لطفِ منزل نہ سہی حسرتِ منزل ہی سہی

متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک گھرانے کی بیٹی کا بہت اچھی جگہ ایک پڑھے لکھے برسرروزگار خوبرو نوجوان سے رشتہ طے ہؤا دھوم دھام سے منگنی ہوئی پھر تقریباً ڈیڑھ سال بعد شادی کی تاریخ مقرر کی گئی ۔ ایک روز جبکہ شادی میں ٹھیک تین ہفتے باقی رہ گئے تھے لڑکی اپنی ماں کے ساتھ شاپنگ کے لئے نکلی ۔ بس سٹاپ پر کھڑی دونوں اپنی بس کا انتظار کر رہی تھیں کہ ان کی مطلوبہ بس آ گئی مگر اچانک ہی پیدا ہونے والی کسی فنی خرابی کے باعث وہ ڈرائیور کے قابو سے باہر ہو کر فٹ پاتھ پر چڑھ گئی ۔ سب لوگ بچ نکلے مگر یہ دونوں ماں بیٹی اس کی زد میں آ گئیں اور شدید زخمی ہو گئیں ۔ ماں کی دونوں ٹانگیں کچلی گئیں جبکہ لڑکی نے موقع پر ہی دم توڑ دیا ۔

جنازے پر اس کا منگیتر شدتِ غم سے نڈھال تھا تدفین کے بعد جب سب لوگ دعا وغیرہ سے بھی فارغ ہو گئے تو لڑکے نے اپنی مرحومہ منگیتر کے گھر والوں اور اس کے خاندان کے بزرگوں سے اس کی ایک گذارش سننے کی استدعا کی اور بولا آپ کی بیٹی سے میری ڈیڑھ سال منگنی رہی اگر یہ سانحہ پیش نہ آتا تو تین ہفتوں بعد وہ میرے نکاح میں آ جاتی مگر اللہ کی مرضی نہیں تھی میں اس کا نامحرم ہی رہا اور وہ دنیا سے رخصت ہو گئی ۔ میرا اس سے شرعاً نہ سہی مگر دنیاداری کے حساب سے کچھ نہ کچھ رشتہ تو تھا بس اسی ناطے سے میں چاہتا ہوں کہ اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو کبھی کبھار اس کی قبر پر آ جایا کروں فاتحہ خوانی کروں اس کی روح کو کچھ ایصال ثواب کر دیا کروں اور اس کے لئے مجھے آپ کی اجازت درکار ہے ۔

یہ موبائل فون کی آمد سے بھی پہلے کے اس دور کی بات ہے جب عام طور پر جاننے والوں بلکہ خاندان میں تک منگنی کے بعد لڑکی لڑکے کا ایکدوسرے سے پردہ کروا دیا جاتا تھا اور یہ تو دو بالکل اجنبی اور غیر خاندانوں میں منگنی کے بعد قائم ہونے والا رشتہ تھا جو لڑکی کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو گیا ۔ تو لڑکے کا لڑکی کی قبر پر آنے کی اجازت لینا تو بنتا تھا ۔

یہ دنیا بڑی ظالم جگہ ہے یہاں ایک سے ایک وفادار اور ساتھ نبھانے کے دعویدار بدل جاتے ہیں بھول جاتے ہیں اور مرنے والے کے ساتھ تو کوئی بھی نہیں مرتا ۔ مگر یہ لڑکا بہت مختلف نکلا منگیتر کی حادثاتی اور المناک موت نے اس کے دل و دماغ پر بہت گہرا اثر ڈالا تھا اور وہ اس سے نکل نہیں پا رہا تھا ۔ وہ اکثر اپنی منگیتر کی قبر پر چلا جاتا اور دیر تک وہاں بیٹھا رہتا ۔ گھر والے اس کا دوسری جگہ رشتہ طے کرنا چاہتے تھے مگر وہ راضی نہیں ہوتا تھا کہ وہ نہیں تو اب کوئی بھی نہیں ، وہ مر گئی تو کیا ہؤا وہ اب بھی میرے دل میں رہتی ہے میرے لئے اس کی یاد ہی کافی ہے ۔

گھر والے بیچارے کہیں بھی کوئی بات چلانے کی کوشش کرتے تو لڑکے کی حالت اور معاملے کا علم ہونے کے بعد لڑکی والے خود ہی انکار کر دیتے ۔ ایک عرصے تک وہ لڑکا اس صدمے سے سنبھل نہیں پایا تھا پھر اس کے بعد کی ہمیں خبر نہیں خدا جانے کب تک بن باس لئے بیٹھا رہا ۔ بس ہوتے ہیں کچھ ایسے سرپھرے بھی جن کے لئے کسی بچھڑے ہوئے کی یاد بھی بہت ہوتی ہے کسی کھوئی ہوئی محبت میں مر مر کے جینا بھی کم نہیں ہوتا ۔

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 223 Articles with 1682937 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.