نئے چہرے، نئی محبت

نئے پاکستان میں بہت کچھ نیا دیکھنے کو ملتی رہا ہے۔ سابقہ حکمرانوں میں کوئی امریکہ پر نثار تھا تو کوئی انڈیا پر جان چھڑکتا تھا۔ مگر نئے پاکستان کے نئے اراکین اسمبلی کے کیا کہنے جن کو اسرائیل بھا گیا ہے۔ اور بیانات کے لیے وقت کا تعین دیکھیے ادھر ظالم و جابر اور قابض اسرائیل غزہ میں نہتے مظلوم مسلمان بچوں تک کو نشانہ بنا رہا ہے اور یہاں اسرائیل اور اسرائیلی عوام کے گن گائے جا رہے ہیں۔ ذرا منصفانہ جائزہ لیا جائے تو حقیقت آشکار ہو جاتی ہے مگر یہاں تو آج کے جدید دور میں دور کا پلیٹ سے زیادہ جہالت ٹیکتی نظر آتی ہے۔ ایسی قوم جو اپنے دجل و فریب، اللہ مالک الملک کی نافرمانیوں اور انبیاء جیسی مکرم ہستیوں کو قتل کرنے کے سبب اللہ کے ہاں مبغوض ٹھہری، ان کے ہاں محبوب و معزز ٹھہری۔ الامان الحفیظ۔

قصہ کوتاہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی رکن اسمبلی محترمہ عاصمہ حدید صاحبہ نے اسرائیل کی محبت میں ساری حدود عبور کر ڈالیں اور مناقب بنی اسرائیل میں خوب رطب اللسان ہوئیں۔ موصوفہ معترف ہیں کہ زیادہ علم نہیں رکھتیں تو گزارش ہے کہ اپنی نیم حکمت سے خطرۂ ایمان کیوں بنتی ہیں۔ ایسی بحث میں کیوں پڑتی ہیں جس سے ان کا کچھ سابقہ نہیں۔ محترمہ کی معروضات سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم اپنی کچھ معروضات پیش کیے دیتے ہیں اس امید سے کہ
شاید کہ تیرے دل۔میں اتر جائے میری بات

پہلی اور بنیادی بات تو یہ ہے کہ پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے سابقہ مذاہب منسوخ قرار پاتے ہیں لہذا اب اگر کوئی آسمانی مذہب قابل اتباع ہے تو وہ تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہے احکام بھی اس کے معتبر ہیں اور شعائر بھی۔ دوسرے دینی اخوت اور مذہب کا رشتہ سب سے مضبوط اور اولی ہے۔ اور کسی مسلم کا غیر مسلم سے کوئی واسطہ نہیں حتی کہ کوئی غیر مسلم کسی مسلم کا وارث تک قرار نہیں پا سکتا۔ پھر یہود تو وہ قوم ہے جس کو میرے نبی کی بعثت اس قدر ناگوار گزری کہ وہ ان سے حسد کرتے ہوئے ان پر ایمان لانے سے باز رہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا یقین حاصل کر چکے تھے۔ پھر کون سی خرابی ہے جو اس قوم میں نہیں۔ اللہ کا بیٹا یہ مانتے ہیں، بچھڑے کو معبود انھوں نے مانا۔ غرق کی کاشت کاری یہ کرنے چلے، اتنا نہیں کرتے کہ توبہ و استغفار کریں اور اصلاح احوال کریں۔

مقام حیرت و حسرت ان لوگوں کے لیے ہے کہ جو ان کی حمایت کرنے پر تلے ہیں۔ اور دعوی یہ کہ تاریخ کا مطالعہ رکھتے ہیں۔ پھر بھلا کیسے اس قوم کے کارہائے نمایاں سے چشم پوشی ممکن ہے۔ کتنے خوش بخت و خوش نصیب تھے وہ لوگ جنھوں نے ریاست مدینہ کے والی کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت لی اور یہودیت کو خیر باد کہہ دیا مگر جو ہٹ دھرم تھے جن کے دلوں میں کمی تھی وہ بدستور ایمان لانے سے منکر رہے۔ مزید حیرت ان لوگوں پر جو ان کی مداح سرائی میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔

اس پر مستزاد یہ کہ مان بھی لیا کہ اس وقت دنیا میں ہر طرف مسلمان مظلومیت کا شکار ہے پھر بھی مسلمان سے ہی کہا جاتا ہے کہ اصلاح کر لے۔ ظالم کا ہاتھ نہیں روکا جاتا۔ یہ خبر تو آ جاتی ہے کہ غزہ سے اسرائیل پر فائر کیے گئے راکٹ سے ایک کتا زخمی ہو گیا مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ اسرائیلی فضائی حملے میں کتنے فلسطینی شہید ہوئے۔ کتے بے گھر ہوئے اور کتنے معذور۔ دنیا کے دوہرے معیار آخر کب تک چلیں گے اور ظلم کی یہ تاریک شب کب ڈھلے گی۔ کب ان مظلوم و بے کس لوگوں کو منزل ملے گی۔ اور کب تک ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والے ہاتھ دشمن کی راہوں میں پھول بچھاتے رہیں گے۔

آئے روز حکومت وقت نے کوئی نیا مسئلہ کھڑا کیا ہوتا ہے۔ کیوں نہیں اسلامی نظریاتی کونسل سے سفارشات طلب کی جاتیں تاکہ مسائل پر متفقہ رائے پیش ہو سکے اور ہم جگ ہنسائی کا سبب نہ بنیں۔ سیاسی بلوغت اگرچہ تاخیر سے آئے مذہب میں تو متانت و سنجیدگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنا چاہیے۔ امید واثق ہے کہ ان معروضات کو بنظر غائر ملاحظہ کیا جائے گا اور اس پر غورو خوض کر کے کسی ممکنہ بہتری کی طرف قدم بڑھایا جائے گا تاکہ
ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے

 

Muhammad Naeem Shehzad
About the Author: Muhammad Naeem Shehzad Read More Articles by Muhammad Naeem Shehzad: 144 Articles with 120845 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.