‘
(MISK)فاؤنڈیسن کے ساتھ شراکت داری ختم کردی ہے۔ بتایا جارہا ہیکہ مسک
فاؤنڈیشن کی بنیادگذشتہ سال سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے رکھی تھی۔
تفصیلات کے مطابق مسک فاؤنڈیشن نے بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے اشتراک
سے گذشتہ سال ایک منصوبے کاآغاز کیا تھا جس کا نام ’مسک گرانڈ چینلجز‘ رکھا
گیا تھا۔ گیٹس فاؤنڈیشن نے اس منصوبے کیلئے 50لاکھ ڈالر دینے کا اعلان کیا
تھا۔ تاہم مسک کے ساتھ شراکت داری ختم کرنے کے بعد اب وہ یہ رقم سعودی
فاؤنڈیشن کو نہیں دے گی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری
بیان میں بتایا جارہا ہے کہ ’ترک اور مغربی ممالک کی انٹلی جنس ایجنسیاں‘
کہہ رہی ہیں کہ ولیعہد محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا۔
اسی کو جواز بناکر بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے مسک فاؤنڈیشن کے ساتھ
شراکت داری ختم کرلی ہے۔
خوارک سے شدید متاثر یمن کے دو کروڑ بیس لاکھ افراد کا ذمہ دار کون۔؟
خوارک سے شدید متاثر یمن کے دو کروڑبیس لاکھ افراد کا ذمہ دار کون؟ صدریمن
عبدربہ منصور ہادی یا حوثی یا پھر سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک۔؟ آج
یمن جو پہلے ہی سے غربت زدہ اور معاشی اعتبار سے تنگدست ملک کہلایا جاتا ہے
اس کی حالت مزید ابتر ہوچکی ہے۔ یمن2015کے بعد مزید غربت اور تنگدستی کا
شکار ہوگیا ہے۔ 2015سے حوثی بغاوت نے یمن کے حالات کو مزید ابتر کردیا ہے
کیونکہ یمن کے صدر عبدربہ منصور ہادی کا ساتھ دیتے ہوئے سعودی عرب اور دیگر
عرب اتحادی ممالک نے جس طرح یمن پر 2015سے فضائی حملے کئے جارہے ہیں اور اس
کے جواب میں حوثی بغاوت بھی شدت پسندی اختیار کرچکی ہے اور وہ ایران اور
شیعہ ملیشیاء کے تعاون سے جوابی کارروائی انجام دے رہے ہیں۔یمن کی اس جنگ
میں لگ بھگ دو کروڑ 20لاکھ افراد جو ملک کی آبادی کا تین چوتھائی حصہ ہے
انہیں خوراک کی اشد ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے ریجنل
ڈائرکٹر گریٹ کیپلیئر کے مطابق پانچ سال کی عمر سے کم 18لاکھ بچوں کو
غذائیت کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور مزید چار لاکھ بچے غذائیت
کی شدید قلت کانشانہ بن چکے ہیں۔ 70لاکھ سے زائد بچوں کو خوراک کے عدم تحفظ
کا سامنا ہے اور جنگ کا خاتمہ بھی ان سب کو نہیں بچا سکے گا۔ انہوں نے
بتایا کہ جنگ ، صورتحال کو مزید ابتر بنارہی ہے، کیونکہ عرب دنیاکی یہ غریب
ترین قوم پہلے ہی خراب حالات میں جی رہی ہے۔ ریجنل ڈائرکٹر کے مطابق اگلے
30دن امداد کی تقسیم اور زندگیاں بچانے کے حوالے سے بہت اہم ہیں۔ بتایا
جارہا ہے کہ 2015سے چھ ہزار سے زائد بچے یا تو ہلاک کئے جاچکے ہیں یا وہ
شدید زخمی ہیں۔ اس تعداد کے بارے میں انکا کہنا ہے کہ یہ ہماری گنتی میں
آئی، لیکن ہم بڑے محفوظ طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسے بچوں کی تعداد بہت
زیادہ ہے۔ اس طرح یمن کے لوگ انتہائی غربت کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر
مجبور ہیں اور ان میں سے کتنے بھوک و پیاس اور ادویات کی کمی کی وجہ سے
ہلاک ہورہے ہیں اس کی صحیح رپورٹس ملنا بھی دشوار ہے۔ سعودی عرب اتحادی
فورسس اور حوثی باغی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ یمن کی اتنی بڑی تعداد میں
متاثر ہونے والوں کیلئے فوراً جنگ بندی کا اعلان کریں ۔
اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات
اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی دیکھی جارہی ہے۔ گذشتہ
ماہ کے اواخر میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو اپنی اہلیہ کے ساتھ
عمان کے سلطان قابوس سے ملنے پہنچ گئے جہاں انکا بہترین انداز میں استقبال
کیا گیا ، ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم اپنے دورے کے بعد
اسرائیلی کابینہ کو بتایاکہ انکی سلطان کے ہاں نہایت پرتکلف دعوت اور
روایتی عمانی موسیقی سے تواضع کی گئی اور انہوں نے کابینہ کوبتایا کہ سلطان
سے ان کی بات چیت اچھی رہی اور یہ وعدہ بھی ہوا کہ آئندہ ملاقاتیں ہوتی
رہیں گی۔جس وقت اسرائیلی وزیر اعظم یہ خوشبخری اپنی کابینہ کو دے رہے تھے
تو اس وقت کھیلوں اور ثقافت کی اسرائیلی وزیر میری رجا متحدہ عرب امارات کے
دارالحکومت ابوظہبی میں موجود تھیں جہاں وہ جوڈو کے بین الاقوامی مقابلے
دیکھ رہی تھیں۔جب ایک اسرائیلی کھلاڑی نے طلائی تمغمہ جیتا اور اسرائیل کے
قومی ترانے کی دھن بجائے گئی تو میری رجا جذبات سے مغلوب ہوگئیں اور
روپڑیں۔ بتایا جارہا ہے کہ جزیرہ نما عرب کی سرزمین پر یہ منظر پہلے کبھی
نہیں دیکھا گیا تھا۔ بی بی سی کے مطابق اس موقع پر ایک اور اسرائیلی افسر
کو دبئی میں کھڑے ہوکر ’امن اور سیکیوریٹی ‘ کی بات کرتے ہوئے بھی دیکھا
گیا۔ اسی طرح خلیجی ممالک کے ساتھ اسرائیلی روابط کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے
،گذشتہ دنوں اسرائیل کے وزیر ٹرانسپورٹ عمان کے صدر مقام مسقط میں اسرائیل
اور عرب ممالک کے درمیان ریلوئے لائن بچھانے کی بات کررہے ہیں۔ یہاں تعجب
کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ عرب خلیجی ممالک بشمول عمان، عرب امارات
کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان بڑھتے تعلقات
میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششیں شامل ہیں۔ عرب ممالک کے ساتھ بڑھتے
تعلقات پر فلسطین کو تشویش لائق ہے کیونکہ فلسطینیوں کو خطرہ ہے کہ ٹرمپ
انتظامیہ فلسطین پر دباؤ بڑھانے کیلئے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور
دیگر علاقائی ممالک کی جانب دیکھ رہی ہے اور یہ امریکی انتظامیہ فلطینیوں
کو ایک ایسے امن معاہدے پر مجبوراً رضا مند کرانے کی کوشش کررہی ہے جس سے
ان کے دیرینہ مطالبات پورے نہیں ہوتے۔ تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کی
سینئر عہدیدار حنان عشراوی کہتی ہیں کہ اسرائیل کو خطے میں اس طرح ایک
معمول کا ملک بنانے کی کوشش، جس میں اسرائیل فسلطینیوں کے ساتھ تعلقات
معمول پر نہیں لاتا اور ایک قابض طاقت بنا رہتا ہے ، اپنے مقاصد کے خلاف
جائے گی اور یہ خطرناک بھی ہے۔عشراوی کے خیال ہے کہ ان دنوں جو کچھ ہورہا
ہے اس سے اُس امن معاہدے کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے جس پر عرب لیگ کے 22ارکان
نے سنہ 2002ء میں دستخط کئے تھے۔ اس معاہدے کے مطابق اسرائیل کو صرف اس
صورت میں عرب ممالک کے ساتھ معمول کے سفارتی تعلقات پر اتفاق ہوا تھا جب وہ
ان عرب علاقوں سے مکمل انخلا کرے جو اس نے 1967ء کی جنگ میں چھین کر اپنے
زیر قبضہ کیا تھا۔ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب کو اسرائیلی
وزیر اعظم کے بیان نے تقویت پہنچا ئی ہے بنیامن نتن یاہو کا کہنا تھا کہ
اگرچہ خاشقجی کی ہلاکت ایک ’’ہولناک ‘‘ خبر تھی لیکن اس سے سعودی عرب کے
اندر عدم استحکام پیدا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اصل اور بڑا مسئلہ ایران ہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عرب ممالک ایران کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی
کرنے اور اسے خطے میں یکہ و تنہا کرنے کیلئے اسرائیل کے ساتھ بہتر تعلقات
چاہتے ہیں۔ جبکہ عرب ممالک کے عوام کا امن معاہدے کے بغیر دل جیتنا مشکل
بتایا جارہا ہے جن کے لئے مسئلہ فلسطین ایک جذباتی معاملہ ہے لیکن اب
دیکھنا ہیکہ مستقبل میں جمال خاشقجی کا قتل اور امام کعبہ فضیلت الشیخ صالح
بن محمد آل طالب کے ساتھ کس قسم کا معاملہ ہوا ہے اس سے کیا نتائج برآمد
ہوتے ہیں اور سعودی عرب کی شاہی حکومت پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے۰۰۰ |