امریکی خوشنودی سدا سے پاکستانی قیات کی کمزوری رہی ہے
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو شیشے میں اتارنے کیلئے امریکہ ہر بار نیا حربہ
استعمال کرتا ہے ۔سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا سابق جنرل پرویز مشرف
کے ساتھ ایوا نِ صدر میں کرکٹ کا نمائشی کھیل سجانا اسی سلسلے کی کڑی تھی
تاکہ پاکستانی قیات کواپنی قربت کا احساس دلاکر انھیں اپنے مقاصد کیلئے
استعمال کیا جا سکے ۔دونوں صدور ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے یوں چلتے تھے جیسے
برسوں کا یارانہ ہو اور انکی دوستانہ روش یوں ہی ائم و دائم ر ہنی ہو
حالانکہ یہ سب شعبدہ بازی تھی کیونکہ اس وقت امریکہ کو پاکستان کی ضرورت
تھی لہذا پاکستانی صدر کو قربتیں عطا کی جاتی تھیں تاکہ وہ امریکی جال میں
پھنس جائیں ۔امریکہ صدور کو اس بات کا پختہ یقین ہے کہ پاکستانی حکمران
قومی مفادات کا سودا کرتے دیر نہیں لگا تے بلکہ کچھ تو وطن کی بیٹیوں کو
چند ڈالروں کے عوض بیچ دینے میں کوئی ند ا مت محسوس نہیں کرتے لہذا امریکی
صدورقومی مقاصد کے حصول کی خاطر ڈالروں کی بارش کرنے میں کسی بخل کا اظہار
نہیں کر تے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اس کی بین مثال ہیں ۔اس بات کا اعتراف
خودجنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں کیا ہے کہ انھوں نے لین دین کے دھندے
میں کس طرح لاکھوں ڈالر کمائے۔امریکہ کو بھی اپنے ڈالروں کی طاقت کا اندازہ
ہے اس لئے وہ ڈالر حربے کو آزماتے رہتے ہیں جسے پاکستانی حکمران ہنسی خوشی
جھیل جاتے ہیں ۔ہمارے حکمران امریکی خوشنودی کی خاطر زہر کو قند کہنے سے
بھی نہیں ہچکچاتے تا کہ امریکی ناراضگی کا کہیں کوئی شائبہ نہ ہو۔قوم کی
بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کس نے اغوا کیا تھا؟ کس نے امریکہ کے حوالے کیا
تھا؟ کس نے دام وصول کئے تھے؟ اور کون تھا جس نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو
رہائی دلوانے سے معذرت کر لی تھی کوئی سر بستہ راز نہیں ہے ۔ ایک زندہ دل
کمانڈو تھا جو کبھی اس ملک کا حکمران ہوا کرتا تھا اور خود کو اس ملک کا
نجات دہندہ سمجھا کرتا تھا۔اسے زعم ہو گیا تھا کہ وہ اس قوم کی تقدیر بدل
سکتا ہے اور پاکستان کی ڈھولتی، ہچکولے کھاتی کشتی کو ساحلِ مراد سے ہمکنار
کر سکتا ہے ۔ لیکن سب ڈھونگ نکلاکیونکہ قوم کی تقدیر بننے کی بجائے مزید
بگڑگئی ۔کچھ لوگوں کو آج بھی زعم ِ باطل ہے کہ وہ اس ملک کے نجات دہندہ ہیں
۔اس طرح کی منتشر سوچ کا کسی کے پاس کوئی علاج نہیں ہوتا ۔ایسی سوچ کے حامل
ناگزیر لوگ قبرستانوں میں گہری نیند سو رہے ہیں ۔ آج کل سابق کمانڈو کی
اپنی کشتی ڈول رہی ہے اور وہ وطنِ عزیز میں قدم رکھنے کی ہمت نہیں کر رہا
کیونکہ اسے علم ہے کہ آئینی بغاوت کا مقدمہ اس کا انتظار کر رہا ہے ۔ اسے
پاکستان سے فرارکی سہولت تو ایک دفعہ ان کے مہربان دوستوں کی بدولت مل گئی
تھی لیکن ایسا روز روز نہیں ہو ا کرتااس لئے وہ خوف زدہ ہے ۔ اس پر دفعہ چھ
کا مقدمہ ہے جس کی سزا موت ہے لیکن اس کمانڈو کو موت نہیں زندگی عزیز ہے اس
لئے چھپتا پھر رہا ہے ۔ کمانڈو ہونے کے باوجود وہ ڈر گیا ہے ۔اسے کئی بار
منصفوں نے بھی یقین دلا یاہے کہ اسے وطن واپسی پر گرفتار نہیں کیا جائیگا
لیکن وہ کسی کی بات کا یقین نہیں کر پا رہا ۔ مارشل لاکے حمائیتی کئی
سیاستدان جنرل پرویز مشرف کے کارواں میں شامل ہو ئے اور اسے دس بار وردی
میں صدر بنانے کے نعرے بلند کرنے لگے ۔ وہ آجکل نئے پاکستان میں اہم مناصب
پر فائز ہیں اور ملک کو بدلنا چاہتے ہیں اور کھلے عام دھوکہ دہی کے مرتکب
ہو رہے ہیں ۔ستم ظریفی کی انتہا تو دیکھئے کہ کمانڈو کو تو طلب کیا جا تا
ہے لیکن اس کے وہ ساتھی جو ایمرجنسی کے غیر آئینی اقدام پر اس کے حامی اور
خوشہ چین تھے پاکستان میں دھندناتے پھر رہے ہیں لیکن کوئی ان پر ہاتھ نہیں
ڈالتا ۔کچھ لاڈلے تو وزارتوں پر برا جمان ہیں۔کیا کہئے گا اس پر ؟ کیا یہی
قانون کی حکمرانی ہے کہ آئین کو روندنے والے کے ہر کاروں کو اقتدار کا
سنگھاسن سونپ دیا جائے اور ان سے کوئی باز پرس نہ کی جائے حالانکہ جنرل
پرویز مشرف کی آئین شکنی میں وہ بھی برابر کے حصہ دار ہیں۔،۔
تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ یہ دنیا دل والوں کی دنیا ہے اور اس میں دل
والے ہی سدا حکمرانی کرتے ہیں ۔خاک کا پتلا ظاہری خدو خال سے نہیں بلکہ دل
کی دولت سے پہچانا جاتا ہے۔یہ ظاہری ڈھیل ڈول کے پیکر کا نہیں بلکہ دل کی
دلاوری کا معاملہ ہوتا ہے لہذااگر کوئی دل سے ڈر جائے تو اسے کسی کی یقین
دہانی بھی جرات عطا نہیں کر سکتی۔ہر کوئی ذولفقار علی بھٹو تو ہو نہیں سکتا
جو سچائی کی خاطر،آئین کی خاطر،قانون کی خاطر، جمہوریت کی خاطر،عوام کی
خاطر، سرِ دار جھول جائے ۔ ایسا کبھی کبھار ہو تا ہے اور صدیوں تک لوگ ایسے
انسان کی عظمتوں کے گن گاتے ہیں۔یہ غیر معمولی واقعہ ہوتا ہے کہ اشرافیہ ے
تعلق رکھنے والا کوئی انسان آئین و قانون کی حر مت کی خاطر موت کو گلے لگا
لے۔میاں محمد نواز شریف اور ان کی دلیر سپتری نے ۱۳ جولائی کو اپنی گرفتاری
پیش کر کے ایک نئی تاریخ رقم ضرور کی تھی لیکن ابھی تک ان کا چہرہ کرپشن کے
الزامات سے مکمل صاف نہیں ہوا۔جس دن وہ کرپشن کے الزامات سے بری ہو جائیں
گے ان کی گرفتاری بھی پاکستانی معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ڈاکٹر
عافیہ صدیقی کی گرفتاری کے بعد کئی حکومتیں آئیں سب نے بنیادی انسانی حقوق
کا رونا رویا لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ امریکی ناراضگی مول
لیتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی کوشش کرتا ۔ سب نے خاموشی کی چادر
اوڑھ رلی اور یوں قوم کی بیٹی امریکی جیلوں کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں
اپنے حکمرانوں کی بے حسی پر خو ن کے آنسو بہاتی رہی ۔اخبارات کی حد تک بڑی
بیان بازی ہوتی تھی لیکن درپردہ کوئی اقدام نہیں ہوتا تھا ۔ڈاکٹر عافیہ
صدیقی کو گرفتار ہوئے کئی سال گزر چکے ہیں لیکن معاملہ وہی پر ہے جہاں پر
پہلے دن تھا۔سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی رہائی کیلئے حامی
بھری تھی لیکن پھر کبھی اس موضوع پرلب کشائی کرنا مناسب نہ سمجھا ۔ وزیرِ
اعظم عمران خان بھی عافیہ صدیقی کے بڑے حامی اور طرفدار تھے اور ان کی
گرفتاری کو امریکی دھشت گردی سے تعبیر کرتے تھے ۔اب دیکھتے ہیں ان کی حکومت
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کامعاملہ اٹھا تی ہے یا اپنے پیشرووں کی طرح اس پر ٹھنڈا
پانی ڈال دیتی ہے ۔آجکل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کو آسیہ بی بی اور شکیل
آفریدی سے جوڑا جا رہا ہے لہذا ایسی مشروط رہائی عوام کوقبول نہیں ۔ غدارِ
وطن اور ناموسِ رسالت ﷺ میں فرق کو ملخوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے ۔ کوئی حد
ہوتی ہے بے حسی اور بد نیتی کی ۔ ہمارے قو ل و فعل میں بڑے تضادات ہیں
کیونکہ ہم اپنی ضرورت کی خاطر اپنے ہی کہے ہوئے الفاظ سے مکر جاتے ہیں ۔
تواتر سے کہا جاتا تھا کہ آئین کی شق ۶۲کا اضافہ ایک آمر کا تحفہ ہے لہذا
اسے آئین سے نکال دینا چائیے لیکن اپنے سیاسی حریفوں پر اس کا اطلاق ہو ا
اور وہ اس شق کی گرفت میں آئے تو اس شق کیلئے دلائل کے انبار لگا دئے تا کہ
راستہ صاف ہو جائے ۔ پولیس غیر سیاسی ہو گی لیکن اعظم سواتی اور خاور
مانیکا کا عمل اس کے بالکل برعکس نکلا ؟نائن الیون کے بعد امریکہ نے
پاکستان کو ڈالروں کے عوض خوب استعمال کیا۔کیا یہ ڈالراتنے اہم ہیں کہ ہم
قومی مفاد کو پسِ پشت ڈال کر امریکی دم چھلہ بن جائیں ؟ سچ تو یہ ہے کہ
امریکی ڈالر چند مخصوص خاندانوں کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں اور پاکستانی
عوام پہلے کی طرح غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں ۔عجیب اتفاق ہے کہ وہ لوگ
جو کل تک جنرل پرویز مشرف کے ساتھی تھے وہ پی پی پی حکومت میں آ گھسے ،مسلم
لیگ (ن) کی حکومت کا حصہ بنے اور اب وہی چہرے پی ٹی آئی کی صفوں میں برا
جمان ہیں اور ان کی امانت و دیانت اور شرافت کیلئے زمین و آسمان کے قلابے
ملائے جا رہے ہیں ۔ یہ حلقے اتنے طاقتور اور حیلہ باز ہیں کہ انھیں پیچھے
دھکیلنا ناممکن ہے۔ہر جماعت ان کی تمنائی ہے اور وہ بڑے طمطراق سے اپنی
شرائط پر من پسند جماعتوں میں داخل ہو کر امریکی ایجنڈے کو تقویت دیتے ہیں
۔ اخبارات کی حد تک ان کی زبانیں امریکی تسلط کے خلاف بیان داغیں گی،ڈروں
حملوں کی مذمت کریں گی اور چرب زبانی کی ایسی انتہا کریں گی کہ انسان شسدر
رہ جائے لیکن اندرونِ خانہ وہی حیلہ بازی اور قدم بوسی ۔ عوام کو بیوقوف
بنانے کا وہی قدیم نسخہ۔منافقت اور دوغلے پن کی انتہا ۔اس دوغلے پن اور
منافقت کو علامہ اقبال نے کمال مہارت سے ایک شعر میں طشت از بام کر دیا
ہے۔سنئیے اور وجد میں آ جائیے۔ (زبان سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
۔،۔ دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں) |