برسوں پہلے کسی نااھل بادشاہ کے بارے میں کسی بزرگ نے ایک
واقعہ سنایا تھا قصہ کچھ یوں تھا کہ ایک ملک کا بادشاہ بیمار پڑگیا نئے
بادشاہ کے انتخاب کے لئے ایک پرندے کو میدان میں لایا گیا بہت سارے لوگوں
کو اکٹھا کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ یہ پرندہ جس شخص کے کندھے پر بیٹھ
گیا اسی کو بادشاہ بنایا جائے گا یوں پرندے کو بادشاہ کے انتخاب کے چھوڑا
گیا پرندہ ایک قلندر کے کندھے پر بیٹھ گیا
قلندر تخت پر بادشاہ بن کر بیٹھ گیا بادشاھت کا نظام چل پڑا اس دوران کسی
دشمن ملک کی طرف سے بادشاہ سلامت کی حکومت کو دھمکی دی گئی بادشاہ تک یہ
خبر وزیروں کے ذریعے پہنچائی گئی تو بادشاہ سلامت نے اپنے وزرا کو حکم دیا
کہ حلوہ پکایا جائے
کچھ دنوں بعد دشمن کی فوجوں کی پیش قدمی کا بتا یا گیا بادشاہ نے حکم جاری
کیا کہ حلوہ پکایا جائے
فوجیں بادشاہ کے تخت کے کچھ ھی فاصلے پر پہنچ گئیں توبادشاہ سلامت کو آگاہ
کیا گیا کہ باھر فوجیں تخت کی عمارت کی قریب پہنچ گئی ھیں بادشاہ سلامت یہ
سن کر اٹھے اور کہا کہ چلو چلو یہاں سے بھاگو ھم قلندر ھیں حلوہ پکا سکتے
ھیں حکومتیں کرنا ھمارے بس کا کام نہیں ھے
ملکی خزانے کے خالی ھونےکارونا تو برسراقتدار آنیوالی ھماری ھر نئی حکومت
ھی رویا کرتی ھے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ھے کہ اتنا واویلا اور چیخ و پکار
اس سے پہلے کسی اور حکومت نے نہیں مچائی تھی جبکہ ماضی کی کئی حکومتوں کو
خزانے کے خالی ھونے کے ساتھ ساتھ کئی گھبیر مسائل کا سامنا بھی رہا 2013میں
برسراقتدار آنے والی نواز حکومت کو زرداری صاحب کی پانچ سالہ حکومت کےبعد
جن مصائب اور مشکلات کا سامنا تھا اگر آج عمران خان صاحب کو بھی وہ مسائل
درپیش ھوتے تو نہ جانے وہ کیا کر بیٹھتے زرداری حکومت میں سولہ سولہ گھنٹے
ملک میں اندھیروں کا راج رہا کوئی صنعت کوئی کارخانہ اپنی پوری طاقت کے
ساتھ نہیں چل رہا تھا ملک بھر میں خودکش حملہ آوروں اور دہشتگردوں کا راج
تھا ہزاروں لوگ مارے جا رھے تھے کراچی آگ میں جل رہا تھا عمران خان صاحب کو
شکر ادا کرنا چاھئے کہ انہیں حکمرانی کے لئے یسے حالات نہیں ملے یہ بجلی کا
بحران ایسے ھی حل نہیں ھوگیا توانائی کے بحران کے حل کے لئے جو کارخانے
لگائے گئے ان پر یقیننا کوئی رقم خرچ ھوئی ھوگی اس کے علاوہ ملک بھر میں
سڑکوں اور شاھراؤں کی نئی تعمیر اوران کے قیام کا کوئی ایسے ھی ممکن نہیں
ھوا ھم سب اچھی طرح جانتے ھیں کہ دہشتگردوں سے نمنٹنے کیلئے حکومت کو ضرب
عضب آپریشن کے لئے اربوں روپے خرچ کرناپڑے حکمرانی کرنا کوئی بچوں کا کھیل
نہیں الزام تراشی اور دشنام طرازی کرنا آسان کام ھے کسی انسان کی قابلیت کا
پتا اسی قت چلتا ھے جب اسے ان حالات میں حکمرانی سونپ دی جائے
عمران خان کا اصل امتحان تو اب شروع ھوا ھے
خان صاحب جب ملکی قرضوں سے متعلق اعدادوشمار قوم کے سامنے رکھتے ھیں تو اس
میں مبالغہ آرائی ھوتی ھے انہیں انتہائی گھمبیر اور خوفناک بنا کر پیش کرتے
ھیں کہ فلاں دور میں ہمارے ملک پر اتنا قرض تھا اور آج اتنے ہزار ارب ھوگیا
لیکن وہ اصل حقائق سے نظریں چرا کر قوم کے سامنے ایک غلط اورمبہم تصویر پیش
کررھے ھوتے ھیں ہم سب جانتے ھیں کہ ستر کی دہائی میں روزمرہ کی اشیا کس دام
ملا کرتی تھیں اور آج ان کی قیمتیں کہاں پہنچ چکی ھیں اس وقت ڈالر ڈھائی
روپے کا ھوا کرتا تھا آج 130 روپے سے اوپر جا رہا ھے اس تناسب سے ہر چیز آج
دنیا بھر میں مہنگی ھو چکی ھے خان صاحب نے تولوٹا ھوا پیسہ واپس لانے کی
باتیں کی تھیں کسی سے بھیک نہ مانگنے کے دعوے کئے تھے اقتدار ملتے ھی سارے
دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے خان صاحب آپ کہیں پرانے دور کے قلندر کی بادشاھت
کو نہ دھرا دیں\ |